#thread
Science and the Muslim World
بقیہ دنیا کے مقابلے میں آج کا مسلمان سائنس سے سینکڑوں برس پیچھے نظر آتا ہے. اس سے بڑھ کر المیہ یہ ہے کہ مسلمان کو اس بات کا زرہ برابر دکھ نہیں ہے. یوم اول سے مسلمان دنیا کی سوچ اس فکر کے گرد گھومتی نظر آتی ہے کہ میں کتنا اچھا مسلمان ہوں، ...
میرا الله مجھ سے راضی ہے کہ نہیں اور کیا بعد از موت مجھے جنّت مل جائے گی. کسی پریشانی کے حل کے لیے مسلمان کی ترجیح عمل سے زیادہ دعا پر ہوتی ہے. خوشی ملی تو الله کا شکر. غم ملا تو الله سے رحم کی بھیک. کسی انسان نے ظلم کیا تو الله سے اس کی شکایات اور روز قیامت اس کو رگڑا دینے ...
... والی بد دعائیں دے کر مسلمان دل کو سکون مل جاتا ہے. مسلمان اپنے ارد گرد کی دنیا سے زیادہ بعد از موت کی ازلی زندگی اور دنیا میں دلچسپی رکھتے ہیں.
مسلمان زندگی کی اس سادہ سی ترکیب میں سائنس، منطق، تجسّس کا کوئی عمل دخل نہیں ہوتا.
یکن ہمیشہ سے ایسا نہیں تھا۔ آئیں مسلم دنیا کے مایہ ناز سائینس دانوں اور ان کے کارناموں کا ذکر کرتے ہیں.
1. محمّد ابن الموسیٰ الخوارزمی
الخوارزمی نے ہندو علم العداد سے استفادہ کر کے عربی میں 0 - 9 نمبرز متعارف کرے. الخوارزمی کا دوسرا کمال الجبرہ کی ایجاد ہے. الخوارزمی سے قبل
یورپ رومن نمبرز سے حساب کتاب کرتا تھا جو انتہائی بھدا اور مشکل طریقہ تھا. نمبرز میں الخوارزمی نے اعشاریہ FRACTIONS کا تصور دیا. الخوارزمی کے نمبرز نے میتھمیٹکس کی دنیا میں انقلاب برپا کر دیا. آج ساری دنیا الجبرا کی قوّت سے کائنات کے رازوں سے پردہ اٹھا رہی ہے.
2. بنو امیّہ کے پانچوے خلیفہ عبدل مالک ال مروان کا ابتدائی دور تخت کے خلاف بغاوت کچلنے میں گزرا. لیکن جب خلیفہ کے معملات قابو میں آ گئے تو خلیفہ نے دور رس اصلاحات کیں جن میں ایک کرنسی کا اجرا اور عربی کو سرکاری زبان کا درجہ دینا تھا. نتیجہ یہ ہوا کہ ریاست کی دولت کا حساب کتاب
آسان ہو گیا اور زبان کے ایک ہونے سے دور دراز میں بسنے والے بہترین دماغ بغداد میں عربی بولتے ہوئے اپنا علم اور ہنر لے کر آئے۔ مسلم عربی زبان کو الله کی زبان سمجھتے ہیں اس لیے دوسری ثقافتوں نے اس حکم پر برا نہیں مانا. ایک زبان کا رائج ہو جانا آنے والے وقت کی سائنٹفک تحقیق، ...
