پاکیزہ۔۔ وقت کی ایک کترن۔۔ منجو اور چندن کے عشق کا تاج محل

قدرت وقت کی قطع و برید کرکے دنیا کے حالات و حوادث تراشتی ہے۔ وقت کی کتر بیونت کے بعد بچی ہو کترنیں ہمارے ذہنوں میں کسی منت کے دھاگوں کی طرح بندھی رہتی ہیں۔

Images: IMDB, Hindustan Times, Google
کبھی کبھی یوں بھی ہوتا ہے انہیں کترنوں سے ایک شاہکار بھی تخلیق ہو جاتا ہے۔ بہت سے لوگوں کی بدقسمتیاں تراشنے کے بعد انکے بچی کترنوں سے ایک شاہکار فلم پاکیزہ بنی تھی

ہر فلم کی دو کہانیاں ہوتی ہیں۔ ایک وہ جس کو فلمایا جا رہا ہوتا ہے اور دوسری وہ جو فلم کے بنانے میں تشکیل پاتی ہے۔
آج ہم اس کہانی کی بات کریں گے جو فلم بنانے میں تشکیل پائی اور اتنی دل سوز ہے کہ اس پر بھی ایک فلم بنائی جانی چاہئے۔

انڈین فلم انڈسٹری کی تاریخ "پاکیزہ "کے بغیر لکھی ہی نہیں جا سکتی۔حیرت کی بات یہ ہے اس فلم کو کوئی ایوارڈ نہیں دیا گیا تھا بلکہ پران صاحب کو اسی سال
فلم فیر ایوارڈ میں جب پاکیزہ کو چھوڑ کر پران صاحب کو ایوارڈ ملا تو احتجاجاً ایوارڈ واپس کر دیا کہ بہت بڑی زیادتی کی گئی ہے۔
کمال امرہووی۔ جون ایلیا اور رئیس امروہوی کے فرسٹ کزن تھے۔ ہدایت کار، پروڈیوسر، کہانی نگار، مقالمہ نویس تھے۔ کمال کے انسان تھے۔مغلِ اعظم کی کہانی انہیں کی
لکھی"انارکلی "سے لی گئی فلم کے ڈائیلاگ بھی کمال نے لکھے
مینا کماری انتہائی جذباتی اور دوسروں کی مدد کے لے ہمہ وقت تیار مینا کماری کی زندگی خوشی بانٹنے اور دوسروں کے دکھوں کو دور کرنے میں گزری۔ شاعری میں ان کا تخلص ’ناز‘ اوران کے شوہر کمال امروہی انہیں پیار میں منجو کہا کرتے
مشہور رسالے ’آؤٹ لُک‘ کے سابق ایڈیٹر ونود مہتا نے مینا کماری کی سوانح حیات بعنوان ’مینا کماری اے کلاسیکل بائیو گرافی‘ لکھی ہے۔
وہ لکھتے ہیں ان دونوں کا عشق مسمی کے جوس سے شروع ہوا تھا۔ جب کمال امروہی مینا کماری سے ملنے پونا کے ہسپتال پہنچے تو مینا کماری کو اپنے ہاتھ سے جوس پلایا۔
جس دن ان کا ملنا نہیں ہوتا تھا اس دن وہ ایک دوسرے کو خط لکھتے تھے، ہر روز ایک خط۔ لیکن ان حظوط پر کوئی ٹکٹ نہیں لگایا جاتا کیونکہ یہ خط وہ خود وہ ایک دوسرے کو اپنے ہاتھوں سے دیتے تھے۔

امروہی رات 11:30 بجے مینا کماری کو فون کیا کرتے تھے اور دونوں صبح 5:30 بجے فون بند کرتے تھے۔
شاید رات میں اتنی دیر باتیں کرنے کی وجہ سے مینا کماری اور کمال امروہی دونوں کو رات میں نیند نہ آنے کی بیماری ہو گئی۔

