نوازشریف نے کہا میں اور بھی بہت کچھ کہہ سکتاہوں کہ مجھے مقدمات میں کیوں الجھایا گیالیکن قوم وملک کامفادمجھے اس سے زیادہ کچھ کہنے کی اجازت نہیں دےرہا آپ اگر پاکستان کی تاریخ سےواقف ہیں تو آپ کو بخوبی علم ہوگا کہ ایسے مقدمات کیوں بنتے ہیں؟کن لوگوں پر بنتے ہیں؟اور
ان لوگوں کا اصل گنا کیا ہوتا ہے ان کا اصل گناہ صرف ایک ہی ہوتا ہے کہ پاکستان کے عوام کی بھاری اکثریت انہیں چاہتی ہے ان پر اعتماد کرتی ہے انہیں قیادت پر بٹھاتی ہے وہ عوام کی نمائندگی کرتے ہیں وہ آئین اور قانون کے تحت عوام کی حاکمیت قائم کرنا چاہتے ہیں وہ ملکی
پالیساں اپنے ہاتھ میں رکھنا چاہتے ہیں میں بھی اسی راستے کا ایک مسافر ہوں میں بھی چاہتا ہوں کہ عوام کی مرضی کا احترام کیا جائے ان کے ووٹ کی عزت کی جائے ان کی مرضی پر اپنی مرضی مسلط نہ کی جائے آئین کا احترام کیا جائے تمام ادارے اپنی طے کردہ حدود میں رہیں
پالیسیاں عوام کے منتخب نمائندے ترتیب دیں کیونکہ انہی کو عوام کی عدالت میں جانا اور احتساب کیلئے پیش ہونا ہوتاہے یہ ہے میرے جرائم کا خلاصہ
اس طرح کے جرائم اور اسطرح کے مجرم ہماری تاریخ میں جابجا ملتے ہیں کاش ایسا ممکن ہوتا کہ آپ نوابزادہ لیاقت علی خان کی
روح کو بلاک کر یہی سوال پوچھ سکتے کہ آپ کو کیوں شہید کردیا گیا؟ کاش آپ ذوالفقار علی بھٹو کی روح کو طلب کرکے یہی سوال پوچھ سکتے کہ آپ کیون پھانسی چڑھادیا گیا؟ کاش آپ بے نظیر بھٹو کی روح کو اس عدالت میں بلا کر پوچھ سکتے کہ
بی بی آپ کو کیوں قتل کر دیا گیا ؟
کاش آپ مقبول منتخب وزرائے اعظم کو بلا کر یہ سوال پوچھ سکتے کہ آپ میں سے کوئی ایک بھی اپنی آئینی معیاد کیوں پوری نہیں کرسکا؟ کاش آپ اس دنیا سے گزرجانے والے اور ایک زندہ جرنیل سے پوچھ سکتے کہ آپ میں ایسی کیا خوبی تھی کہ مجھے ہائی جیکر کہیں یا سسلین مافیا کہیں
یا گاڈ فادر وطن دشمن کہیں یا غدار مجھے کسی نام کسی لقب سے کچھ فرق نہیں پڑتا میری صداقت اور امانت پر سوال اٹھائیں مجھے کچھ فرق نہیں پڑتا میں پاکستان کا بیٹا ہوں
اور اس مٹی کا ایک ایک ذرہ مجھے اپنی جان سے بھی پیارا ہے میرے بزرگوں نے اس پاکستان کے لیئے ہجرت کی
اور لاکھوں دوسرے مسلمانوں کی طرح اپنا سب کچھ چھوڑ کر یہاں آئے کسی سے حب الوطنی کا سرٹیفکیٹ لینا میں اپنی حب الوطنی کی توہین سمجھتا ہوں،میں نے عوام کے اعتماد کو ہمیشہ ایک اعزاز بھی سمجھا اور بہت بڑا امتحان بھی، میں نے اس ملک اور عوام کی حالت بدلنے کے لیئے
جو کچھ کیا اسے اللہ کی خصوصی عنایت سمجھتا ہوں آج پاکستان میں موٹرویز اور شاہراہوں کا جال بچھا ہے پشاور سے کراچی تک موٹروے کا خواب شرمندہ تعبیر ہونے کو ہے میں اللہ کے حضور احساس تشکر کے ساتھ یہ کہنا چاہتا ہوں کہ گزشتہ5سال میں ہماری حکومت نے کتنے کام کئے