بحث و مباحثہ اور نئی کتب کے وجود میں آنے کا راستہ ہموار کر گیا. اب اسپین، بغداد، سمرقند، کے سکالرز سائنس اور فلسفہ پر ایک زبان میں با آسانی بحث کر سکتے تھے. دنیا جہاں سے ہر زبان کی کتب بغداد میں لائی جانے لگیں اور ان کا ترجمہ عربی میں کیا جانے لگا. اس کو بغداد
کی TRANSLATION MOVEMENT کہا جاتا ہے. دنیا جہاں سے سکالرز طرح طرح کی کتب بغداد لانے لگے. اگر وہ کتاب خلیفہ کی لائبریری میں پہلے سے نہ ہوتی تو خلیفہ اس کتاب کو سونے میں تول کر اس کی قیمت ادا کرتا. ان کتب کا عربی میں ترجمہ کیا جاتا اور اس کے علم کی بنیاد پر مزید تحقیق کی جاتی.
خلیفہ المنصور کے دور میں کتابوں کے مترجم کو ایک کتاب کا ترجمہ کرنے کے 500 تک سونے کے دینار مل جاتے تھے جو آج کے 24000 ڈالرز کے برابر بنتے ہیں.
2. ابنِ سینا (1037-980) Avicena
تعلق فارس، موجودہ ایران سے. ابنِ سینا کو مسلم گولڈن دور کا سب سے زیادہ با اثر معالج، ماہر فلکیات، مفکَِر، مصنَِف، اور آج کے ماڈرن دور کی medicine کا باپ سمجھا جاتا ہے. اس کی مشور زمانہ کتب میں The Book of Healing،
The Cannon of Medicine (میڈیکل انسائیکلوپیڈیا) ہیں.
یہ کتب قرون وسطٰی کی یونیورسٹیوں میں 1660 تک پڑھائی جاتی رہیں. میڈیسن کے علاوہ ابنِ سینا نے
Astronomy
Alchemy (کیمسٹری)
Geography
Geology
Psychology
Islamic Theology
Logic (منطق)
Mathematics
Physics
Poetry
میں بھی کتابیں لکھیں.
The Canon of Medicine (القانون فی الطب)
کی کتاب میڈیسن کی انسائیکلوپیڈیا ہے. اس کتاب میں ابنِ سینا نے اُس دور کی میڈیسن کے تمام علم کو ایک جگہ جمع کر دیا۔ چاہے وہ علم یونان سے آئے ہوں، چین سے، چاہے انڈیا سے یا کہیں اور سے. یہ کتاب میڈیسن کی تمام موجودہ کتب سے اعلٰی اور
برتر مانی گئی اور اسے ریفرنس بک کے طور پر استمعال کیا جانے لگا.
پہلے والیوم میں میڈیسن کے عمومی اصول بیان کئیے گئے ہیں. ایک صحتمند جسم کیسے کام کرتا ہے اس پر تفصیل سے روشنی ڈالی گئی ہے.
دوسرے والیوم میں سر تا پیر کی بیماریوں پر تفصیل کے ساتھ روشنی ڈالی گئی ہے.
تیسرے والیوم میں بیماری کی تشخیص اور علاج پر کم کیا گیا ہے. بیماریاں جیسے کہ
Depression
Meningitis
Small Pox
Diseases of the Eyes, Nose, Throat
Diseases of the Muscles
Diarrhea
Vineral Diseases
Headaches
Hangovers
میڈیسن کی یہ کتاب مستقبل کی ماڈرن کتب کے لیے رہنما اصول ثابت ہوئی۔
4.عبَاسی خلیفہ ال منصور (775-754) کو دیوانگی کی حد تک تمام اقوام کی کتب اور ان میں پوشیدہ علوم حاصل کرنے خواہش پریشان رکھتی تھی. وہ جانتا تھا کہ اتنی بڑی ریاست کو قائم رکھنے کے لیے مسلم دنیا کے پاس ساری دنیا سے زیادہ علم ہونا لازمی ہے. یہاں تک کہ وہ کالا جادو پر بھی عبور چاہتا
کیمسٹری کے علم کو کا کالا جادو سمجھتے ہوئے عبَاسی دور کے کئی سکالرز ایسے جادو گروں کو تلاش کرتے پھرتے جو انھیں ال کیمی کا جادو سکھا سکیں.