مئی 1952 کو مینا کماری نے کمال امروہی سے شادی کر لی۔
ان کے دوست کہتے ہیں جس طرح شاہ جہاں نے اپنی بیگم کے لئے تاج محل بنوا کر اپنی محبت کو امر کر دیا
کمال پاکیزہ بنا کر اپنی محبت کو اور مینا کماری کو امر کر دینا چاہتے تھے۔
کمال نے ایک ایک ایکسٹرا تک کے پہننے والی جیولری خود منتخب کی۔ ساری فلم کا سیٹ خود ڈیزائن کیا۔ مینا کماری نے فلم کے ملبوسات خود ترتیب دئے۔ یہ وہ تاج محل تھا جس کو وہ دونوں اپنے ہاتھ سے بنانا چاہتے تھے
1955 میں فلم کے ابتدائی خاکہ پر کام شروع کیا گیا۔ 1957 میں فلم کا مہورت رکھا گیا۔ لیکن اگلے چند سال صرف لوکیشن ، ڈیزائین ، ہیرو ، فلم اور اس کی کہانی کئی مرتبہ لکھی اور مٹائی گئی۔ فلم پر کام شروع ہوا تو زمانہ بلیک اینڈ وائیٹ کا تھا مگر رنگین فلمیں بنانا شروع ہو چکی تھیں۔
کمال نے فلم کی شوٹنگ دوبارہ شروع کی کہ فلم کلر بنے گی۔

مشکل ترین شوٹنگ مہنگے ترین سیٹ جن کے لئے بیلجیئم سے فانوس منگوائے گے۔ ابھی رنگین فلم بندی ہورہی تھی کہ دنیا یں سینما سکوپ ٹیکنالوجی آ گئی اور کمال صاحب نے فیصلہ کر لیا کہ اب فلم سینما سکوپ بنے گی۔
مشہور ایم جی ایم سے سینما سکوپ لینز منگوائے گئے اور دوبارہ کام شروع ہوا۔ کمال صاحب اپپنی زندگی اس فلم کو دیتے جا رہے تھے۔ یہاں تک کے سن 64 تک فلم مکمل نہ ہوسکی.

دوسری طرف مینا کماری ایک گمنام اداکارہ سے شہرت کی بلندیوں پر پہنچ چکی تھیں فلم انڈسٹری میں اس قسم کی شادیاں
عموماً زیادہ دیرنہیں چل پاتی اور ان میں شہرت ایک بہت بڑی وجہ بنتی ہے۔ یہی کچھ یہاں پر بھی ہوا اور 1964 میں دونوں میں علیحدگی ہوگئی۔

آدھ ادھوری فلم ڈبوں میں بند ہوگئی۔ بدقسمتی کا آغاز ہوگیا۔ مینا کماری شراب اور تمباکو نوشی کی لت میں پڑیں اور شدید بیمار ہوگئیں
1967 میں فلم کے سینما فوٹوگرافر جوزف انتقال کر گئے۔ یہ ان کی زندگی کا سب سے بڑی فلم تھی.
اگلے سال فلم کے موسیقار غلام محمد انتقال کر گئے۔ فلم کا بیک گراونڈ میوزک مکمل نہیں تھا۔ صرف چلتے چلتے، تھاڑے رہیو اور موسم ہے عشقانہ ہی مکمل ہوسکے تھے۔ بد قسمتی کی ایک اور کترن ۔
کمال صاحب کو لوگوں نے مشورہ دیا کہ فلم کا میوزک تبدیل کر دیں اب زمانہ بدل چکا ہے یہ پچاس کی دہائی نہیں۔ لیکن انہوں نے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ یہ غلام محمد کی روح کے ساتھ دھوکہ ہوگا وہ زندہ ہوتے تو سوچا جا سکتا تھا اب نہیں۔ بعد میں نوشاد صاحب نے اس کا بیڑا ٹھایا
اور فلم کا بیک گراونڈ اور گانے مکمل کئے۔

