#ਪੰਜਾਬ #Shekhupura #Heritage #Fort #architecture
قلعہ شیخوپورہ (1607)
مغل بادشاہ جہانگیر کاشاہکار
بادشاہ جہانگیر کےنام (شیخو) پر ہی آباد شہر شیخوپورہ میں 68 کنال پرمشتمل یہ وہی قلعہ ھے جہاں رنجیت سنگھ کی بیوہ اور دلیپ سنگھ کی ماتا سکھ مہارانی جند کور (جنداں) کو برطانوی راج نے قید
کیا تھا۔
جہانگیری عہد میں تعمیر کیا گیا یہ قلعہ شیخوپورہ تاریخ میں ایک منفرد مقام رکھتا ھے۔ جہانگیر کی آب بیتی "توزک جہانگیر" کافی تفصیل سے اس قلعے کا حال بتاتی ھے۔
سکھ عہد میں قلعے کیساتھ متعدد عمارتیں تعمیر کرکے اسےیکسر تبدیل کر دیا گیا۔
1808میں قلعے کورنجیت سنگھ نے اپنے 6 سالہ
بیٹے کھڑک سنگھ کیساتھ فتح کیا اور یوں یہ قلعہ "رنجیت جاگیر" کا حصہ بن گیا۔
1811 میں یہ قلعہ رنجیت سنگھ کی بیوی مہارانی داتا کور اور اس کے بیٹے کھڑک سنگھ کو نواز دیا گیا جہاں وہ اپنی زندگی کے آخری ایام تک رہیں۔
اور تاریخ کے قارئین کے علم میں ھو گا کہ انیسویں صدی میں عہد فرنگی میں
مہارانی جند کور کیلئے یہ قلعہ "عقوبت خانہ" کے طور پر استعمال ھوا۔
یہ قلعہ سب سے زیادہ رنجیت سنگھ کے شاہی معاملات اور سٹاف کیلئے استعمال ھوا۔
غور طلب پہلو صرف یہ ھے کہ یہ قلعہ جہانگیر یا رنجیت سنگھ کا نہیں بلکہ شیخوپورہ کی زمین پر کھڑا ھے اس لیے شیخوپورہ اس کا امین ھے۔
ہرن مینار
(شیخوپورہ) وزٹ کرنے والوں کا "قلعہ شیخوپورہ" دیکھے بغیر پلٹ آنا یقیناً نامکمل سیاحت اور نامکمل تاریخ ھو گی۔
آج اگرچہ یہ خستہ حال ھے لیکن یہ ایک عہد، عہد رفتہ کی طرزِ تعمیر اور تاریخ کو اپنے اندر مکمل سمیٹے ھوئے ھے۔
#Temple #Kashmir
مرتند سورج مندر (اننت ناگ، سرینگر کشمیر)
Martand Sun Temple (Anantnag, Kashmir)___8th AD
اننت ناگ (بھارتی کشمیر) میں واقع مرتند سورج مندر جو آٹھویں صدی کی سناتنی تہذیب (Sanatani Civilization) کاگڑھ تھا، کو وادئ کشمیرکی ٹاپ پر تعمیر کیاگیا جوکلاسک کشمیری طرزِتعمیر
کا نمونہ تھا۔
سورج مندر کی وجہ شہرت اس کا گندھارا، گپت اور چینی طرزتعمیر کا کلاسک اورجاذب نظر امتزاج ھے۔
یہ ھندو مندر سوریادیو (Suryadev) کے نام سے منسوب تھاجسے "مرتند" کہا جاتا تھا۔ سناتنی تہذیب دراصل ایک ایساھندو عقیدہ (Hindi Cult)تھا جنکی تعلیمات (Teachings) خالصتاً بھگوت گیتا
رامائن، اپنشد، رگ وید سے مشروط تھیں گویا اس عقیدے کی بنیاد ہی قدیم مذہبی کتب کی تحریروں پرمشتمل تھی۔
سورج مندر کو 15ویں صدی میں اسلام کے نام پر ایک صوفی تبلیغ کار محمد حمدانی کے کہنےپر کشمیری سلطان اسکندرشاہ میر نے تباہ کر دیاتھا۔
باقی ماندہ مندر زلزلوں اوروقت کی دھول سےمتاثرھوا۔
#Sehwan #Saints #Sindh
لال شہباز قلندر ؒ (خراسان/سہون، سندھ)
Lal Shehbaz Qalander ؒ(Sehwan, Pakistan)
(1177 تا 1274ء)
شہغنشاہ قوال نصرت فتح علی خان کی مشہورِ زمانہ قوالی "جھولےجھولےلال" کاعنوان "لال شہباز قلندر ؒ " کاکوئی شمار نہیں۔
یوں سمجھ لیں کہ دریائےسندھ انکےحکم کامحتاج ھے۔
سہون کی پہچان لال شہباز قلندر ؒ کا اصل نام "سید عثمان" تھا.
