پاکستان کے سابق وزیراعظم نواز شریف کو اپوزیشن جماعتوں کی کل جماعتی کانفرنس میں خطاب کے بعد ایک بار پھر غداری کے الزامات کا سامنا ہے۔
صرف نواز شریف ہی نہیں بلکہ ان کی صاحبزادی مریم نواز کے بارے میں بھی حکومتی ترجمان
👇
شہباز گل انڈین شہریوں سے ملاقاتوں کے جھوٹے الزامات عائد کر رہے ہیں۔
اور اپوزیشن کی حکومت مخالف تحریک کو انڈین ایجنڈا قرار دیا جا رہا ہے۔
یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ پاکستان میں کسی سیاسی رہنما کو غدار قرار دیا گیا ہو۔
👇
پاکستان میں اپوزیشن کے ہر فرد کو غدار قرار دیا جا چکا ہے ’ہمارے ہاں انڈیا سے جنگ کی مخالفت کرنے والوں کو بھی غدار سمجھا جاتا ہے۔ انڈیا کے حوالے سے ہمارے ہاں ایک مخصوص سوچ ہے۔ سنہ 47 سے ’کرش انڈیا‘ کے سٹکرز گاڑیوں پر چسپاں کرکے اس سوچ کا اظہار کیا گیا۔‘
👇
تاریخ بتاتی ہے کہ پاکستان میں اپنے کسی بھی سیاسی حریف کو غدار قرار دینے کا سلسلہ ملک کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان نے حسین شہید سہروردی کو قرار دے کر شروع کیا تھا۔
اس کے بعد ایوب دور میں قائداعظم کی ہمشیرہ اور صدارتی امیدوار
👇👇
فاطمہ جناح کو غدار قرار دیا گیا۔
خدائی خدمت گار تحریک کے خان عبدالغفار خان کو بھی غدار کہا گیا۔ بھٹو دور میں نیشنل عوامی پارٹی اور اس کے رہنماؤں پر غداری کے مقدمات قائم ہوئے۔ پھر اسی ذوالفقار بھٹو کو ملک دو لخت کرنے کے الزامات کا سامنا کرنا پڑا اور پیپلز
👇
پارٹی تمام تر کوششوں کے باوجود ’ادھر تم اور ادھر ہم‘ کے مبینہ بیان جیسے دھبے کو مٹا نہیں سکی۔ جام صادق اور غلام مصطفیٰ کھر پر بھی غداری کے الزامات لگے اور انھیں انڈین ایجنٹ قرار دیا گیا۔ عبد الصمد خان اچکزئی، عطاءاللہ خان مینگل، غوث بخش بزنجو، خیر بخش مری
👇
بھی غداری کا سرٹیفیکیٹ حاصل کرنے والوں میں شامل ہیں۔ ضیا دور میں ایم آر ڈی کے کئی راہنماؤں کو بھی غداری کے الزامات کا سامنا کرنا پڑا۔عموماً غداری کے ان الزامات کا مقصد ناپسند سیاست دانوں کو عوام میں بدنام کرنا ہوتا ہے۔ ماضی میں بنگال، سندھ اور بلوچستان کے
👇👇
رہنماؤں کو غدار کہا جاتا تھا تاکہ ملک کی بڑی آبادی یعنی پنجاب میں ان کو بدنام کیا جائے۔‘
مکافات عمل کہیے یا سیاسی مجبوریاں کہ نواز شریف نے بے نظیر بھٹو کو سیکیورٹی رسک قرار دیا تو بلاول بھٹو زرداری نے انھیں مودی کا یار‘ قرار دے کر بدلہ لے لیا تاہم کچھ
👇
ہی دنوں بعد وہ اپنے اس بیان سے یہ کہہ کر مکر گئے کہ ’میں منتخب وزیر اعظم کو غدار نہیں کہہ سکتا۔‘
ڈان لیکس میں نواز شریف اور ان کی صاحبزادی مریم نواز کو غدار قرار دے کر سوشل میڈیا پر ان کے خلاف بھرپور مہم چلی۔ نواز شریف کی انڈین بزنس مین سجن جندال سے مری
👇
