چند برس قبل WTO کے ایک کورس کے سلسلے میں ہانگ کانگ جانا ہوا، کورس کے شرکاء سولہ ممالک سے تھے جن میں وطن عزیز سے علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے ایک لیکچرر بھی شامل تھے۔ موصوف نےیونیورسٹی لیکچررشپ کے چکر میں نام کےساتھ پروفیسر لگا رکھا تھا، جبکہ عمر تقریباً یہی کوئی 30-28سال ہوگی۔ +
کورس کے پریزنیٹرز زیادہ تر یورپ، امریکہ اور کینیڈا سے تھے۔اب ہوتا یہ کہ کلاس کے شروع میں تعارفی مرحلے کے دوران یہ صاحب اپنا تعارف بطور پروفیسر کرواتے تو نہ صرف میزبان حیران رہ جاتےبلکہ کلاس حیرت سے ایک دوسرے کی شکلیں تکنےلگتے۔ میں نے ایک دن ازراہء ہمدردی مشورہ دیا کہ بھائی صاحب+
اپنا تعارف بطور لیکچرر کروا لیا کریں، یہ جاہل قومیں ہیں یہ آپکا ٹیلنٹ نہیں سمجھتے، انہوں نے لفظ پروفیسر بیس تیس سال تجربے والے اساتذہ کیلئیے مخصوص کر رکھا ہے۔ کہنے لگے عمران بھائی پروفیسر کہنے سے ان پر ذرا رعب پڑ جاتا ہے اپ نے دیکھا نہیں کیسے انکے منہ کھلے کے کھلے رہ جاتے ہیں؟+
عرض کیا کہ بھائی آپ کو چاہئیے کہ انکو بتائیں کہ کیسے وطن عزیز میں ہر نجومی، دست شناس، ماہرِ جنات اور پبلک موٹیویشنل سپیکر تک پروفیسر ہوتے ہیں تاکہ ان جاہلوں کے باقی ماندہ سوراخ بھی کھلے کے کھلے رہ جائیں!
اور اسی بات پر “پروفیسر صاحب" ہم سے آج تک ناراض ہیں۔۔۔
• • •
Missing some Tweet in this thread? You can try to
force a refresh
نوے کی دہائی کے اواخر کی بات ہے کہ جاب کی حوالے سے مجھے ایک اچھا موقع ملا اور لندن کی ایک کمپنی نے مجھے پاکستان میں بطور پراجیکٹ مینجر اور کنٹری ہیڈ ہائیر کر لیا۔ یعنی پاکستان میں کمپنی کی نمائیندگی کے علاوہ میری ذمہ داریوں میں لاہور، کراچی اور +
اسلام آباد میں سوفٹ وئیر انجنئیرز کی ٹیمیں تشکیل دے کر ان سے پروجیکٹ ورک کروانا تھا۔ مشاہرہ اچھا تھا اور کمپنی کے کھاتے میں سفر کے بے شمار مواقع، مجھے سفر ہمیشہ سے ہی پسند تھا سو یہ جاب میری پسندیدہ جاب بن گئی۔ کام پسند کا ہو، مشاہرہ اچھا ہو اور براہِ راست غیر ضروری دباؤ نہ ہو +
تو نتیجے کے طور پر کام میں توجہ، ارکاز، دلچسپی اور یوں پیداواری صلاحیت کئی گنا بڑھ جاتی یے۔ اس سب کا فائدہ یہ ہوا کہ پہلے دو پراجیکٹس ہی نہ صرف بروقت مکمل ہوئے بلکہ کسٹمر کی ضرورت کی عین مطابق تیار ہوئے۔ لندن میں کمپنی کے تین پارٹنرز میں سے ایک برٹش بورن پاکستانی عاصم شاہ تھے۔+
طارق عزیز صاحب سے بالمشافہ ملاقاتوں کا موقع 96 میں ملا۔