حال ہی میں مصر کے تحقیق دانوں نے دریافت کیا کہ مصر کی قدیم تذیب کے احراموں میں لکھی انجانے خط کو عربوں نے پژھنے کا طریقہ دریافت کر لیا تھا۔
عرب صرف انڈیا، یونان، چین ہی کے علوم کا ترجمہ نہیں کر رہے تھے بلکہ وہ قدیم مصر کے متن کو بھی عربی میں اتار رہے تھے. لیکن انھیں وہاں سے خلیفہ ال منصور کے لیے کالے جادو کا کوئی علم نہ مل سکا. مسلم خلافت کی یہ TRANSLATION MOVEMENT بغداد کو علم سے منور کر رہی تھی.
عبَاسی دور کے سکالرز کی علم کی بھوک دیوانگی کی حدوں کو چھو رہی تھی. وہ نئے علم کی تلاش میں جنگل، پہاڑ، ریگستان، ویرانوں کی خاک چھانتے پھرتے. ان کو اس سے غرض نہیں ہوتی کہ یہ علم مسلم ہے، ہندو ہے، یونان کا ہے، قدیم مصر میں پیدا ہوا یا چین سے آیا ہے. وہ علم کو اس کے میریٹ پر جانچتے
سمجھنا اشد ضروری ہے کہ TRANSLATION MOVEMENT صرف سائنس اور طب کا علم لے کر نہیں آئی بلکہ بغداد میں انگنت ثقافتوں اور قوموں سے لوگ آئے جو اپنے ساتھ طرح طرح کے کھانے، روایات، کہانیاں، عمارت کی تعمیر کا فن، فنون لطیفہ، موسیقی، رقص، کہانیاں سنانے والے، کھیل کود کے طریقے بھی لائے۔
5. ال خوارزمی کا الجبرا
یونان کی میتھمیٹکس میں جیومیٹری ہوا کرتی تھی. یہ شکلوں کی سائنس تھی جیسے Circles, Triangles, Rectangles, Squares, Polygons. یہاں ان شکلوں کے رقبہ کو ناپنے پر مہارت تھی.
خوارزمی کو دوسری میتھمیٹکس انڈیا سے ملی. یہاں اسے دس اعداد پر مشتمل نمبر سسٹم ملا جن سے حساب لگانا بہت آسان تھا. یہ خوارزمی کی خوش نصیبی تھی کہ TRANSLATION MOVEMENT کے ثمر میں اسے انڈیا اور یونان کا علم بغداد میں بیٹھ کر عربی زبان میں میسّر ہو گیا تھا.
خوارزمی کا کمال یہ ہے کہ اس نے یونان کی شکلوں اور انڈیا کے اعداد کو ملا کر میتھمیٹکس کو نئی عظمت عطا کر دی. آج اس عظمت کو ہم الجبرا کے نام سے جانتے ہیں. الجبرا نے انسان کو پیچیدہ میتھمیٹکس کے مسئلوں کو سرعت سے حل کرنے کا راستہ دکھا دیا.
6. ہارون ال رشید (833-786) نے خلیفہ بننے کے بعد ریاست کے سکالرز کو دنیا کا نقشہ بنانے کا حکم دیا. خلیفہ یہ جاننا چاہتا تھا کہ دنیا کا کتنا حصّہ اس کی ریاست میں ہے اور کتنا ابھی باقی ہے. سکالرز نے قابل تعریف نقشہ بنا لیا جس میں بحیرہ روم، بحیرہ اسود، مشرق وسطیٰ، تمام ایشیا، چین,
... اور جاپان، بحر ہند، اور افریقہ کی مشرقی ساحلی پٹَی تک موجود تھی. اپنے دور کے حساب سے یہ ایک شاندار کاوش تھی جس میں دنیا کے تمام معلوم علاقوں کا ذکر نظر آ گیا تھا. تو اگلا منطقی سوال یہ پیدا ہوا کہ دنیا کتنی بڑی ہے.