ان کی مثال گزشتہ 65سالوں میں نہیں ملتی، سی پیک کا منصوبہ اور اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری ایک ابھرتے ہوئے پاکستان کی نوید بن رہی ہے، شورش زدہ بلوچستان کو ہم نے امن دیا، بوری بند لاشوں، بھتوں اور ہڑتالوں والے کراچی کو بدامنی سے نکال کر روشنیوں اور رونقوں کی طرف
واپس لائے19سال بعد اس ملک میں مردم شماری کراچی فاٹا کو قومی دھارے میں لانے کےلئے اصلاحات کیں زرعت پیشہ لوگوں کو مثالی مراعات دیں نوجوانوں کےلئے خود روزگاری کے مواقع عام کئےاعلیٰ تعلیم کےلئے بھاری وظائف کی سکیمیں شروع کیں صحت کارڈ کے زریعے علاج کی سہولتوں
تک رسائی دی، بجلی کی پیداوار میں دس ہزار میگا واٹ کا اضافہ کیا دہشت گردی کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھا اور اس پر کاری ضرب لگائی خارجہ پالیسی کو نئے خطوط پر استوار کرنے کی کوشش کی اقوام متحدہ میں کشمیری عوام پر بھارتی مظالم کے خلاف بھرپور آواز اٹھائی
پاکستان کے بارے میں اس کے جارحانہ اور سخت گیر رویے سے عالمی رہنماﺅں کو آگاہ کیا، افغانستان سے معاملات بہتر بنانے کی کوشش کی، عالمی طاقتوں کے خدشات دور کرنے کی کوشش کی، میں اللہ کے فضل و کرم سے یہ دعویٰ کر سکتا ہوں کہ میں نے اپنی قوم کو وہ پاکستان دیا جو
زندگی کے ہر شعبے میں 2013کے پاکستان سے زیادہ روشن، زیادہ مستحکم اور زیادہ توانا تھا۔ یہ اس ملک کے دانشوروں اور مبصرین نے دیکھنا ہے کہ 28جولائی 2017کے فیصلے نے اس پاکستان کو کیا دیا، اس ملک کے عوام کو کیا دیا معیشت توانائی اور انفراسٹرکچر کے منصوبوں
صنعت کاروں اور سرمایہ کاروں کے اعتماد کو کتنا نقصان پہنچاجمہوری عمل اور حکومتی کارکردگی پر کیا اثرات ڈالے پاکستان میں سیاسی عدم استحکام اور بے یقینی کو کتنی ہوا دی ان عوام کے دلوں کو کس قدر زخمی کیا جو کئی برس بعد ایک ابھرتا ہوا ترقی کرتا ہوا اور آگے
بڑھتا ہوا پاکستان دیکھ رہے تھے ممکن ہے مجھے حکومت سے بے دخل کرنے اور نا اہل قرار دینے سے کچھ لوگوں کی تشکیل ہو گئی ہو لیکن کوئی بتا سکتا ہے کہ پاکستان کی جمہوریت پاکستان کے آئینی نظام اور پاکستان کے احترام و وقار کو کیا ملا بین الاقوامی سطح پر پاکستان کی
ساکھ کتنی بہتر ہوئی اور سب سے بڑا سوال یہ کہ اس فیصلے سے خود پاکستان کی عدلیہ اور پاکستان کے نظام قانون و انصاف کو کیا ملا۔ جس طرح 2013کے پاکستان اور جولائی 2017 تک کے پاکستان کا موازنہ کیا جانا چاہیے اسی طرح 28جولائی 2017یعنی فیصلے کے دن اور اس کے بعد کے
10مہینوں کا جائزہ بھی ضرور لینا چاہیے، یقیناً ان دس مہینوں نے نہ صرف آگے بڑھتے ہوئے پاکستان کے قدموں میں زنجیریں ڈال دیں بلکہ کئی شعبوں میں اسے پیچھے بھی دھکیل دیا ان10مہینوں میں پیدا ہونے والے ماحول سے فائدہ اٹھا کر بلوچستان میں حکومت کا تختہ الٹ کر حقیقی