آپ ؒ (موجودہ) خراسان میں پیداھوئے اور تقریبآ 650سال قبل سہون تشریف لائے۔
آپکی مخصوص پہچان (Signature) وہ "ڈھول" جواس وقت سےآج تک آپکے مزارپرگونج گونج کر زائرین کودھمال پرمجبور کیےھوئےھےدراصل 1242میں بادشاہ دہلی علاؤالدین
نے آپ کو تحفے میں پیش کیا تھا یہی ڈھول آپ کی عظمت کی پہچان بن گیا۔
چاندی کا بنا ھوا دروازہ سندھ کے مرحوم امیرکی عقیدت کا مظہرھے۔
کابل اور ھندوستان کےحکمران اکثر یہاں پر حاضری دیتے ہیں لال شہباز قلندرکی ان گنت کرامات مشہور ہیں۔
آپ کےاحترام میں ھندوبھی مسلمانوں کیساتھ شامل تھےاسلیے
#ancient #History
"ھندوستان" نام کا اصل
کیاھندوستان کا کبھی ایک نام رہا ھے؟
ایک پیچیدہ ترین سوال
دراصل اس خطےمیں کبھی کوئی قوم وارد ھوئی اورکبھی کوئی حملہ اسلیے ھندوستان مختلف ادوار اور زمانوں میں مختلف ناموں سے لکھا اور پکاراگیا۔
آج ھم جس ھندوستان میں رھتےہیں کبھی اسے"جمبودیپ"
کہا جاتا تھا جو پورے ھندوستان کیلئے استعمال ھوتا تھا اور اشوک کے کتبوں اور ھندوؤں کی مقدس پرانوں میں بھی یہی لفظ استعمال ھوا ھے۔
آریاؤں نےاسے دریائے سندھ کی مناسبت سے "سندھ" کہا۔
ایرانیوں نےجب یہاں اپنا قبضہ جمایا "سندھ" یا "سندھو" کو "ھند" کر دیا۔
جب یونانی حملہ آورھوئے تو ان کے
ہاں "انڈوز" "انڈیکا" اور "انڈیا" ھو گیا۔
آریاؤں نے جب وادی گنگا وجمنا ہجرت کی تو اسے "آریہ ورت" پکارا یعنی "آریاؤں کےرھنے کی جگہ۔ مگر یہ نام سارے ھندوستان کیلئے ہرگز نہ تھا۔
بہت سےقدیم تاریخی ماخذات میں آپ کو یہ بھی ملےگا کہ کوہ ہمالیہ سے ونڈیا ل تک کےعلاقے کو "آریہ ورت" سے پکارا
#architecture #Peru
Rock-Cut Art
Dwelling of gods (Peru)
"دیوتاؤں کا گھر" (پیرو)
نہ فیک، نہ فوٹو شاپ، نہ ایڈیٹنگ
لیکن ناقابل یقین ضرور
کیونکہ انسانی ہاتھ سےبنا یہ چٹانی طرزِ تعمیر (Rock-Cut Architecture) دیکھ کرسب سےپہلے یہی ذہن میں آتاھے۔
جنوبی امریکی ملک پیرو کےشہر کسکو (Cusco)
جوہمیں حیران کرنےسےبازنہیں آتاکیونکہ نئے کھدائی شدہ کھنڈرات، دریافتوں کی وجہ سےیہ شہر کبھی بھی ساکن نہیں رہا!
