#garrisonstate

نویں قسط
گوردوارہ "ننکانہ صاحب" اکالیوں کا اگلا ہدف تھا مہنتوں (یعنی سکھ مجاوروں نے جنہیں اکالی اصل سکھ نہیں مانتے تھے) نے سرحد سے سکھ پٹھانوں کو بلوایا اور اپنے دفاع کے لیے اسلحہ جمع کر لیا بیس فروری 1921 کو اکالیوں نے ننکانہ پر حملہ کیا لیکن محافظین کی تیاری
کیوجہ سے یہ حملہ ناکام رہا کئی اکالی مارے گئے اور مہنتوں نے ثبوت مٹانے کے لیے انکی لاشیں جلا دیں اس پر پانچ سو سے ایک ہزار سکھ کرپانیں لیکر وہاں پہنچ گئے اور حکومت کو واقعے کا ذمہ دار ٹھہرایا اس پر مذہبی مقامات کی ملکیت کے سلسلے میں 1921 کا "گوردوارہ اور شرائن ایکٹ" زیربحث آیا
لیکن اس قانون پہ اتفاق نہ ہو پایا سکھوں نے جب دیکھا کہ حکومت کچھ نہیں کر رہی تو اکالیوں نے قوت جمع کرنا شروع کر دی
1924 میں "میلکم ہیلی" پنجاب کا گورنر بنا اسوقت چھوٹے چھوٹے جھگڑے تو جاری تھے لیکن کسی بڑی لڑائی کا سامنا نہ کرنا پڑا تھا حکومت سکھ فوجیوں کے بارے میں پریشان تھی
گورنر نے فیصلہ کیا کہ نہ بہت سختی کی جائے اور نا ہی سکھوں کے خلاف ہتھیار ڈالے جائیں لہٰذا اعلانیہ تحریک پہ پابندی لگا دی گئی لیکن اگر اکالی چھپ چھپا کر کوئی کام کرنا چاہتے تو انہیں نا روکا جاتا تاہم قانون کی خلاف ورزی کی اجازت نہ دی گئی ساتھ ہی انگریز نے اپنے حامی سکھوں کی مدد سے
دیہاتوں میں سدھار یا سیواک کے نام سے اکالی مخالف تحریک بنانا شروع کر دی اس تحریک میں ریٹائرڈ سکھ فوجیوں کو ڈالا گیا ان تنظیموں نے پروپیگنڈہ شروع کیا کہ انگریز ہمارے مذہب کو کچھ نہیں کہہ رہا یہ اکالی ویسے ہی شور مچا رہے ہیں آپ اپنے مسایل بتائیں ہم انہیں حل کرا دیتے ہیں
آہستہ آہستہ سیواکوں کا اثر بڑھ گیا سکھ بھی اس لمبی چپقلش سے تنگ آ چکے تھے 1925 میں "سکھ گوردوارہ اور شرائن ایکٹ" منظور ہو گیا اور گوردواروں کا انتظام ایک منتخب بورڈ کے حوالے کر دیا گیا جس سے اکالی تحریک کا زور ٹوٹ گیا
اکالی تحریک نے دو طرح سے برطانوی حکومت کو نقصان پہنچایا
ایک تو سکھ فوجیوں کی وفاداری کو خطرے میں ڈالا دوسرا سکھ کسانوں کی اطاعت کو بھی متاثر کیا جسکی وجہ سے فوج میں سکھوں کی بھرتی کم ہوئی ساتھ ہی سکھوں کی طرف سے ٹیکسس کی وصولی میں بھی کمی واقع ہوئی بہرحال اس ساری کشمکش نے ثابت کیا کہ عوامی وفاداری قائم رکھنے کے لیے فوج تنہا کام نہیں
کر سکتی اسے سویلین اداروں کی مدد درکار ھے
پنجاب میں سیاسی عمل کا آغاز ۔
