ﭼﮭﻮﻟﯿﺎ۔
ﺁﭖ ﺳﮯ ﺍﯾﮏ ﺑﺎﺭ ﭘﻮﭼﮭﺎ ﮔﯿﺎﮐﮧ ﯾﮧ ﻣﺼﺮﻉ ﮐﯿﺴﮯ آپکے ﺫﮨﻦ ﻣﯿﮟﺁﯾﺎ،
ﺁﭖ ﻧﮯ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ﮐﮧ:
”ﺟﺐ ﻟﻮﮒ ﭘﻮﭼﮭﺘﮯ ﺗﮭﮯ ﮐﮧ، ﻣﺴﻠﻤﺎﻥ
ﭘﺎﮐﺴﺘﺎﻥ ﮐﺎ ﻣﻄﺎﻟﺒﮧ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ لیکن پاکستان کا مطلب کیاہے؟
تو میرے ذہن
ﻣﯿﮟ ﺁﯾﺎ ﮐﮧ ﺳﺐ ﮐﻮ ﺑﺘﺎﻧﺎ ﭼﺎﮨﯿﺌﮯ ﮐﮧ
” ﭘﺎﮐﺴﺘﺎﻥ ﮐﺎ ﻣﻄﻠﺐ ﮐﯿﺎﮨﮯ؟
ﯾﮧ ﻧﻌﺮﮦ ﮨﻨﺪﻭﺳﺘﺎﻥ ﮐﮯ ﻃﻮﻝ ﻭﻋﺮﺽ ﻣﯿﮟﺍﺗﻨﺎ ﻣﻘﺒﻮﻝ ﮨﻮﺍ ﮐﮧ تحریک پاکستان اور یہ نعرہ لازم وملزوم ہو گئے۔
اسی لئے قائد اعظم نے کہا تھا کہ
ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک عمررسیدہ بزرگ اپنے بیٹے کے ہمراہ کسی دوسرے گاؤں میں کام کی غرض سے جانے کے لیے نکلا۔راستے میں ایک جنگل پڑتا تھا۔دونوں نے شام ڈھلنے سے پہلے جنگل تو عبور کر لیا مگر ابھی بھی گاؤں کافی دور تھا اور درمیان میں ایک چھوٹا سا پہاڑی 👇
سلسلہ بھی حائل تھا۔اوپر سے ستم یہ کہ باپ بیٹا تھکن سے بھی چور چور ہو چکے تھے۔ یہی سوچتے کہ اب کیا کرنا چاہیے سفر جاری رکھا جائے جو کہ بظاہر ناممکن لگ رہا تھا یا پھر کہیں قیام کیا جائے ان دونوں نے سفر جاری رکھا۔سوچوں میں غرق باپ بیٹا کچھ ہی دور چلے ہونگے کہ حد نگاہ کے اختتام پر👇
انہیں ایک گھر کی موجودگی کاشائبہ ساہوا۔ گھرکی موجودگی کے اس احساس نے جیسے ان دونوں میں کوئی برق سی بھر دی اور وہ لمبے لمبے ڈگ بھرتے ہوئے آگے بڑھنے لگے۔جب قریب پہنچے تودونوں کی خوشی کی انتہا نہ رہی کہ واقعی اس وسیع و عریض بظاہر ویران میدان میں ایک کچا گھر واقع تھا۔جسکے احاطے میں👇
"اہل عرب جب شادی بیاہ کرتے تھے تو قدیم رواج کے مطابق دعوت کی تقریب میں شامل مہمانوں کی تواضع کےلیے بھنے ہوئے گوشت کے ٹکڑے کو روٹی کے اندر لپیٹ کرپیش کرتے تھے۔
اگر کسی تقریب میں گھرکے سربراہ کوپتا چلتاکہ اس شادی میں شریک افراد کی تعداد دعوت میں تیار کیے گوشت کے ٹکڑوں کی تعداد سے👇
زیادہ ہے ، یا زیادہ ہوسکتی ہے ، تو وہ کھانے کے وقت دو روٹیاں (گوشت کے بغیر) ایک دوسرے کے ساتھ لپیٹ کر اپنے اہلِ خانہ، رشتہ داروں اور انتہائی قریبی دوستوں میں تقسیم کرتے جبکہ گوشت روٹی کے اندر لپیٹ کر صرف باہر سے آئے ہوئے اجنبیوں کو پیش کیا جاتا تھا.
ایسا ہی ایک بار غریب شخص کے👇
ہاں شادی کی تقریب تھی جس میں اس شخص نے دعوت کے دن احتیاطاً بغیر گوشت کے روٹی کے اندر روٹی لپیٹ کر اپنے گھر والوں،رشتہ داروں اور متعدد قریبی قابلِ بھروسہ دوستوں کو کھانے میں پیش کی،تاکہ اجنبیوں کو کھانے میں روٹی کے ساتھ گوشت مل سکے اورکسی بھی قسم کی شرمندگی سے بچاجاسکے.