اسی دوران فلم کے کوریوگرافر لچھو مہاراج بھی پاکیزہ کا خواب دل میں لئے انتقال کرگئے۔

1969 میں مینا کماری اپنی بیماری سے اٹھ سکیں۔ مگر بیماری حسن جوانی اور ہمت دونوں کو کھا چکا تھا۔ اور دونوں کا تاج محل ادھورہ تھا۔
اگست 1968 میں کمال نے مینا کماری کو خط لکھا:

ہمارے درمیان صرف پاکیزہ ہے جسکا فیصلہ ہونا باقی ہے۔ تم نے ایک شرط رکھی ہے کہ جب تک میں تم کو طلاق نہیں دوں گا تم پاکیزہ مکمل نہیں کرو گی۔ میں اس گرہ کو بھی کھولنے کو تیار ہوں ... میں تم کو ازدواجی تعلقات سے آزاد کرووں گا۔
اس کے بعد تمھاری مرضی ہے چاہو تو پاکیزہ مکمل کر وا دو۔ اس کو مکمل دیکھنا میرے لئے سب سے زیادہ خوشی ہوگی۔ یہ میری درخواست ہے کہ پاکیزہ ، جس پر بہت سے لوگوں کی قسمت کا انحصار ہے اور جس پر بہت سے لوگوں کی نیک خواہشات ہیں ، اگر ممکن ہو تو اسے ادھورا نہ چھوڑا جائے۔
تمھارے پاس زندگی گزارنے کے بہت سے ذرائع ہیں۔تمھیں باکس آفس پر عروج حاصل ہے لیکن سب سے زیادہ پاکیزہ کو تمھاری کی ذاتی طور پر ضرورت ہے۔۔۔

1969 میں مینا کماری نے اسکا جواب ان الفاظ میں دیا:

پاکیزہ میں کام کے لئے میں ہمیشہ سے آمادہ ہوں۔ پاکیزہ میری بھی زندگی کا خواب ہے
اور اسے مکمل ہوتے دیکھنا میری بھی سب سے بڑی خوشی ہوگی۔ آپ نے مجھے یہ عزاز دیا کہ میں اس فلم میں کام کر کے آپ کے لئے میرے دل میں جو عزت ہے اس کا ثبوت دے سکوں۔ پاکیزہ میں کام کے لئے میں فقط نشانی کے طور پر ایک گنی میں کام کرنے کو تیار ہوں۔
ہندوستان ٹائمز کے مطابق سنیل دت اور نرگس نے ان کے درمیان ملاقات کروائی جو فقط آنسوں کی نظر ہوئی۔ کھانا کھایا گیا اور کمال صاحب نے یہ وعدہ کیا کہ بیماری کے باعث مینا جی کی جو جسمانی حالت ہو چکی تھی وہ فلم میں کسی طور ظاہر نہیں ہوگی اور ان کی شان و مان قائم رہے گی۔
آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی فلم کا آخری گانا " آج ہم اپنی دعاوں کا اثر" مینا جی کے ڈبل نے کیا تھا۔ سارے گانے میں ڈبل کے منہ پر نقاب تھا۔ اس ڈبل کو تیار بھی مینا جی نے خود کیا تھا
آخر کار اپنے پہلے خیال سے لے کر فلم مکمل ہونے کے 16 سال کے بعد 3 فروری 1972 کو اس فلم کا پریمیئر ہوا
یہ مینا کماری کی زندگی کا آخری پریمیئر تھا۔ 4 فروری کو پبلک کے لئے اس کی نمائش کی گئی اور ۳۱ مارچ کو میناکماری کا انتقال ہوگیا۔

