افسوس کہ مریم سمیت اس کے پورے #پٹوارخانے کو لاھور ہائی کورٹ کا آج کا فیصلہ بھی سمجھ نہیں آیا 🤦♂️
تفصیلات یوں ہیں کہ کھوکھر پیلس اور اس کی اطراف میں تجاوزات مسمار کر کے قبضہ کی ہوئی 38 کنال سرکاری زمین واگزار کروانے پر کھوکھر برادران نے لاھور ہائی کورٹ میں LDA اور پنجاب حکومت
1/14
کے خلاف توہین عدالت کا مقدمہ قائم کیا تھا جس کی آج سماعت ہوئی
کھوکھر برادران نے اپنی درخواست میں یہ موقف اختیار کیا تھا کہ ہمارے پاس لاھور کی سول عدالت کا جاری کیا ہوا اسٹے آرڈر بھی تھا اور اس کے علاوہ دو ہفتے قبل جب محکمہ اینٹی کرپشن نے #ccpolahore عمر شیخ کی مدد سے یہی
2/14
آپریشن کرنے کی کوشش کی تھی تو لاھور ہائی کورٹ نے حکم جاری کیا تھا کہ سول عدالت ایک ہفتے میں اس معاملے کا جائزہ لے کر فیصلہ کرے اور جب تک وہ فیصلہ نہ آئے اس وقت تک محکمہ اینٹی کرپشن کھوکھر پیلس یا اس کی اطراف میں تجاوزات مسمار کرنے کی کوئی کاروائی نہ کرے، ابھی یہ معاملہ سول
3/14
عدالت میں ہی تھا کہ پنجاب حکومت نے عدالتی احکامات کی دھجیاں اڑاتے ہوئے کھوکھر برادران کے خلاف یہ انتقامی کاروائی کر ڈالی، لہٰذا حکومت پنجاب اور محکمہ LDA کے خلاف توہین عدالت کی کاروائی بھی کی جائے اور ان کی جانب سے ہماری املاک مسمار کر کے سرکاری قبضے میں لی گئی زمین بھی
4/14
کھوکھر برادران کو واپس دینے کا حکم دیا جائے
کھوکھر برادران کے اس موقف پر عدالت نے جب حکومت پنجاب کے وکیل سے استفسار کیا تو انہوں نے بتایا کہ دو ہفتے پہلے LHC نے صرف محکمہ اینٹی کرپشن کیلیے حکم جاری کیا تھا کہ وہ سول کورٹ کے فیصلے سے پہلے کوئی کاروائی نہ کرے، اس حکم کا اطلاق
5/14
محکمہ LDA یا حکومت پنجاب پر نہیں ہوتا کیونکہ یہ حکم ان کیلیے نہیں تھا، حکومت پنجاب اور LDA نے قانون اور ضابطوں کے عین مطابق ناجائز قبضہ کی ہوئی 38 کنال سرکاری زمین واگزار کروانے کی مکمل کاروائی قانون کے عین مطابق کی ہے، اور جہاں تک وکیل استغاثہ نے یہ الزام عائد کیا ہے کہ
6/14
حکومت پنجاب یا محکمہ LDA نے سول عدالت کے جاری کیے ہوئے اسٹے آرڈر کی پرواہ کیے بغیر کوئی کاروائی کی ہے تو یہ بھی بالکل بے بنیاد الزام ہے کیونکہ سول کورٹ نے وہ اسٹے آرڈر کھوکھر پیلس کے صرف ان خسرہ نمبروں کیلیے جاری کیا ہوا ہے جو سیف الملوک کھوکھر کی جائز ملکیت ہیں اور اس زمین
7/14
پر حکومت پنجاب، LDA یا محکمہ اینٹی کرپشن نے کبھی کوئی دعویٰ کیا بھی نہیں، اگر کھوکھر برادران نے کھوکھر پیلس کے جائز حصے کیلیے کوئی اسٹے آرڈر نہ بھی لیا ہوتا تو بھی کھوکھر پیلس کے جائز حصے کو موجودہ پنجاب حکومت سمیت کسی بھی ادارے سے کوئی خطرہ نہیں تھا
موجودہ آپریشن میں قبضہ
8/14