جنہیں👇
کل فیکے کمہار کے گھر کے سامنے ایک چمکتی ہوئی گاڑی کھڑی تھی۔سارے گاؤں میں اس کا چرچا تھا۔جانے کون ملنے آیا تھا؟
میں جانتا تھافیکا پہلی فرصت میں آ کر مجھے سارا ماجرا ضرور سناۓ گا۔
وھی ھوا شام کو تھلے پر آکر بیٹھا ھی تھا کہ فیکا چلا آیا۔👇
کہنے لگا۔"صاحب جی کئی سال پہلے کی بات ھے آپ کو یاد ھے ماسی نوراں ہوتی تھی وہ جو بھٹی پر دانے بھونا کرتی تھی۔جسکا اِکو اِک پُتر تھا وقار"
میں نے کہا"ہاں یار میں اپنے گاؤں کے لوگوں کو کیسے بھول سکتا ھوں"
اللہ آپکابھلا کرے صاحب جی،وقار اور میں پنجویں جماعت میں پڑھتے تھے۔
سکول میں👇
اکثر وقار کے ٹِڈھ میں پیڑ ھوتی تھی۔ اک نُکرے لگا روتا رہتا تھا۔ماسٹر جی ڈانٹ کر اسے گھر بھیج دیتے تھے کہ جا حکیم کو دکھااور دوائی لے۔اک دن میں آدھی چھٹی کے وقت وقار کے پاس بیٹھا تھا۔میں نے اماں کے ہاتھ کا بنا پراٹھااور اچار کھولا۔
صاحب جی اج وی جب کبھی بہت بھوک لگتی ھے نا توسب👇
یہ 1282 ہجری کی بات ہے. سعودی عرب کے بریدہ شہر میں منیرہ نامی ایک نیک وصالح خاتون نے مرنے سے پہلے اپنے زیورات بھائی کے حوالے کئےکہ میری وفات کے بعد ان زیورات کو بیچ کر ایک دکان خرید لیں.پھراس دکان کو کرائے پر چڑھائیں اور آمدن کو محتاجوں پر خرچ کر دیں.
بہن کی وفات کے بعد بھائی نے
وصیت پر عمل کرتے ہوئے انکے زیورات بیچ کر بہن کے نام پر 12ریال میں ایک دکان خرید لی(اس زمانے میں 12 ریال کی بڑی ویلیو تھی) اور اسے کرائے پر چڑھا دیا۔کرائے کی رقم سے محتاجوں کیلئے کھانے پینے کی اشیاء خرید کر دی جاتی رہی یہ سلسلہ دہائیوں جاری رہا۔ دہائیوں بعد دکان کا ماہانہ کرایہ 15
ہزار ریال تک پہنچ چکا تھا،اور اس رقم سے ضرورت مندوں کیلئے اچھی خاصی چیزیں خرید کر دی جاتی تھیں۔ پھر وہ دن آیا کہ سعودی حکومت نے بریدہ کی جامع مسجد میں توسیع کرنے کا فیصلہ کیا اور یہ دکان توسیع کی زد میں آ رہی تھی۔چنانچہ حکومت نے 5 لاکھ ریال میں یہ دکان خرید لی.
دکان کی دیکھ بھال
خلیل الرحمن قمر صاحب لکھتے ہیں کہ میں جب چھوٹا تھا تو بڑا انا پرست تھا.غربت کے باوجود کبھی بھی یوزڈ کپڑے نہیں پہنتاتھا۔ ایک بار میرے ابا کو کپڑے کاسوٹ گفٹ ملا تو میں نے اُن سے کہا مجھے کوٹ سلوانا ہے۔تو ابا جی نے اجازت دے دی اور ہاف سوٹ سے میں نے گول گلے والا کوٹ_سلوا لیا جسکا+
اُن دنوں بڑا رواج تھا۔۔
وہ کوٹ پہن کر مَیں چچا کے گھر گیا تو چاچی اور کزنز نے فَٹ سے پوچھا: ”اویے_خیلے_اے_کوٹ_کتھو_لیا_ای؟
میں نے کہا:”سوایا ہے چاچی“لیکن وہ نہ مانے میں نے قسمیں بھی کھاٸیں۔لیکن اُنکو اعتبار نہ آیا خالہ،پھوپھو کے گھر گیا تو وہاں بھی کچھ ایسا ہی ہوا میں گھر آیا
اور کوٹ اُتار کر پھینک دیا اور رونے لگ گیا۔۔
حالات کچھ ایسے تھے کہ کوٸی بھی ماننے کو تیار ہی نہیں تھاکہ خیلہ بھی نیا کوٹ سلوا سکتا ہے۔
پڑھنے لکھنے اور جاب کےبعد جب میں ایک بنک کے بورڈ آف ڈاٸریکٹرز کا ممبر بنا۔تو بورڈ آف ڈاٸریکٹرز کی ایک میٹنگ میں اچھے سے ڈراٸی کلین کیا ہوا لنڈے