اتنی وسیع و عریض ریاست میں مسلمان دور دور تک پھیلے ہوئے تھے. دور دراز کے مسلمانوں کو قبلہ کی سمت متعین کرنے میں مشکل ہونے لگی. اس کے لیے سکالرز کو زمین کی جسامت اور شکل، اس میں کتنا خم ہے اور وہ کتنی بڑی ہے - یہ سب جاننا ضروری ہو گیا.
ارسطو کے سکھائے طریقے پر عباسی سکالرز نے اس مسئلے کو حل کرنا شروع کیا۔ مصر میں اسوان کے مقام پر سورج بلکل سر پر آ جاتا ہے. تو وہاں جب سورج سر پر ہو تو ایک عمودی چھڑی لگانے سے اس کا سایہ نہیں بنتا. جبکہ اس ہی لمحے وہاں سے ایک ہزار KM دور الیگزینڈریا میں اس چھڑی کا سایہ بنتا ہے.
اس سائے کے اینگل اور دونوں مقام کے فاصلے کو ملا کر زمین کے مکمّل گھیرے Circumference کا نتیجہ نکالا جا سکتا ہے. سکالرز نے اس ہی عمل کو شام اور عراق میں بھی دہرایا. انہوں نے زمین کا Circumference 24000 میل پایا. اصل سے 900 میل کم جو کہ اس زمانے کی حساب سے ایک شاندار کارنامہ تھا.
ابوریحان محمد بن احمد البیرونی (1050-973)
ترجمہ تحریک کے پھل سے مسلم دنیا مالا مال ہو چکی تھی. البیرونی نے زمین کے ناپنے کے طریقے میں مزید بہتر اور درست طریقہ بتایا. اس کے مطابق اونچے پہاڑ کی چوٹی کی اونچائی، اس پہاڑ کے دامن سے پہاڑ کی چوٹی کے بنتے اینگل اور چوٹی سے سمندر ...
... کے آخری حد کے اینگل کو ناپ کر پوری دنیا کے Circumference کا حساب لگایا جا سکتا ہے. البیرونی کا جواب 20400 میل نکلا جو حقیقت سے صرف 500 میل کم تھا. ایک ہزار برس قبل یہ نتیجہ نکال لینا ایک شاندار کارنامہ سے کم نہ تھا.
البیرونی نے اپنے دور میں سچ کو تلاش کرنے کے لیے میتھمیٹکس کا استمعال کیا. وہی میتھمیٹکس جس کا استمعال آئنسٹائن نے 1000 برس بعد Theory of General Relativity کے لیے کیا. دونوں نے ثابت کیا کہ میتھمیٹکس وہ راستہ ہے جس پر چل کر کائنات کے رازوں سے پردہ اٹھایا جا سکتا ہے.
ال کیمیا - Chemistry
مسلم دنیا کا ایک اور کمال اس کا ال کیمیا پر کمال کا عبور حاصل کر لینا تھا. ریاست تیزی سے دولتمند ہوتی جا رہی تھی. دنیا جہاں کے کاروبار کے مرکز مسلم دنیا کے میٹروپولیٹن شہر بن گئے تھے. اس صورت میں نئے مسائل نئے حل اور نئی ٹیکنالوجی مانگ رہے تھے.
خلیفہ عبدل الملک نے جب واحد کرنسی کا حکم دیا تو یہ کام ال کیمسٹ کی ذمّہ داری بنا. سونے اور تامبے کے درست تناسب کا اسے معلوم تھا. تو ریاست کو کروڑوں دینار ال کیمسٹ نے بنا کر دیے. دھاتوں کا Alloy بنانے کا فن مسلم ال کیمسٹ یورپ سے صدیوں قبل جان چکے تھے.