کی ہوئی 38 کنال سرکاری زمین واگزار کروانے کیلیے صرف انہی خسروں پر سے تجاوزات مسمار کی گئی ہیں جن کا نہ تو کسی عدالت کے کسی اسٹے آرڈر میں کوئی ذکر ہے اور نہ ہی کھوکھر برادران کے پاس ان خسروں کے حق کا کوئی دعویٰ ہے، اس لیے کسی کا بھی یہ کہنا کہ حکومت پنجاب یا LDA نے کھوکھرپیلس
9/14
کے عقب میں اور اطراف میں موجود تجاوزات مسمار کر کے کسی عدالتی حکم کی حکم عدولی کی ہے یا کوئی خلاف قانون اقدام کیا ہے، سراسر بہتان اور بےبنیاد الزام ہے اس لیے گزارش ہے کہ وکیل استغاثہ کی توہین عدالت کی درخواست بھی مسترد کی جائے اور واگزار کروائی گئی سرکاری زمین کا قبضہ
10/14
کھوکھر برادران کو واپس دینے کی درخواست بھی خارج کی جائے
چیف جسٹس لاھور ہائی کورٹ جسٹس قاسم خان نے سرکاری وکیل کے تمام دلائل سننے کے بعد فیصلہ سنایا ہے کہ حکومت پنجاب یا LDA نے کھوکھر پیلس کیلیے جاری کیے ہوئے سول کورٹ کے اسٹے آرڈر کی کوئی خلاف ورزی نہیں کی اور نہ ہی انہوں
11/14
نے LHC کے کسی فیصلے کی حکم عدولی کر کے توہین عدالت کا ارتکاب کیا ہے اس لیے عدالت وکیل استغاثہ کے موقف مسترد کرتے ہوئے ان کی درخواستیں خارج کرتی ہے
عدالت نے مزید احکامات جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ سول کورٹ کا جاری کیا ہوا اسٹے آرڈر اب بھی موجود ہے اور وہ سول کورٹ کے فیصلے تک
12/14
برقرار رہے گا اور چونکہ یہ معاملہ پہلے ہی سول عدالت میں ہے اس لیے سول عدالت ہی یہ فیصلہ کرے گی کہ حکومت پنجاب اور LDA نے جو اراضی واگزار کروائی ہے وہ کس کی ملکیت ہے؟ سول عدالت کے فیصلے سے پہلے کسی کو حق نہیں کہ وہ واگزار کروائی گئی اراضی پر دوبارہ کوئی تعمیرات کرے یا کسی
13/14
بھی قسم کا قبضہ کرنے کی کوشش کرے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مریم اور اس کا #پٹوارخانہ (جس میں بڑے بڑے نام نہاد صحافی اور میڈیا ہاوس بھی شامل ہیں) اس ساری صورت حال کو جس طرح توڑ موڑ کے بیان کر رہا ہے اگر وہ خود فریبی نہیں ہے تو جہالت کا وہ قطب مینار ہے جس کی کوئی دوسری مثال نہیں ملے گی
14/14
• • •
Missing some Tweet in this thread? You can try to
force a refresh
براڈشیٹ کو 4 ارب روپےدینے پر شور مچانےوالے پاکستانیو،
پاکستان نے "تجربہ کار" نواز+زرداری حکومتوں کےکیے ہوئےمعاہدوں کی بدولت 2023میں بجلی پیدا کرنےوالی کمپنیوں کو اُس بجلی کی مد میں 1455 ارب روپےدینے ہیں جو نہ تو انہوں نےکبھی پیدا کی اور نہ ہی ہم نےان سےلے کر کبھِی استعمال کی
1/3
2013 تک ہمیں 23 ہزار میگا واٹ بجلی کی ضرورت پوری کرنے کیلیے تقریباً 6 ہزار میگا واٹ بجلی کی کمی کا سامنا تھا جسے پورا کرنے کیلیے ماضی کی تجربہ کار حکومتوں نے 16 ہزار میگاواٹ بجلی کی پیداواری صلاحیت والے کارخانے اس شرط پر پندرہ پندرہ سال کے معاہدے کر کے لگوائے کہ ہم ان سے بجلی