ستر کے اوئل میں دوردرشن اینڈین نیشنل ٹی وی نے فلم دکھانے کا آغاز پاکیزہ سے ہی کیا۔ اس کو امرتسر اسٹیشن سے دیکھایا گیا
اور بوسٹر کا رخ لاہور کی طرف بھی رکھا گیا۔ کہنے والے کہتے ہیں اس روز لاہور کی سڑکوں پر ایک جم غفیر تھا جو فلم کو دیکھنے موجود تھا۔ ایک بڑی تعداد کراچی سے اس فلم کو دیکھنے لاہور آئی تھی۔ ظاہری بات ہے اس وقت ٹی وی ہر گھر میں تھا ہی کہاں۔
انڈین سینما میں پاکیزہ کا وہی مقام ہے جو کے آصف کی مغل ِ اعظم کو حاصل ہے۔

11 فروری 1993 کو کمال امروہوی بھی خالق ِ حقیقی سے جا ملے اور انکی وصعیت کے مطابق ان کو مینا کماری جی کے پہلو میں دفن کیا گیا۔
@threadreaderapp
Please compile

• • •

Missing some Tweet in this thread? You can try to force a refresh
 

Keep Current with Kashif Chaudhary

Kashif Chaudhary Profile picture

Stay in touch and get notified when new unrolls are available from this author!

Read all threads

This Thread may be Removed Anytime!

PDF

Twitter may remove this content at anytime! Save it as PDF for later use!

Try unrolling a thread yourself!

how to unroll video
  1. Follow @ThreadReaderApp to mention us!

  2. From a Twitter thread mention us with a keyword "unroll"
@threadreaderapp unroll

Practice here first or read more on our help page!

More from @kashifch

18 Jun
طبقاتی مسابقت میں یقیناً کچھ پیچھے رہ جایئں گے کچھ آگے نکل جایئں گے لیکن اگر پیچھے رہ جانے والوں کو انسان ہی نہ سمجھا جائے تو معاشرہ کسی قبرستان کی صورت اختیار کر جاتا ہے۔ اسی موضوع پر ایک ماخوذ کوشش آپ کے مطالعے کی طلبگار۔

کچی پکی قبریں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۱
انسان کو اپنی جنم بھومی سے پیار ہوتا ہے وہ جگہ جائے اماں لگتی ہے پھر چاہے وہ قبرستان ہی کیوں نہ ہو۔ یہ ایک فطری عمل ہے۔

اس لئے قبرستان میں اکیلے اپنی آبائی جھونپڑی میں رہتے اسےکبھی ڈر نہیں لگا۔ اس کا بچپن یہی گزرا۔ کھیلنے کودنے کو اکثر وہ چھوٹی چھوٹی قبریں بنا کر گڈے گڑیا
۲
کو کفنایا دفنایا کرتا ڈر تب نہیں لگا تو اب کیا لگتا۔

اس کے لئے قبرستان کھنی چھاوں اور ٹھنڈے پانی کے کنواں سے آراستہ کسی جنت کے ٹکڑے سے کم نہ تھا۔ ہر طرف شیشم اور کیکر کے درخت تھے جن کی چھال حقے کی چلم تازہ کر دیتی۔ قبروں کے درمیان جا بجا بوٹی اگتی تھی جس کو پی کر اسے

۳
Read 25 tweets
15 Jun
ابنِ انشاء۔۔۔۔۔

اگرچہ آج ابنِ انشاء کی سالگرہ ہے مگر میں آپ سے اپنی پسندیدہ انکی ایک نظم پیش کرنا چاہوں گا جو کہ انکی موت سے متعلق ہے۔ اس کے لئے معذرت۔

اب عمر کی نقدی ختم ہوئی۔۔۔۔۔

نظم سنانے سے پہلے اس سے جڑا ایک واقعہ بزبانِ جمیل الدین عالی اور یہی واقعہ اس نظم کی بنیاد ہے
انشاء جی کے آخری ایام میں کینسر کے مرض کے سلسلے میں ان کے ساتھ راولپنڈی کے سی۔ایم۔ایچ گیا تو انہیں وہاں داخل کر لیا گیا اور ٹیسٹوں کے بعد ہمیں بتایا گیا کہ کینسر پھیل گیا ہے اور تھوڑے دن کی بات ہی رہ گئی ہے