ال کیمسٹ نے Metallurgy، شیشے کی صنعت، ٹائلز کی صنعت، رنگوں کی صنعت، خوشبو کی صنعت، ہتھیاروں کی صنعت، یہاں تک کہ الکوھول بنانے کے فن پر عبور حاصل کر لیا تھا. اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ہلچل سے بھرپور معیشت کا پہیہ چل رہا تھا. کسٹمرز، انجینئرز، آرکیٹیکٹ، کاروباری طبقہ، بیوروکریسی،
فوجی، معاج، استاد وغیرہ وغیرہ موجود تھے. سب ترقی اور جدّت اور نئی ٹیکنالوجی کے طالب تھے. اپلائڈ کیمسٹری کی ایک زبردست مثال صابن تھا جو مسلم دنیا میں بن رہا تھا اور جس کے بارے میں یورپ کو کچھ بھی نہیں معلوم تھا. 13 صدی میں یورپ نے پہلی بار صابن مسلم دنیا سے درآمد کیے.
• • •
Missing some Tweet in this thread? You can try to
force a refresh
#thread
اسلام کا گولڈن دور (8 - 13 صدی) جسے انسانی تاریخ کا سب سے روشن ترین دور کہا جاتا ہے اس کی بتی گل کرنے والے صاحب کا نام ہے - امام غزالی۔
امام غزالی نے منطق، فلسفہ، سائینس، علم الاعداد اور سب سے بڑھ کر تجسس کو حرام قرار دیا اور یوں مسلم دنیا اندھیروں میں ڈوب گئی۔
آئیے ہم آپ کو دکھاتے ہیں کہ تجسس کے ذریعے مغرب نے کیسے بجلی کو جنگلی بھینسے سے پلی ہوئی بھینس بنا لیا۔
1705 میں انگلش سائینس دان Francis Hauksbee نے بوتل میں سے ہوا نکال کر اس کو تیزی سے گھمایا تو بوتل کے اندر اسے عجیب طرح کی روشی نظر آنے لگی۔ تجسس ہوا کیوں؟
1729 میں Stephen Gray نے ایک جھولا بنایا، ایک چھوٹے لڑکے کو اس پر بیٹھایا اور اس کے بالکل نیچے سونے کے ورق بکھر دئیے۔ہاتھ سے چلنے والی سادہ مشین میں Static Electricity بنائی جس نے بچے کے جسم کو چارج کر دیا۔ بچے نے نیچے پڑے سونے کی پتیوں کی طرف ہاتھ بڑھایا تو پتیاں اڑ کر
#thread
میں خود اردو بولنے والے مہاجر ماں باپ کا سندھ میں پیدا بیٹا ہوں۔ میں آپ کی بات سے %100 متفق ہوں اور میری نظر میں مہاجروں کے اس ناکامی کی طرف گامزن رویے کی کچھ وجوہات یہ ہیں۔ 1. مہاجروں کا Universe کراچی، حیدرآباد ہے۔ یہ اس سے باہر نکل کر نا دیکھنا چاہتے ہیں نا سوچنا
چاہتے ہیں۔ 2. مہاجروں نے دوسری قوموں کے ساتھ ملنے جلنے، رشتے بنانے کی ارادی کوشش نہیں کی۔ دوسری قوموں میں شادیاں نہیں کرتے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ نا تو دوسری اقوام سے یاری دوستی کی اور نا ان کے تمدن اور مسائل کو سمجھ پائے۔ 3. کسی حد تک تمدنی بالا دستی کا خمار بھی اس رویے کا باعث ہے۔
4. میں جب پشتون تحفظ موومنٹ کی حمایت کرتا ہوں تو کئی دوست بہت حیران ہوتے ہیں۔ 5. مہاجروں کی ذیادہ تر سوچ فیڈریشن کے جھکاؤ میں نظر آتی ہے کجا یہ کہ ان کو فوج سے مار نا پڑ رہی ہو۔ دوسری قوموں پر فوج کے مظالم کی صورت میں مہاجر فوری طور پر فوج کی حمایت میں گنگناتے نظر آتے ہیں۔
#thread
ہماری تاریخ کا مختصر جائزہ:
