~~تھریڈ~~
جنل ممُود کے بچے

نوے کی دہائی کے اواخر کی بات ہے کہ جاب کی حوالے سے مجھے ایک اچھا موقع ملا اور لندن کی ایک کمپنی نے مجھے پاکستان میں بطور پراجیکٹ مینجر اور کنٹری ہیڈ ہائیر کر لیا۔ یعنی پاکستان میں کمپنی کی نمائیندگی کے علاوہ میری ذمہ داریوں میں لاہور، کراچی اور +
اسلام آباد میں سوفٹ وئیر انجنئیرز کی ٹیمیں تشکیل دے کر ان سے پروجیکٹ ورک کروانا تھا۔ مشاہرہ اچھا تھا اور کمپنی کے کھاتے میں سفر کے بے شمار مواقع، مجھے سفر ہمیشہ سے ہی پسند تھا سو یہ جاب میری پسندیدہ جاب بن گئی۔ کام پسند کا ہو، مشاہرہ اچھا ہو اور براہِ راست غیر ضروری دباؤ نہ ہو +
تو نتیجے کے طور پر کام میں توجہ، ارکاز، دلچسپی اور یوں پیداواری صلاحیت کئی گنا بڑھ جاتی یے۔ اس سب کا فائدہ یہ ہوا کہ پہلے دو پراجیکٹس ہی نہ صرف بروقت مکمل ہوئے بلکہ کسٹمر کی ضرورت کی عین مطابق تیار ہوئے۔ لندن میں کمپنی کے تین پارٹنرز میں سے ایک برٹش بورن پاکستانی عاصم شاہ تھے۔+
عاصم شاہ بالکل ویسے ہی تھے جیسے ایسے پاکستانی ہوا کرتے ہیں یعنی کولہ کٹ ہیْر سٹائل اور مضحکہ خیز برٹش لہجے میں پنجابی بولنے کی کوشش میں ہر لمحہ وجہء مسکراہٹ بننے والے۔ عاصم شاہ بہرحال اعلٰی تعلیم یافتہ اور کاروباری اونچ نیچ سے واقف آدمی تھے۔ پہلے دو پراجیکٹس اچھےگئے تو عاصم شاہ+
نے دورہء پاکستان کا فیصلہ کیا تاکہ سیٹ اپ میں انویسٹمنٹ میں اضافہ کر کے اسے مزید بہتر بنایا جا سکے۔ عاصم پاکستان آئے، ان سے ملاقات کافی اچھی رہی، لاہور کے بعد کراچی کا دورہ ہو چکا تو اسلام آباد جانے کا فیصلہ ہوا۔ عاصم نے فیصلہ کیا کہ اسلام آباد بذریعہ جی ٹی روڑ کار کا سفر +
کیا جائے یوں راستے میں رکنے اور شہر دیکھنے کی سہولت بھی رہیگی۔ بجٹ کار رینٹل سروس سے نئے ماڈل کی کرولا بمع ڈرائیور منگوا لی گئی۔ بعد از مغرب سفر شروع ہوا اور ہم راستے میں گپ شپ کرتے ہلکا پھلکا سٹاپ کرتے اسلام آباد کی جانب گامزن ہو گئے۔ یہ مشرف کے مارشل لاء کے شروع کا زمانہ تھا+
رات ایک بجے کے قریب میں روات پہنچے تو سڑک کے درمیان فوجی ناکہ لگا ہوا تھا۔ دو فوجی جوانوں نے ہاتھ آگے بڑھا کر رکنے کا اشارہ کیا، میں نے محسوس کیا کہ میرے علاوہ عاصم کے چہرے پر بھی انجانی بدمزگی کے اندیشے اور فکر مندی کے آثار نمودار ہو چکے تھے۔ قریب پہنچے تو ایک فوجی جوان نے گن +
تان لی اور دوسرے نےمشکوک نظروں سے کار کے اندر دیکھنے کی کوشش شروع کر دی، اتنے میں ہماری کار کےڈرائیور نے شیشہ ایک انچ نیچے کیا اور فوجی جوان سے مخاطب ہو کر بولا 'جنل ممُود صاب کے بچے ہیں جی!'
یہ سننا تھا کہ جوان ایک قدم پیچھے ہٹا اور 'سلاواں لیکم سر' کہتے ہوئے زور دار سیلیوٹ کیا+
اور ڈرائیور کو جانے کا اشارہ کر دیا۔ ڈرائیور نے آرم سے گاڑی آگے بڑھا لی۔ میں اور عاصم شاہ ایک دوسری کی شکلیں دیکھنے لگے کہ یہ ہوا کیا ہے؟ میں نے ہمت جمع کر کے ڈرائیور سے پوچھا کہ آپ نے ایسے کیوں کہا کہ ہم جنل ممُود کے بچے ہیں؟ ہم میں سے تو کوئی جنل صاحب کا بچہ نہیں ہے؟ +
ڈرائیور بولا 'خیر ہے سر۔۔یہ گاڑی جنل صاحب کی ہی ہے۔ اب انکو تلاشیاں دینے بیٹھ جاتے تو آپکا سفر خراب ہوتا'. بعد ازاں پتہ چلا کہ کسی جنرل محمود صاحب نے بجٹ رینٹ اے کار والوں کے ساتھ بطور انویسٹمنٹ کاریں شامل کر رکھی تھیں۔ ہمیں جنل صاحب کی انویسٹمنٹ پر تو خیر کوئی اعتراض نہیں تھا +
لیکن آج بھی سوچتا ہوں کہ احتساب سے مبرا ہونے کی کیا یہی روش آج بھی جاری و ساری نہیں جسکے تحت ایک کیپٹن موٹروے پولیس انسپکٹر کی ہڈی پسلی ایک کر کے نکل جاتا ہے، کرنل کی بیوی پولیس حکام پر گاڑی چڑھانے کی دھمکیاں دے کر بھی بچ جاتی ہے اور ایک اور جنل صاحب کا بچہ ملٹری پولیس کو+
'خدا کی قسم توُ آج ختم ہے' کہہ کر بھی نکل جاتا ہے؟ کیا لاقانونیت کی یہی روش آگے چل کر معاشرے کی جڑوں میں بیٹھ کر اور نودولتیوں کو بدمعاشی کی شہ دے کر معاشرتی ناانصافی کی بنیاد نہیں رکھ رہی ہے؟
کیا یوں شہریوں کی جان، مال اور عزت کو احساسِ عدم تحفظ کا شکار نہیں کیا جا رہا؟
دی اینڈ