پہلی جنگ عظیم کے آخری عرصے یعنی 1917 میں ہندوستان کے لیے برطانوی مشیر برائے ریاستی امور ایڈون مونٹاگو نے برطانوی پارلیمان میں اعلان کیا کہ حکومت برطانیہ کا ارادہ ھے کہ اقتدار میں ہندوستانی لوگوں کو زیادہ
شرکت دیجائے 1917 سے 1918 کے دوران مونٹاگو اور کیلم فورڈ نے ہندوستان کے مختلف علاقوں کا دورہ کیا مختلف نمائندہ طبقات سے ملاقاتیں کیں اور یہ نتیجہ اخذ کیا کہ لوگوں میں غلام ہونے کا احساس بڑھ رہا ھے لہٰذا ضروری ھے کہ وفاداریاں برقرار رکھنے کے لیے قوانین میں ترامیم کی جائیں اور
ہندوستانیوں کو بھی اقتدار میں نمائندگی دیجائے ان ترامیم کا خلاصہ یہ تھا کہ ریاست کے اہم شعبے برطانیہ کے ہاتھ میں رکھتے ہوئے مقامیوں کو اقتدار میں شریک کرنے کا آغاز کیا جائے پنجاب کے گورنر "ایڈوائیر" نے ان تجاویز کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ یہ ایک ایسا قدم ھے جسکی نا تو ضرورت ھے
نہ یہاں کے لوگ اسکا مطالبہ کر رہے ہیں اور نہ ہی اس قوم میں بغاوت کی طاقت ھے ایڈوائیر پنجاب کے پورے نظام اور معاشرے کو سمجھ چکا تھا اور وہ پنجاب کی دیہی جاگیردار اشرافیہ کی جگہ شہری اشرافیہ کو اوپر آتا نہیں دیکھنا چاہتا تھا جب اس نے ہندوستان کی سطح پر آتی اس سیاسی تبدیلی کو روکنا
ناممکن سمجھا تو اس نے صوبہ پنجاب کے لیے ایک خاص فارمولہ وضع کیا اس نے ایک چھوٹی قانون ساز اسمبلی بنانے کی تجویز دی جس میں سترہ نامزداور باقی منتخب اراکین ہوں منتخب نشستوں میں پچیس دیہی علاقوں اور صرف چھ شہری علاقوں سے رکھی گئیں جبکہ دو نشستیں تاجروں اور صنعتکاروں کی اور ایک
پنجاب یونیورسٹی کی مختص ہوئی پچیس دیہی نشستوں میں سے چار نشستیں جاگیرداروں کے لیے مخصوص کی گئیں ووٹوں میں ایک لاکھ اکسٹھ ہزار دیہی اور ستر ہزار شہری ووٹ تجویز کیے ووٹ کے لیے جو شرائط رکھی گئیں ان میں ٹیکسس کی ادائیگی کی شرط تھی اور اسکا معیار اتنا اونچا رکھا کہ غریب آدمی ووٹ
کا اہل ہی نہیں رہا حاضر سروس اور ریٹائرڈ فوجیوں کو ووٹ کا حق دیا گیا علاقے کے بڑوں اور نمایاں سول افسران کو بھی ووٹ کا حق دیا گیا اس فارمولے کے تحت سرکاری افسران ،ریٹائرڈ فوجیوں اور جاگیرداروں کے ڈیڑھ لاکھ ووٹ بنتے تھے
اگرچہ اس تجویز میں گورنر نے دیہی فوجی اشرافیہ کے مفادات کے
تحفظ کی کافی کوشش کی تھی مگر دیہی فوجی اشرافیہ پھر بھی نظام میں یہ تبدیلی لانے پہ معترض ہوئی کیونکہ وہ جانتے تھے کہ کانگریس کے پڑھے لکھے سیاستدانوں کا مقابلہ کرنے کی اہلیت ان میں نہیں ھے
جاری ھے