2/3
لیں یا نہ لیں، حکومت پاکستان انہیں ان کی پوری پیداواری صلاحیت کےمطابق ادائیگی کرےگی، اب وہ کمپنیاں چھ سات ہزار میگا واٹ بجلی پیدا کر کے پورے 16 ہزار میگاواٹ بجلی کے پیسے لے رہی ہیں اور ہم انہیں یہ پیسے دینے پر مجبور ہیں۔ اس مد میں اب تک ہم تقریباً 5000 ارب روپے ادا کر چکے ہیں
3/3
گرفتاری کے بعد حمزہ شہباز کا فروری 2020 تک لاھور ہائی کورٹ میں یہ موقف تھا کہ نیب نے اسے غیرقانونی طور پر گرفتار کیا ہے اس لیے اسے ضمانت پر رہا کیا جائے جس پر LHC کے دو رکنی بنچ نے حمزہ کی وہ درخواست خارج کر کے مہر ثبت کر دی تھی کہ حمزہ کی گرفتاری قانونی تھی
حمزہ نے LHC کے
1/7
فروری 2020 کے اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کر دی تھی جس پر آج سپریم کورٹ کے 3 رکنی بنچ نے سماعت کی تو نیا لطیفہ سامنے آیا
بجائے اس کے کہ حمزہ کے وکیل حمزہ کی گرفتاری کو غیرقانونی ثابت کر کے سپریم کورٹ سے LHC کا فیصلہ منسوخ کروانے کا حکم جاری کرواتے، انہوں نے
2/7
سپریم کورٹ سے اس بنیاد پر حمزہ کی ضمانت کی بھیک مانگنی شروع کر دی کہ حمزہ کو گرفتار ہوئے پونےدو سال ہو گئے ہیں، جن مقدمات میں اسے گرفتار کیا گیا تھا ان پر عدالتوں میں ٹرائل جاری ہے اور ابھی ان مقدمات کا فیصلہ ہونے میں کافی دیر لگے گی، اس لیے حمزہ کو اس کے خلاف جاری مقدمات
3/7
بھارتی TRP سکینڈل میں ریپبلک TV کے ارنب گوسوامی کی ایک واٹس ایپ چیٹ سامنے آئی تو پتہ چلا کہ وہ کون سی چیز ہے جو پاکستان کے بہت سے لفافہ صحافیوں کو ٹک کے نہیں بیٹھنے دے رہی؟
ارنب گوسوامی اور براڈکاسٹ آڈینس ریسرچ کونسل (BARC) کے سابقہ CEO پرتھو داس گپتا کی تقریباً 1000 صفحات 1/9
پر مشتمل جس واٹس ایپ چیٹ کو ممبئی پولیس نے ٹیلی ویژن ریٹنگ پوائنٹس (TRP) چھیڑچھاڑ کیس میں ان دونوں کے خلاف ضمنی چارج شیٹ کے طور پر شامل کیا ہے اس سے پتہ چلتا ہے کہ ارنب کو وزیراعظم آفس سمیت متعدد اونچی جگہوں تک رسائی حاصل ہے اور وہ حکومت کے بہت سے اہم فیصلوں سے بھی واقف تھا
2/9
یہاں یہ بتاتا چلوں کہ بھارت میں TRP سکینڈل گذشتہ سال اکتوبر میں سامنے آیا تھا، جب ٹی وی چینلز کے لئے ہفتہ وار ریٹنگ جاری کرنے والی BARC نے ریپبلک ٹی وی سمیت کچھ چینلز کے خلاف TRP میں دھاندلی کا انکشاف کرتے ہوئے ہانسا ریسرچ ایجنسی کے ذریعہ ایک شکایت درج کروائی تھی جس کے بعد
3/9
خبر ہےکہ لاھور ہائی کورٹ کے ایک وکیل محمد آفاق نے چیف جسٹس لاھور ہائی کورٹ جسٹس قاسم خان کے خلاف اختیارات کے ناجائزاستعمال اور اقرباءپروری کے سنگین الزامات کےتحت سپریم جوڈیشیل کونسل میں ایک ریفرینس دائرکیا ہے