شام کے وقت ہم دونوں ہسپتال کے اپنے کمرے میں باتیں کر رہے تھے
کہ کمرے کے دروازے پر دستک ہوئی۔ میں نے دروازہ کھولا تو میرے سامنے ایک بہت خوبصورت تیس سالہ عورت ہاتھوں میں پھولوں کا گلدستہ لئے کھڑی مُسکرا رہی تھی۔ میں اُسے کمرے میں لے آیا۔

محترمہ نے گلدستہ انشاء جی کے ہاتھ میں دیا اور رونا شروع کر دیا اور کہا کہ انشاء جی میں آپ کی فین ہوں
Read 16 tweets
20 May
نظر کا دھوکہ

جیسے جیسے میلے کا دن قریب آ رہا تھا اس کا دل ڈوبتا جا رہا تھا۔ کبھی بکری، کبھی کتا ، کبھی سانپ ، آدھی لڑکی آدھا جانور۔۔۔ وہ یہ سب بن بن کر وہ آدھی لڑکی بھی کہا ں رہی تھی۔ گھنٹوں ایک ہی جگہ اکڑوں بیٹھے رہنا قبر میں زندہ لیٹے رہنے سے کم تکلیف دہ نہیں ہوتا۔
1
بچے اسے دیکھ کر خوش ہوتے۔ مگر وہاں صرف بچے تو نہیں ہوتے ہیں۔ جوان اوباش لڑکے بڑی عمر کے ہوس زدہ بھوکے مرد بھی ہوتے ہیں۔ لڑکے آوازیں کستے اشارے کرتے مرد للچائی نظروں سے دیکھتے رہتے ہیں۔ میلے میں اور بھی کئی کھیل تماشے ہوتے ہیں۔ یہ سب مرد وہاں بھی جاتے ہیں
2
مگر وہاں حرکت تو ہے۔ کم از کم انسان ہل تو سکتا ہے کسی سے بات تو کر سکتا ہے مسکرا تو سکتا ہے محض قبر میں بیٹھےیہ سب عذاب تو نہیں سہنا پڑتا۔ گھنٹوں بیٹھے رہنے کی ذہنی اذیت سے بچنے کے لئے وہ کبھی کبھی ارد گرد سے لا تعلق ہو کر جاگتے جاگتےسپنے دیکھنے لگ جاتی۔
3
Read 25 tweets
8 May
لاہور کے میوزک سینٹر: بکھری سنہری ، مد بھری یادیں

میں اس نسل سے ہوں جو ستر کی دہائی میں پیدا ہوئی جس نے زمانے کے بہت سے اتار چڑھاو بہت ہی کم عرصے میں دیکھے ۔ جس نےاپنے بہت سے دل و جاں سے جمع شدہ اثاثے کاڑ کباڑ بنتے دیکھے ہیں۔ انہیں میں ایک اثاثہ میوزک کیسٹس کاتھا۔
کیسٹس دو طرح کی ہوا کرتی تھیں۔ عمومی طور پر بہت سے کمپنیاں تھیں جو کیسٹس ریلیز کرتیں۔ 20 روپے کی پری ریکاڈیڈ کیسٹ مل جاتی تھی۔ سونک ، ایگل ، ہیرا اور ایسی کئی میوزک کمپنیاں بینکا گیت مالا، جھنکار والیم اور ایسے لا تعداد نمبر انڈین اور پاکستانی فلموں کے ریلیز ہوتے۔
شالیمار EMI, MHV اور لوک ورثا غزل گائیگی اور کلاسیکل میوزک کے لئے مشہور تھے۔