پیروجو پہلےہی عالمی آرکیالوجیکل سائیٹ Macchu Pichchu کیوجہ سےحیران کن تصورکیاجاتاھے۔ اسی پیروکی اپوکوناق ٹیانن چٹان (Apukunaq Tianan Mountain) جسکامقامی زبان (quenchecqu)
میں مطلب "دیوتاؤں کا گھر" ھے، پر بنائے گئے قدیم Inca gods Andean کے یہ مجسمے 15 سے 17 میٹر بلند ہیں۔ چٹان سطح سمندر سے 3850 میٹر بلند ھے۔
نہایت باریک، نفیس اور حیران کر دینے والا اور زندگی کا عکاس یہ آرٹ سوچنے پر اکساتا ضرورھے کہ یہ بہترین امتزاج یاہر چیز اپنی صحیح جگہ پرکیسے ھے؟
#Temple #architecture
رانا محل گھاٹ (دریائے گنگا کنارے، وارانسی، بھارت)
Rana Mahal Ghat, Varanasi (Uttar Pradesh, India)
1670ء میں اودے پور کے مہاراجہ کا تعمیرکردہ مقدس دریائےگنگا کنارے یہ شاہکارھندوستان کےمقدس ترین مقامات میں سے ایک ھےاوراپنی حسین لوکیشن کی بدولت توجہ کھینچتاھے۔
خیال کیاجاتاھے کہ یہ بھگوان شیو کا گھر تھا۔
زیادہ تر گھاٹ غسل اور پوجاکی تقریب کے گھاٹ ہیں جبکہ کچھ کوخصوصی طور پر شمشان گھاٹ کےطور پر استعمال کیا جاتا ھے۔
وارانسی کےزیادہ تر گھاٹ 1700عیسوی کے بعد بنائےگئےتھے، جب یہ شہر مراٹھا سلطنت کاحصہ تھا۔ موجودہ گھاٹوں کےسرپرست 'مراٹھے' ہیں۔
رانا محل دراصل آرائشی اور سجاوٹی راجپوت فن تعمیر کے دلدادہ رانا جگیت سنگھ کی اودے پور کے عظیم وژن اور دور اندیشی کی یاد دہانی ھے۔
تقریباً 86 گھاٹ بنارس میں دریا گنگا کے کنارے کو گھیرے ھوئے ہیں لیکن رانا محل کی شاندار فن تعمیر اسے دوسروں سے الگ اور ممتاز کرتی ھے۔
آج جہاں کبھی محل
#Gujranwala #History
گوجرانوالہ (پاکستان)___تاریخ سے چند اوراق
وجہ تسمیہ اور تاریخی پس منظر
گوجرانوالہ__تقسیمِ ھند سے پہلے بھی وجہ شہرت "پہلواناں دا شہر"
گوجرانوالہ__کی بنیاد گجروں نے رکھی تھی اور امرتسر کے سانسی جاٹوں نے اسکا نام خانپور رکھاجو وہاں آباد ھوئے تاہم اس کا پرانا نام
باقی رہا۔
گوجرانوالہ__کا 630ء میں چینی بدھ مت یاتری Hsuan Tsang نے موجودہ گوجرانوالہ کے قریب Tse-kia کے نام سے مشہور دیہات کا دورہ کیا.
گوجرانوالہ__7ویں صدی کے آغاز سے راجپوت سلطنتوں کا پاکستان کے ان مشرقی حصوں اور شمالی ہندوستان پر غلبہ ھو گیا۔
گوجرانوالہ__997ء میں، سلطان محمود
غزنوی نے قبضہ کیا تو ان میں اپنے والد، سلطان سبکتگین کی قائم کردہ غزنوی سلطنت پر قبضہ کیا جس میں 1005ء میں مغربی پنجاب کےکچھ علاقوں کی فتوحات بھی شامل تھیں۔
گوجرانوالہ__پنجاب کےمشرقی علاقےملتان سےراولپنڈی تک شمال میں (موجودہ گوجرانوالہ کے علاقے سمیت)1193 تک راجپوت حکمرانی کےماتحت