• • •

Missing some Tweet in this thread? You can try to force a refresh
 

Keep Current with ® درویش

® درویش Profile picture

Stay in touch and get notified when new unrolls are available from this author!

Read all threads

This Thread may be Removed Anytime!

PDF

Twitter may remove this content at anytime! Save it as PDF for later use!

Try unrolling a thread yourself!

how to unroll video
  1. Follow @ThreadReaderApp to mention us!

  2. From a Twitter thread mention us with a keyword "unroll"
@threadreaderapp unroll

Practice here first or read more on our help page!

More from @ideas2025

17 Jun
طارق عزیز صاحب سے بالمشافہ ملاقاتوں کا موقع 96 میں ملا۔
قصہ کچھ یوں ہے کہ میں اپنے کالج جرنل کا بانی چیف ایڈیٹر تھا اور پہلے شمارے کی افتتاحی تقریب کیلئیے طارق صاحب کو بطور مہمانِ خصوصی مدعو کرنا چاہ رہا تھا۔ ڈائریکٹری سے نمبر دیکھ کر پی ٹی وی لاہور کا نمبر ملایا اور آپریٹر سے
طارق عزیز صاحب کا نمبر پوچھا، آپریٹر نے نمبر دینے سے انکار کر دیا۔ میں نے آپریٹر سے کہا کہ 'کالج کا انتہائی اہم فنکشن ہے اور طارق عزیز صاحب نے بطور مہمان ِخصوصی مدعو ہونا ہے، آپ سوچ لیں اگر طارق صاحب فنکشن اٹینڈ نہ کر پائے تو آپکی گوشمالی ہو جانی ہے' آپریٹر نے کچھ سوچ کر جھجھکتے
ہوئے فون نمبر دے دیا۔ اگلے ہی لمحے میں نے طارق صاحب کو فون ملا دیا۔ چند لمحوں بعد طارق عزیز صاحب نے خود فون اٹھایا، انکی آواز کے زیرو بم نے چند لمحات کیلئیے میرے اعصاب کو منجمد کر دیا۔ طارق صاحب نے بھاری آواز سے دوبارہ ہیلو کہا تو میں نے لرزتی آواز میں مدعا بیان کیا۔ میرے
Read 14 tweets
13 Jun
~تھریڈ~
دو تین سال پہلے صبح صبح جاب پر جانے کیلئیے گھر سے نکلا، ہائی وے401 جنوب وسطی اونٹاریو سے شرقاً غرباً گزرتی ہے اور نارتھ امریکا کی سب سے مصروف ہائی ویز میں سے ایک تصور ہوتی ہے۔ ہائی وے401 پر مسی ساگا سے گزرتے ہوئے ایک حصہ ایسا آتا ہے جہاں صبح کے وقت مشرق کی جانب سفر کرتے
ہوئے سورج آنکھوں کے بالکل سامنے آ جاتا ہے، روزانہ سفر کرنے والے کیمیوٹرز اس صورتحال سے بخوبی واقف ہیں لہٰذا اس حصے پر گاڑیاں احتیاط سے چلاتے ہیں، لیکن اگر کوئی نیا ڈرائیور ہو یا اس امر سے ناواقف ہو تو یہ اسکے لئیے مشکلات کے باعث بنتی ہے۔ اس دن میرے ساتھ کچھ یہی ہوا کہ میں چونکہ