لیکن صاحب ذوق حضرات پری ریکارڈیڈ کی بجائے اپنی کلیکشن خود تیار کرواتے یا ان میوزک سینٹرز کا رخ کرتے جن کا میں ذکر کرنا چاہ رہا ہوں۔ یقیناً آپ میں سے بہت سے حضرات کے لیے یہ تھریڈ یادوں کو تازہ کر دے گا
Read 14 tweets
10 Apr
سینگ اور سرگم

عجیب وغریب بچے پیدا ہونا کوئی انوکھی بات نہیں تھی۔ مگر ریاست کے کسی دور دراز مقام پر بغیر کانوں کے ایک بچے کی پیدائش پر بادشاہ کا پریشان ہونا نہ قابلِ فہم بات تھی۔

اگلے ہی روز وزیر نے ایک اور ایسے ہی بغیر کانوں کے بچے کی پیدائش کی اطلاع دی تو بادشاہ ٹھٹھکا۔
1
کیا یہ محض اتفاق تھا؟
بادشاہ کو کسی غریب کے گھر ایسے بچے کی پیدائش سے کیا لینا مگر پریشانی یہ تھی کہ مدتوں اور بہت سی دعاوں منتوں کے بعد ملکہ کی گود ہری ہوئی تھی اور بادشاہ کو ولی عہد ملنے والا تھا۔ اگر وہ بھی ایسا ہی پیدا ہوا تو۔۔۔ پھر؟ بادشاہ کو سوچ کر جھرجھری آگئی۔
2
پھر ایسی خبریں روز کا معمول بننا شروع ہوگئی تو بادشا ہ نے اجلاس طلب کر لیا۔ کوئی وزیر مشیر پیر فقیر ان واقعات کا تسلی بخش جواب نہ دے سکا۔ شاہی طبیب نے ملکہ کے لئے کچھ ادویات اور پرہیز بتائے مگر وجہ بتانے سے وہ بھی قاصر رہا۔ بادشاہ کا آرام و سکون غارت ہو گیا۔
3
Read 20 tweets
27 Mar
اگر آپ ایک حساس دل و روح کے مالک ہیں تو یہ کہانی آپ کو جھنجھوڑ کر رکھ دے گی منشا یاد کا ایک شاہکار۔۔۔آپ کے لئے اختصار کے ساتھ۔

راستے بند ہیں!

مجھے سمجھ نہیں آتی وہ میلے پر لینے کیا آ یا جب اسکی جیب میں ایک پھوٹی کوڑی نہیں ہے۔
اس سے سوال پوچھوں تو وہ عجیب سا جواب دیتا ہے
1
"میں میلے میں نہیں آیا۔۔ میلہ خود میرے چاروں طرف لگ گیا ہے۔ اور میں اس میں کھو گیا ہوں واپسی کا راستہ ڈھونڈوں تو بھی نہیں ملتا"

مجھے اس کی بات پر یقین ہے۔ ویسے بھی میں اس کی نگہداشت پرمعمور ہوں اس کی حفاظت میرا ذمہ ہے۔ مجھے یہ بھی معلوم نہیں اس کی حفاظت پر کس نے معمور کیا ہے
2
بس مجھے اس کے ساتھ رہنا ہے اور بھٹکنے سے بچانا ہے۔

وہ انتہائی ندیدہ آدمی ہے۔کسی کھانے کی دکان پراس کے قدم زمین میں گڑھ جاتے ہیں۔ گھنٹوں کھڑا رہے گا۔ صبح پوڑیوں والے کی کڑاہی کے سر پر کتنی دیر کھڑا جھلستا رہا ۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ جیب میں کچھ نہیں ہے
3
Read 16 tweets

Did Thread Reader help you today?

Support us! We are indie developers!


This site is made by just two indie developers on a laptop doing marketing, support and development! Read more about the story.

Become a Premium Member ($3/month or $30/year) and get exclusive features!

Become Premium

Too expensive? Make a small donation by buying us coffee ($5) or help with server cost ($10)

Donate via Paypal Become our Patreon

Thank you for your support!

Follow Us on Twitter!

:(