ریفرینس میں درج الزامات کےمطابق جسٹس قاسم خان نے 5 افرادکو اقرباء
1/8
پروری کی بنیاد پر اسسٹنٹ ایڈووکیٹ جنرل پنجاب تعینات کیا اور 16 ایسےلوگوں کو لاھور ہائی کورٹ کا جج بنانےکی سفارش کی جو اس منسب کےاہل نہیں تھے
ریفرینس میں اسسٹنٹ ایڈووکیٹ جنرل پنجاب کےعہدے پر تعینات کیےگئے پانچوں افراد سمیت ان 16 میں سے 15 افراد کا جسٹس قاسم خان سے تعلق فرداً
2/8
فرداً بیان کیاگیا ہےجنہیں جسٹس قاسم خان نےلاھور ہائی کورٹ کا جج بنانےکی سفارش کی تھی
جسٹس قاسم خان نے عابدچٹھہ کا ایک ایسا نام بھی جج کےعہدے کیلیے سفارش کیا جس سے جسٹس قاسم خان کا کوئی تعلق نہیں لیکن چونکہ وہ سپریم کورٹ کے جسٹس عمر عطاء بندیال کےقریبی عزیز ہیں اس لیےان کانام
3/8
جس برطانوی کمپنی #براڈشیٹ_فیسکو نے پاکستان پر کیس کر کے 4 ارب روپے سے زیادہ ہرجانے کا کیس جیتا ہے اس کے مالک نے ہرجانے کی وصول شدہ رقم پاکستان کو واپس کرنے کا اعلان کر دیا، وہ کمپنی عمران خان حکومت کے ساتھ مل کے پاکستانی دولت لوٹنے والوں کو بینقاب کرنے کی خواہاں ہے👏
اور مزے کی بات یہ ہے کہ اسہی ہرجانے کی ادائیگی کو ن لیگ نے جس طرح #نوازشریف_سرخرو کا ٹرینڈ چلا کے اپنی جیت کے طور پر پیش کیا تھا اس کا جنازہ اس طرح نکلا ہے کہ اسہی کمپنی کے مالک نے آج اپنے ایک انٹرویو میں نوازشریف اور اس کی حکومت کے پول کھول کے اسے کہیں کا نہیں چھوڑا 😂
یہاں میں ایک سب سے اہم بات بھی پوری پاکستانی قوم کو بتاتا چلوں کہ #براڈشیٹ_فیسکو کا وہ مالک جو پاکستان سے وصول شدہ ہرجانے کی رقم تک پاکستان کو واپس کرنے کیلیے تیار ہے وہ برطانوی نہیں، ایرانی نژاد برطانوی شہری ہے
@SdqJaan
ایک ایسے مندر کی خبر جو کوئی دوسرا نہیں دے گا
متروکہ وقف املاک کی زیر سرپرستی انارکلی لاھور میں موجود انیسویں صدی کے ایک مندر کو جس کا نام "برھم سماج مندر" تھا، مسمار کر کے اس کی جگہ ایک پلازا تعمیر کیا جا چکا ہے حالانکہ متروکہ وقف املاک کے قوانین کے مطابق قدیم
1/4
تعمیرات کی ایک بھی اینٹ ہٹانے تک کی اجازت نہیں ہوتی اور نہ ہی ایسی املاک پر کوئی نئی تعمیرات کی جا سکتی ہیں مگر اس کے باوجود اس مندر کو مسمار کر کے اس کی زمین عقب میں موجود پلازہ میں شامل کر دی گئی اور پلازہ نے اس زمین کو اپنی توسیع میں استعمال کر لیا
یہاں یہ بھی بتاتا چلوں
2/4
کہ وہ مندر ہندؤوں کا نہیں تھا۔ 1810 عیسوی میں ہندوستان کے ایک شہری (جس کا نام راجہ رام مومن رائے تھا) نے ایک نیا مذہب (برھمو سماج) ایجاد کیا تھا، اس نے اپنے اس نئے مذہب میں تمام مذاہب سے اپنے پسندیدہ عقائد کو اکٹھا کیا تھا جس میں اللہ کی واحدانیت کو مرکزی حیثیت حاصل تھی۔ اسہی
3/4