روزانہ سفر کرنے والا تھا لہٰذا میں تو واقف تھا لیکن میرے پیچھے والی کار کا ڈرائیور شاید مشکلات کا شکار تھا اور وہی ہوا کہ اسے میری گاڑی نظر نہ آئی اور میری گاڑی کا پچھلا بمپر اس نے ہٹ کر ڈالا۔ ہم دونوں نے گاڑی فوراً لین سے باہر نکال کر پارک کی اور اپنی گاڑیوں سے باہر نکل آئے،
Read 18 tweets
29 May
تھریڈ
ایثم بمب بنانے کا کریڈٹ کسی سائینسدان کو دینا، کسی سابق وزیراعظم کو دینا یا کسی طاقتور خفیہ ادارے کو دینا ہے؟ یہ بحث انتہائی لغو، بے معنی اور کم ظرفی پر مشتمل ہے۔ وقت آ چکا ہے کہ ان حقائق سے پردہ اٹھایا جائے جو بوجوہ آج تک آشکار نہ ہوسکے آئیے اس اظہر من الشمس حقیقت کا سامنا
کریں جس سے ہم پچاس سال سےنظریں چراتے آ رہےہیں اور وہ حقیقت یہ ہےکہ اگر عمران خان ایٹمی پروگرام میں مدد نہ کرتے تو شاید ایٹمی پروگرام پایہ تکمیل تک نہ پہنچ پاتا۔ راوی لکھتاہے کہ آپ کو بچپن سے ہی سائینسدان بننے کا شوق تھا اس بات کا ثبوت آپکی سپیڈ کی لائٹ والی تھیوری سے بھی ملتاہے۔
راوی لکھتا ہے کہ آپ نے سکول کے زمانے میں ہی مصمم ارادہ کر لیا تھا کہ وطنِ عزیز کو جوہری طاقت سے مالا مال کر کے دم لیں گے، اس عظیم مقصد کے حصول کیلئیے آپ نے پرائمری پڑھائی کے دوران اپنی پوری توجہ گلی ڈنڈے پر مرکوز رکھی۔ یہی وجہ تھی کہ گلی ڈنڈے سے آپکا یہ لگاؤ بعد ازاں کرکٹ کے
Read 13 tweets
29 Apr
تھریڈ
لڑکپن میں گرمیوں کی چھٹیوں میں ننھیالی گاؤں جانا ہوتا تو دلچسپی کی دیگر سرگرمیوں کے علاوہ گاؤں کے قریب واقعہ بابا حیدر شاہ کی خانقاہ پر میلہ دلچسپی کا خصوصی مرکز ہوتا۔ آس پاس کے دیہات خانقاہ سے خصوصی عقیدت رکھتےاور یوں سال بھر جاری صدقے کی نذر نیاز کےعلاوہ یہ میلہ علاقے میں
چند دن کیلئیے خصوصی معاشی سرگرمیوں کا مرکز ٹھہرتا۔ ہمارے لیئے بچپن میں میلے میں جو چیز سب سے زیادہ دلچسپی کا باعث بنتی وہ ایک عدد موت کا کنواں تھا جس میں بیک وقت دو کاریں کنویں کی دیواروں پر دوڑتیں۔ سالہا سال شو دیکھتے رہنے اور فطری تجسس کے ہاتھوں مجبور ہماری توجہ شو انجوائے کرنے
کی بجائے زیادہ تر انکے روز مرہ معاملات اور انتظامی امور پر رہتی کہ اس سارے گورکھ دھندے کو آخر چلایا کیسے جاتا ہے؟ اور اس کاروبار میں کس کا کیا کردار ہے؟ تو صاحب مذکورہ موت کے کنویں میں دونوں کاریں چلانے والے ڈرائیورز کو چیمپئین یا استاد کہا جاتا اور یہ دونوں حضرات سب سے زیادہ
Read 12 tweets
9 Mar