• • •

Missing some Tweet in this thread? You can try to force a refresh
 

Keep Current with رانا علی

رانا علی Profile picture

Stay in touch and get notified when new unrolls are available from this author!

Read all threads

This Thread may be Removed Anytime!

PDF

Twitter may remove this content at anytime! Save it as PDF for later use!

Try unrolling a thread yourself!

how to unroll video
  1. Follow @ThreadReaderApp to mention us!

  2. From a Twitter thread mention us with a keyword "unroll"
@threadreaderapp unroll

Practice here first or read more on our help page!

More from @PunjabiComrade

15 Jan
اچھا یہ بات بھی نہیں، معاملہ تو تب خراب ہوا جب اوریجنیلٹی(اصلیت) پر بناوٹ(نقلیت) افضلیت حاصل کر گئی پنجاب یا پنجابیت یا پنجابی زبان ہماری وہ اصل تھی جس پر اُتر پردیش کی بناوٹی تہذیب اور زبان کو افضل قرار دیا گیا لیکن فارسی و عربی ملی ہندی کی گود میں جا بیٹھنا تو ابھی کل
کی بات ہے اس سے بہت پہلے یہی نسلیں ایک لمبا عرصہ فارسی زبان کو مقدس قرار دے کر اسکی گود کی گرماہٹ انجوائے کرتی رہیں، ترکستان و وسط ایشیاء میں بھی ایسا ہی ہوا اور پنجاب و ہند میں اب تک ہوتا جا رہا ہے کیونکہ پنجاب کی اشرافیہ خود بھی غیر پنجابی النسل ہونے کے باعث پنجاب سے
جذباتی لگاؤ نا رکھتی تھی یہ وہی اشرافیہ تھی جو یا تو خود صدیوں تک غیر پنجابی حملہ آوروں کے تخریبی عمل کا حصہ رہی تھی یا پھر اس عمل سے متاثر ہوکر خود کو غیر پنجابی النسل بنا بیٹھی تھی اس نقلیت کے پیچھے دو مزید وجوہات یہ تھیں کہ تاتاری و ترک و افغان خانہ بدوش تہذیبوں کے
Read 13 tweets
14 Jan
سیکس اور اُداس نسلیں

سِگمنڈ فرائیڈ نے کہا تھا ’’وہ جذبات جِن کا اِظہار نہ ہو پائے، کبھی بھی مرتے نہیں ہیں، وہ زِندہ دفن ہو جاتے ہیں، اور بعد ازاں بدصورت طریقوں سے ظہور پذیر ہوتے ہیں۔‘‘ آپ غالِب، میر، داغ، جِگر، جُون، پروین، وصی، اور دیگر اردو کے شُعرا کی کتابیں پڑھ لیں، اِنکا
کثیر حِصہ وصل و ہجر و فراق، اَن کہے جذبات، حسرتوں، اور پچھتاووں کے موضوعات پر مُشتمل ہو گا۔ آپ گُوگل کے اعداد و شُمار کا تجزیہ بھی کر لیں، پاکستان کا شُمار اُن مُمالک میں ہوگا، جہاں فحش ویبسائیٹس دیکھنے کا رِواج سب سے زیادہ ہے۔ آپ خیبر سے کراچی تک کا سفر بھی کر لیں، عورت چاہے شٹل
کاک بُرقعے میں ہی ملبُوس کیوں نہ گُزر رہی ہو، آس پاس موجود مَرد حضرات اُسے تب تک گُھورتے رہیں گے جب تک وہ گلی کا موڑ مُڑ کر نظروں سے اوجھل نہ ہو جائے۔ آپ کِسی سے بھی گُفتگو کر کے دیکھ لیں، ہر دو فقروں کے بعد ماں بہن کے جِنسی اعضا پر مُشتمل گالیاں شامِل ہوں گی۔ آپ مذہبی
Read 14 tweets
13 Jan
جدوں تسیں کسی معذور بچے دے ماں پیو بن دے او تے کائنات 360 ڈگری اینگل تے تہاڈے واسطے بدل جاندی اے حیاتی دے او پکھ سامنے آندے نیں جیہڑے تسیں پہلاں نئیں ویکھے ہوندے پہلا سوال ایہ سامنے آندا اے کہ ایدا مستقبل کی ھووے گا؟ ایہ پڑھ سکے گا یا کوئی ہنر سکھ سکے گا جے پڑھ لوے تے کی روزگار
لبھ سکے گا ؟ جے روزگار لبھ جاوے تے کی ایدا ویاہ ہو سکے گا ؟ تے جے بچہ کسے عضو توں محروم اے مثلاً ٹرن پھرن توں لاچار اے تے سمسیا ھور گمبھیر ہو جاندی اے فیر اک قپامت ورگی سوچ سر تے آ کھلوندی اے کہ ساڈے بعد ایہدی دیکھ بھال کون کرے گا ؟ کاش ایہ ساڈے جیوندے جی مر جاوے حالانکہ ایہ
دعا منگنا وی ماں پیو لئی اک مشکل امر اے
معاملہ محض کسے معذور بال دے جمن تے ہی منحصر نئیں کوئی وی وڈا حادثہ حیاتی دا رخ بدلن دی صلاحیت رکھدا ایس حوالے نال ویکھیا جاوے تے حیاتی اک نہایت عجیب شے وے پر ایہ وی حقیقت اے کہ حیاتی نامعلوم دے خوف سہارے وی نہیں بتائی جا سکدی حیاتی گزارن
Read 4 tweets
12 Jan
میرا اک سوال ھے کہ جیسے ہم نے کتابوں میں پڑھا ھوا ہے کہ 1947ء میں برصغیر کی جو تقسیم ہوئی اس میں انڈیا نے پاکستان کا حصہ نہیں دیا تھا چلو مان لیا ھموھ ھندو تھے اس نا انصافی کر گئے....
لیکن سوچنے والی بات ہی ھے کہ کیا ہم بنگلادیش کو اس کا حصہ دیا ؟؟
اب تو دونوں طرف مسلمان تھے.++
تو کیا یہاں انصاف ہوا تھا کہ نہیں ؟؟