قصہ کچھ یوں ہے کہ میں اپنے کالج جرنل کا بانی چیف ایڈیٹر تھا اور پہلے شمارے کی افتتاحی تقریب کیلئیے طارق صاحب کو بطور مہمانِ خصوصی مدعو کرنا چاہ رہا تھا۔ ڈائریکٹری سے نمبر دیکھ کر پی ٹی وی لاہور کا نمبر ملایا اور آپریٹر سے
طارق عزیز صاحب کا نمبر پوچھا، آپریٹر نے نمبر دینے سے انکار کر دیا۔ میں نے آپریٹر سے کہا کہ 'کالج کا انتہائی اہم فنکشن ہے اور طارق عزیز صاحب نے بطور مہمان ِخصوصی مدعو ہونا ہے، آپ سوچ لیں اگر طارق صاحب فنکشن اٹینڈ نہ کر پائے تو آپکی گوشمالی ہو جانی ہے' آپریٹر نے کچھ سوچ کر جھجھکتے
ہوئے فون نمبر دے دیا۔ اگلے ہی لمحے میں نے طارق صاحب کو فون ملا دیا۔ چند لمحوں بعد طارق عزیز صاحب نے خود فون اٹھایا، انکی آواز کے زیرو بم نے چند لمحات کیلئیے میرے اعصاب کو منجمد کر دیا۔ طارق صاحب نے بھاری آواز سے دوبارہ ہیلو کہا تو میں نے لرزتی آواز میں مدعا بیان کیا۔ میرے
~تھریڈ~
دو تین سال پہلے صبح صبح جاب پر جانے کیلئیے گھر سے نکلا، ہائی وے401 جنوب وسطی اونٹاریو سے شرقاً غرباً گزرتی ہے اور نارتھ امریکا کی سب سے مصروف ہائی ویز میں سے ایک تصور ہوتی ہے۔ ہائی وے401 پر مسی ساگا سے گزرتے ہوئے ایک حصہ ایسا آتا ہے جہاں صبح کے وقت مشرق کی جانب سفر کرتے
ہوئے سورج آنکھوں کے بالکل سامنے آ جاتا ہے، روزانہ سفر کرنے والے کیمیوٹرز اس صورتحال سے بخوبی واقف ہیں لہٰذا اس حصے پر گاڑیاں احتیاط سے چلاتے ہیں، لیکن اگر کوئی نیا ڈرائیور ہو یا اس امر سے ناواقف ہو تو یہ اسکے لئیے مشکلات کے باعث بنتی ہے۔ اس دن میرے ساتھ کچھ یہی ہوا کہ میں چونکہ
روزانہ سفر کرنے والا تھا لہٰذا میں تو واقف تھا لیکن میرے پیچھے والی کار کا ڈرائیور شاید مشکلات کا شکار تھا اور وہی ہوا کہ اسے میری گاڑی نظر نہ آئی اور میری گاڑی کا پچھلا بمپر اس نے ہٹ کر ڈالا۔ ہم دونوں نے گاڑی فوراً لین سے باہر نکال کر پارک کی اور اپنی گاڑیوں سے باہر نکل آئے،
تھریڈ
ایثم بمب بنانے کا کریڈٹ کسی سائینسدان کو دینا، کسی سابق وزیراعظم کو دینا یا کسی طاقتور خفیہ ادارے کو دینا ہے؟ یہ بحث انتہائی لغو، بے معنی اور کم ظرفی پر مشتمل ہے۔ وقت آ چکا ہے کہ ان حقائق سے پردہ اٹھایا جائے جو بوجوہ آج تک آشکار نہ ہوسکے آئیے اس اظہر من الشمس حقیقت کا سامنا
کریں جس سے ہم پچاس سال سےنظریں چراتے آ رہےہیں اور وہ حقیقت یہ ہےکہ اگر عمران خان ایٹمی پروگرام میں مدد نہ کرتے تو شاید ایٹمی پروگرام پایہ تکمیل تک نہ پہنچ پاتا۔ راوی لکھتاہے کہ آپ کو بچپن سے ہی سائینسدان بننے کا شوق تھا اس بات کا ثبوت آپکی سپیڈ کی لائٹ والی تھیوری سے بھی ملتاہے۔