دورِ طالب علمی کا حقیقی واقعہ ہے، کوہستان بس سروس کی بس لاہور سے گوجرانوالہ کیلئیے روانہ ہوئی، شاہدرہ سے ایک دوائی فروش بس میں سوار ہو گیا، لباس اور چہرے مہرے سے پڑھا لکھا اور سرکاری ملازم لگتا تھا۔۔بس آبادی سے باہر نکلی تو اس نے بتایا کہ وہ عام دوا فروش نہیں فقط اپنے مرشد حضرت
پیر فلاں فلاں کے حکم پر فلاحِ عامہ کیلئیے دوا بیچ رہا ہے۔ یہ دوائی فروش دورانِ گفتگو وقتاً فوقتاً انتہائی دیسی لہجے میں انگریزی کے الفاظ بھی بول جاتا۔ اس نے بات جوڑوں کے درد سے شروع کی اور بیس منٹ تک بتایا کہ کیسے اس کے مرشد حضرت پیر فلاں فلاں کی چالیس سال کی محنت سے تیار کردہ
دوا آپکے گھر میں والدین اور بزرگوں کیلئیے مفید ہو سکتی ہے، بس سے مگر کوئی ریسپونس نہ آیا، اب اس بتایا کہ اس دوا کا دوسرا فائدہ دانتوں کے درد میں فوری افاقہ ہے۔ دس منٹ کی دانتوں کے مسائل بارے تقریر سے بھی وی بس کے مسافروں سے توجہ حاصل کرنے میں ناکام رہا، اب اس نے بتایا کہ وہ یہ
Read 12 tweets
8 Mar
والد صاحب نے زندگی بھر بیٹیوں کو ہمیشہ بیٹوں پر ترجیح دی، اس حد تک کہ بعض اوقات ہمیں رشک آنے لگتا۔ اپنی زندگی میں ہم نے کبھی والد صاحب کو بیٹیوں کو ڈانٹتے نہیں دیکھا۔ ڈانٹ اور لاڈ کی تقسیم کی جائے تو ہم بھائیوں کےحصے میں اول الذکر اور لاڈ ہمیشہ بہنوں کے حصے آتا۔ الحمدللہ بہنوں کو
تعلیم کے بھی اتنے ہی مواقع میسر آئے جتنے کہ ہم بیٹوں کو، یہی وجہ رہی کہ ہماری دو بہنوں ہم بھائیوں سے بھی زیادہ تعلیم یافتہ ہوئیں۔ والد صاحب نے وفات سے قبل جو تین وصیتیں کیں ان میں دوسرے نمبر پر یہ تھی کہ ہمیشہ بہنوں کو خیال رکھنا۔ یہی سلوک والد صاحب نے اپنی بہنوں یعنی ہماری
پھوپھیوں کے ساتھ رکھا۔ ان سے لاڈ کرتے۔۔انکے ناز اٹھاتے۔۔ طبیعت کے انتہائی سخت ہونے کے باوجود کبھی ہم بہن بھائیوں اور ہماری والدہ پر ہاتھ نہیں اٹھایا، گالی نہیں دی۔ بس موڈ آف ہوتا تو آنکھیں لال ہو جاتیں اور ہمارے لئیے یہی کافی ہوتا۔ نشو ونما کے معاملے میں بیٹیوں کے ساتھ فرق کا
Read 14 tweets

Did Thread Reader help you today?

Support us! We are indie developers!


This site is made by just two indie developers on a laptop doing marketing, support and development! Read more about the story.

Become a Premium Member ($3/month or $30/year) and get exclusive features!

Become Premium

Too expensive? Make a small donation by buying us coffee ($5) or help with server cost ($10)

Donate via Paypal Become our Patreon

Thank you for your support!

Follow Us on Twitter!