اگر نہیں ہوا تو کتابوں میں یہ بھی لکھا جائے کہ جیسے انڈیا والوں نے نا انصافی کی اسی طرح مملکت نے بھی بنگلادیش کے ساتھ نا انصافی کی
Read 8 tweets
12 Jan
لوہڑی کا تہوار مشرقی و مغربی پنجاب، راجستھان، ہریانہ اور دلی میں منایا جاتا ہے، یوں تو یہ تہوار سردیوں کی راتوں کو انجوائے کرنے اور مل جل کر بیٹھنے کے لئے ہے اور ہزاروں سال سے منایا جاتا ہے مگر اس تہوار سے ایک واقعہ یو ں بھی منسوب ہے کہ مغل بادشاہ، شہنشاہ جلال الدین اکبر کے
اہل کار نے خوبصورت ہندو لڑکی کو اغوا کرکے حرم میں داخل کرنے کا ارادہ کیا تھا، دلا بھٹی جو اس وقت کا باغی تھا کو اطلاع ملی تو وہ لڑکی کو جنگل میں اپنی پناہ گاہ میں لے گیا ، وہاں ایک ہندو لڑکے کے ساتھ اس کی شادی کی، اس شادی میں نہ لڑکی کے ماں باپ تھے اور نہ پنڈت یا ہندو گرو، دلے نے
خود آگ جلائی، خود ہی باپ بن کر کنہیا دان کیا اور خود ہی پنڈت بنا، دلے نے لڑکی کو ایک سیر شکر اور تلوں کا تحفہ دیا، مسلمان دلے بھٹی کو شادی کے منتر نہیں آتے تھے سو پھیروں کے دوران یہ پڑھنا شروع کیا، جسے لوہڑی کا گیت کہتے ہیں

مگھی (مکر سنکرانتی)، 13 جنوری سے ایک رات پہلے
Read 5 tweets
6 Jan
کیا آپکو پتا ہے کہ ماضی کی جنگیں کیسی ھوا کرتی تھیں ؟ گولی یا بم سے مرنا کچھ اور ہے ،،،، اور جب ایک وحشی حملہ آور گروہ ،اپنے ہاتھوں میں تیز دار والی کلہاڑیاں ، چھرے اور تلواریں لیکر آتا تھا تو وہ سب سے پہلے آبادی کا گھیراؤ کرتا تھا ،
اور جو نوجوان مرد، انکو روکنے کی کوشش کرتے تو انکے بازو ، سینہ ،گردن پر گہری ضرب کاری کرتے تھے تاکہ وہ دفاع کے قابل نہ ره سکیں ،،،،،،،،،،،،، اکثر صبح ہونے سے قبل حملہ کیا جاتا تھا اور پوری بستی کے لڑ سکنے والے مردوں کے بچوں اور عورتوں کو پکڑ لیتے تھے تاکہ کوئی مدافعت نہ کر سکے
،،،، پھر بچے کھچے مردوں کے ہاتھ پیچھے باندھ دیا کرتے . ،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،، اب ہر آدمی سے پوچھ کر مال طلب کیا جاتا ،،،،،،، کچھ لوگوں کو سب کے سامنے بیدردی سے قتل کیا جاتا ، تاکہ سب لوگوں کو دہشت زدہ کیا جائے ،،،،، اس طرح وہ ہر لوٹی جا سکنے والی اشیا کا خود ہی بتا دیا
Read 19 tweets

Did Thread Reader help you today?

Support us! We are indie developers!


This site is made by just two indie developers on a laptop doing marketing, support and development! Read more about the story.

Become a Premium Member ($3/month or $30/year) and get exclusive features!

Become Premium

Too expensive? Make a small donation by buying us coffee ($5) or help with server cost ($10)

Donate via Paypal Become our Patreon

Thank you for your support!

Follow Us on Twitter!