جمہوریت قائم کی گئی اور پھر پارلیمنٹ کے منظور کردہ ایک قانون کو کالعدم قرار دیتے ہوئے مجھے پارٹی سربراہی سے فارغ کر دیا گیا اسی فیصلے کی آڑ لے کر پاکستان کی70سالہ تاریخ میں پہلی بار سینیٹ کےلئے ہمارے امیدواروں کو شیر کے نشان سے محروم کرکے بے چہرہ کر دیا گیا
پاکستان ہی نہیں دنیا کی تاریخ میں بھی کوئی ایسی نظیر ملتی ہے، اسی فیصلے کی بنیاد پر آپ کی عدالت میں یہ ریفرنس چل رہے ہیں میں ان ریفرنسز میں 70سے زائد پیشیاں بھگت چکا ہوں کیا پاکستان میں بڑے بڑے جرم کا ارتکاب کرنے والا کوئی ایک بھی شخص ھے جس نے اتنی پیشیاں
بھگتی ہوں۔ 28جولائی2017کے فیصلے پر عوامی رد عمل بھی آ چکا ہے ماہرین قانون کی رائے بھی اور عالمی مبصرین کے تبصرے بھی مجھے اس پر کچھ زیادہ کہنے کی ضرورت نہیں لیکن میں صرف ریکارڈ پر لانے کی خاطر ایسے چند سوالات کا اعادہ کرنا چاہتا ھوں جو میں نے اگست 2017 میں
آل پاکستان لائرزکنونشن سے خطاب کرتےہوئے اٹھائے تھے کہ آپ نے 10 دس سال حکمرانی کی اور کاش آپ اپنے سینئر جج صاحبان کو بھی بلا کے پوچھ سکتے کہ آپ نے ہر آئین شکنی اور ہر غداری کو جواز کیوں بخشا؟ اپنے حلف سے بے وفائی کرکے آمروں کے ہاتھ پر بیعت کیوں کی؟
نواز شریف نے کہا کہ میں آپ کا شکر گزار ہوں کہ آپ نے مجھے اس بے بنیاد مقدمے کا سب سے اہم اور حقیقی پہلو پیش کرنے کا موقع دیا میں نے اپنی داستان کا مختصر سا حصہ آپ کے سامنے پیش کردیا ہے ان باتوں کا تزکرہ کردیا ھے جنہیں میرے مخالفین میرا جرم خیال کرتے ہیں اور
جنہیں میں پاکستان کی سلامتی عوام کی فلاح و بہبود اور اپنی حب الوطنی کا تقاضا سمجھتا ہوں آپ اب تک جان چکے ہیں کہ کسی بھی کمپنی جائیداد یا فیکٹری سے میرا ذرہ بھر تعلق ثابت نہیں ہوسکا۔ میں ریفرنسز کا فیصلہ آپ پر چھوڑتا ھوں بلا شبہ مجھے آپ کو اور ھم میں سے
ہر ایک انسان کو ایک نہ ایک دن اﷲ کے حضور پیش ہونا ہے جہاں کوئی جھوٹ چلے گا نہ فریب سب سے بڑی عدالت اﷲ ہی کی ہے میں نے پوری سچائی اور دیانت کے ساتھ اپنا مقدمہ آپ کی عدالت میں پیش کردیا ہے
اور انصاف کا منتظر ھوں۔
میاں محمد نواز شریف
اقدام قتل، ناجائز اسلحے، کار ، پولیس سے جھگڑوں سمیت دیگر مقدمات میں ملوث ایک کریمنل ریکارڈ ہولڈر نے دو روز قبل لاہور میں پاکستان کی سیاسی اور قانونی تاریخ کا سیاہ ترین باب رقم کیا جب اس نے دو سابق وزرائے اعظم کے ساتھ ساتھ
چار سابق گورنروں، تین سابق جرنیلوں، بارہ خواتین اور آزاد کشمیر کے موجودہ وزیراعظم سمیت پینتالیس افراد کے خلاف بغاوت اور غداری کا مقدمہ اتنی آسانی سے درج کروا دیا کہ لاہور میں جتنی آسانی سے چوری چکاری کا پرچہ بھی درج نہیں ہوتا
نام اس شخص کا بدر رشید بتلایا جا رہا ہے جوتھانہ شاہدرہ کے علاقے سہراب فیکٹری، خورشید پارک کا رہائشی بیان کیا جاتا ہے۔
دلچسپ امر یہ ہے کہ قانون کے مطابق کسی بھی شخص پر بغاوت یا غداری کا مقدمہ درج