راوی لکھتا ہے کہ آپ نے سکول کے زمانے میں ہی مصمم ارادہ کر لیا تھا کہ وطنِ عزیز کو جوہری طاقت سے مالا مال کر کے دم لیں گے، اس عظیم مقصد کے حصول کیلئیے آپ نے پرائمری پڑھائی کے دوران اپنی پوری توجہ گلی ڈنڈے پر مرکوز رکھی۔ یہی وجہ تھی کہ گلی ڈنڈے سے آپکا یہ لگاؤ بعد ازاں کرکٹ کے
تھریڈ
لڑکپن میں گرمیوں کی چھٹیوں میں ننھیالی گاؤں جانا ہوتا تو دلچسپی کی دیگر سرگرمیوں کے علاوہ گاؤں کے قریب واقعہ بابا حیدر شاہ کی خانقاہ پر میلہ دلچسپی کا خصوصی مرکز ہوتا۔ آس پاس کے دیہات خانقاہ سے خصوصی عقیدت رکھتےاور یوں سال بھر جاری صدقے کی نذر نیاز کےعلاوہ یہ میلہ علاقے میں
چند دن کیلئیے خصوصی معاشی سرگرمیوں کا مرکز ٹھہرتا۔ ہمارے لیئے بچپن میں میلے میں جو چیز سب سے زیادہ دلچسپی کا باعث بنتی وہ ایک عدد موت کا کنواں تھا جس میں بیک وقت دو کاریں کنویں کی دیواروں پر دوڑتیں۔ سالہا سال شو دیکھتے رہنے اور فطری تجسس کے ہاتھوں مجبور ہماری توجہ شو انجوائے کرنے
کی بجائے زیادہ تر انکے روز مرہ معاملات اور انتظامی امور پر رہتی کہ اس سارے گورکھ دھندے کو آخر چلایا کیسے جاتا ہے؟ اور اس کاروبار میں کس کا کیا کردار ہے؟ تو صاحب مذکورہ موت کے کنویں میں دونوں کاریں چلانے والے ڈرائیورز کو چیمپئین یا استاد کہا جاتا اور یہ دونوں حضرات سب سے زیادہ
دورِ طالب علمی کا حقیقی واقعہ ہے، کوہستان بس سروس کی بس لاہور سے گوجرانوالہ کیلئیے روانہ ہوئی، شاہدرہ سے ایک دوائی فروش بس میں سوار ہو گیا، لباس اور چہرے مہرے سے پڑھا لکھا اور سرکاری ملازم لگتا تھا۔۔بس آبادی سے باہر نکلی تو اس نے بتایا کہ وہ عام دوا فروش نہیں فقط اپنے مرشد حضرت
پیر فلاں فلاں کے حکم پر فلاحِ عامہ کیلئیے دوا بیچ رہا ہے۔ یہ دوائی فروش دورانِ گفتگو وقتاً فوقتاً انتہائی دیسی لہجے میں انگریزی کے الفاظ بھی بول جاتا۔ اس نے بات جوڑوں کے درد سے شروع کی اور بیس منٹ تک بتایا کہ کیسے اس کے مرشد حضرت پیر فلاں فلاں کی چالیس سال کی محنت سے تیار کردہ
دوا آپکے گھر میں والدین اور بزرگوں کیلئیے مفید ہو سکتی ہے، بس سے مگر کوئی ریسپونس نہ آیا، اب اس بتایا کہ اس دوا کا دوسرا فائدہ دانتوں کے درد میں فوری افاقہ ہے۔ دس منٹ کی دانتوں کے مسائل بارے تقریر سے بھی وی بس کے مسافروں سے توجہ حاصل کرنے میں ناکام رہا، اب اس نے بتایا کہ وہ یہ