1947: قائداعظم نے پاکستان کی بنیاد رکھی۔
1948: خراب ایمبولنس میں وفات پاگئے۔
1947: امیرالدین قدوائی نے قومی پرچم ڈیزائن کیا۔
2019: بےقصور پوتے نے 20 ماہ NAB ٹارچر سیل میں کاٹے۔
1906: نواب محسن الملک نے مسلم لیگ کی بنیاد رکھی ۔
ا1960: نواسے کو جنرل ایوب نے ازیتیں دے کر ماردیا۔(حسن ناصر)
1921: حسرت موہانی مسلم لیگ کے 13 ویں صدر بنے۔
1995: پوتے کو دہشتگرد قرار دیکر مار دیا گیا۔
1948: فاطمہ جناح نے آزادی کشمیر کیلئے پیسے دیئے۔
1964: مس جناح کو غدار قرار دیا گیا۔
1949: احمد چھاگلہ نے قومی ترانے کی دھن مرتب کی۔
1979: خاندان کو ضیاء دور میں ملک چھوڑنا پڑا۔
1949: بیگم رعنا لیاقت نے "ویمن نیشنل گارڈ" کی بنیاد رکھی۔
1951: رعنا لیاقت کوطوائف قرار دیا گیا۔
1940: فضل الحق نے قرارداد پاکستان پیش کی ۔
1954: فضل الحق غدار قرار پائے۔
#thread
پختون نیشن تین حصوں میں بٹا ہوا ہے، اس ہی لیے نقصان اٹھا رہا ہے۔
پہلا گروپ
یہ نیشنلسٹ گروپ ہے جس کی آج راہنمائی منظور پشتین کر رہے ہیں۔ ان کا مطالبہ آئینی حقوق اور وزیرستان سے طالبان کو نکالنا اور امن و امان کا ہے۔ فوج ان کو اپنا دشمن نمبر ون سمجھتی ہے اور انہیں
ملک دشمن، غدار، انڈین ایجنٹ اور افغان NDS ایجنٹ ہونے کی گالی دیتی ہے۔
دوسرا گروپ
یہ پختون غریب، غیر تعلیم یافتہ، مذہبی ہیں اور طرح طرح کی مذہبی پارٹیوں میں بٹے ہوئے ہیں۔ ان کا مطالبہ آئین نہیں، شریعت ہے۔ یہ طالبان کیلیے نرم گوشہ رکھتے ہیں۔ یہ خود کو عظیم تر مسلم امہ کا حصہ
پہلے سمجھتے ہیں اور بہت بعد میں پشتون سمجھتے ہیں۔ ان کی شناخت اسلام ہے، پشتون نیشن نہیں۔ چنانچہ یہ گروہ بھی نیشنلسٹ PTM سے عداوت رکھتا ہے اور ان کی جدوجہد یا مصیبت میں ان کے ساتھ نہیں کھڑا ہوتا۔ یہ لوگ نیشنلسٹ موومنٹ کو شریعت کی مومنٹ سے متصادم سمجھتے ہیں۔
I HAVE A DREAM
47 years ago, a great #Pakistan leader, in whose symbolic shadow, the parliament signed the Emancipation Proclamation. This momentous decree came as a great beacon light of hope to 70 million civilian slaves who had been seared in the flames of withering injustice.
It came as a joyous daybreak to end the long night of their captivity.
But 47 years later, the Civilian still is not free. 47 years later, the life of the Civilian is still sadly crippled by the manacles of segregation and the chains of discrimination.
47 years later, the Civilian lives on a lonely island of poverty in the midst of a vast ocean of Military’s material prosperity. 47 years later, the Civilian is still languished in the corners of Pakistan’s economic slums and finds himself an exile injustice, and opportunities.