کرنے کے لئے قانون کے مطابق حکومت کا فریق بننا اور اس
میاں محمد نواز شریف نے کہا یہ بات بھی ریکارڈ پر ھے کہ میں نے یہ بھی ہدایت کی سارا کام کم سے کم درکار وقت یعنی سترہ دن کے اندر اندر مکمل کرلیا جائے۔ مجھے عالمی طاقتوں کی طرف سے نصف درجن فون آئے۔ 5ارب ڈالر کالالچ دیا گیا۔
لیکن میں بھارت کے مقابلے میں پاکستان کو سربلند دیکھنا چاہتا تھا۔ میں نے وہی کیا جو پاکستان کے مفاد میں تھا۔ مجھے پاکستان کی سربلندی ، پاکستان کا وقار، پاکستان کا افتخار اور پاکستان کی عزت و عظمت ، اربوں کھربوں ڈالر سے زیادہ عزیز تھی۔
آئین شکنی کرنے اوراپنا مقدس حلف توڑ کر قتدار پر قبضہ کرنے والے ڈکٹیٹر کا محاسبہ کرنا آئین اور جمہوریت ہی کا نہیں خود فوج کے وقار و تقدس کا بھی تقاضا ہے۔
نواز شریف نے کہا کہ میں اس فورم پر اس کھلی عدالت کے سامنے پوری تفصیل بتانے سے قاصر ہوں کہ مشرف پر مقدمہ قائم کرنے اور اس کارروائی کو آگے بڑھانے پر قائم رہنے کی وجہ سے مجھے کس کس طرح کے دباﺅ کا نشانہ بننا پڑا۔
مسلم لیگ (ن) کے قائد سابق وزیراعظم نواز شریف نے کہا ہے کہ سابق آمر پرویز مشرف کیخلاف غداری کا مقدمہ بنانے پر وزارت عظمیٰ اور پارٹی صدارت سے ہٹا کر میرے خلاف جھوٹے‘ بے بنیاد اور من گھڑت کیس بنا دیئے گئے ہیں
سابق صدر آصف علی زرداری نے مجھے پرویز مشرف کے2007ءکے غیر آئینی اقدامات کی پارلیمنٹ کے ذریعے توثیق کرنے اور مصلحت سے کام لینے کا مشورہ دیا لیکن میں نے انکار کردیا‘
سابق فوجی آمر جنرل (ر) پرویز مشرف کے خلاف فیصلے کی شکل میں پاکستان کی عدالتوں نے ملک کی تاریخ میں پہلی مرتبہ کسی فرد کو آئین شکنی اور سنگین غداری کا مجرم قرار دیا ہے۔
خصوصی عدالت کے فیصلے میں کہا گیا ہے کہ جنرل (ر) پرویز مشرف کے خلاف آئین شکنی کا مقدمہ ثابت ہوتا ہے اور آئین کے آرٹیکل چھ کے تحت انھیں سزائے موت سنائی جاتی ہے۔
یہ دیکھنا ضروری ہے کہ آئینِ پاکستان کی نظر میں غداری کیا ہے اور غدار کون ہوتا ہے غداری کا تعین کرنے اور غدار کے خلاف کارروائی کا آغاز کرنے کا حق آئین کس کو دیتا ہے؟ پھر یہ کارروائی کیسے ہوتی ہے؟ پاکستان میں اس کی مثالیں موجود ہیں۔
سلطنت پر یلغار کی تو بغداد سلطان #خوارزم_علاؤ_الدین کا ساتھ پوری قوت سے دےگا۔ مگر اس سفارتی وفد میں ایک ایسا شخص بھی شامل تھا جس نے بڑےبڑے بال رکھےہوئے تھےجو اُس نےمنگول دارالحکومت میں پہنچ کر منڈوا لئے۔ سفارتی وفد میں اور کوئی شخص نہیں جانتا تھا کہ اس شخص
👇
کی کھوپڑی پر ایک خفیہ پیغام کندہ تھا جس میں منگول خاقان کو یقین دلایاگیا تھا کہ منگولوں اور خوارزمیوں کی جنگ کی صورت میں بغداد مکمل طور پر غیر جانبدار رہےگا۔ غداری کی اسی داستان کو #نسیم_حجازی_مرحوم نے اپنے مشہور ناول #آخری_چٹان کا موضوع بنایا تھا۔
👇👇