میں ہونے والی ملاقات کو بنیاد بنا کر بھی ان کو سیکیورٹی رسک قرار دیا جاتا رہا ہے بلکہ ان کی بحیثیت وزیر اعظم انڈین قیادت سے ہونے والی ملاقاتوں کو بھی شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا رہا ہے۔ ’پنجاب بالخصوص وسطی پنجاب میں اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے غدار قرار دیئے گئے
👇👇
افرادکو غدار کے طور پرقبول کر لیا جاتا ہے اب پہلی بار ہے کہ اسی پنجاب کے لوگوں کو غدار قراردیاجارہاہے اسی وجہ سے اس الزام کوعوامی مقبولیت حاصل ہونےمیں مشکل ہو رہی ہے صرف سیاست دان ہی نہیں پاکستان میں شاعروں اور ادیبوں کو بھی غداری کے فتووں کا سامنا رہا ہے
👇
فیض احمد فیض، جالب اور احمد فراز بھی ’غداروں‘ کی فہرست میں شامل رہے ہیں۔
سینیئر صحافی ضیا الدین کا کہنا ہے کہ ’آج تک جس پر اس طرح سے غداری کا الزام لگا ہے عدالتوں میں یا تو اسے کبھی لے جایا ہی نہیں گیا یا پھر کبھی ثابت نہیں کیا جا سکا تاہم جس پر الزام لگا
👇
اس کو کسی نہ کسی طریقے سے سزا ضرور دی گئی۔ شیخ مجیب پر الزام لگا تو بنگلہ دیش بنا دیا، بھٹو کو قتل کے مقدمے میں پھانسی لگوا دی گئی۔ ولی خان اور ایم آر ڈی کے لوگوں کو جیلوں میں بھیج دیا گیا لیکن ان پر مقدمات ثابت نہیں کیا جا سکے۔
👇👇
’جن پر الزام لگتا ہے اگر وہ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ الزام غلط ہے تو انھیں ہتک عزت کا دعویٰ کرنا چاہیے۔ اگر وہ کیس دائر نہیں کرتے تو یہ الزام قبول کرنے کے مترادف ہے۔‘
( لیکن کیا ان عدالتوں سے انصاف کی توقع رکھی جا سکتی ھے )
👇👇
اقدام قتل، ناجائز اسلحے، کار ، پولیس سے جھگڑوں سمیت دیگر مقدمات میں ملوث ایک کریمنل ریکارڈ ہولڈر نے دو روز قبل لاہور میں پاکستان کی سیاسی اور قانونی تاریخ کا سیاہ ترین باب رقم کیا جب اس نے دو سابق وزرائے اعظم کے ساتھ ساتھ
چار سابق گورنروں، تین سابق جرنیلوں، بارہ خواتین اور آزاد کشمیر کے موجودہ وزیراعظم سمیت پینتالیس افراد کے خلاف بغاوت اور غداری کا مقدمہ اتنی آسانی سے درج کروا دیا کہ لاہور میں جتنی آسانی سے چوری چکاری کا پرچہ بھی درج نہیں ہوتا
نام اس شخص کا بدر رشید بتلایا جا رہا ہے جوتھانہ شاہدرہ کے علاقے سہراب فیکٹری، خورشید پارک کا رہائشی بیان کیا جاتا ہے۔
دلچسپ امر یہ ہے کہ قانون کے مطابق کسی بھی شخص پر بغاوت یا غداری کا مقدمہ درج
کرنے کے لئے قانون کے مطابق حکومت کا فریق بننا اور اس
نوازشریف نے کہا میں اور بھی بہت کچھ کہہ سکتاہوں کہ مجھے مقدمات میں کیوں الجھایا گیالیکن قوم وملک کامفادمجھے اس سے زیادہ کچھ کہنے کی اجازت نہیں دےرہا آپ اگر پاکستان کی تاریخ سےواقف ہیں تو آپ کو بخوبی علم ہوگا کہ ایسے مقدمات کیوں بنتے ہیں؟کن لوگوں پر بنتے ہیں؟اور
ان لوگوں کا اصل گنا کیا ہوتا ہے ان کا اصل گناہ صرف ایک ہی ہوتا ہے کہ پاکستان کے عوام کی بھاری اکثریت انہیں چاہتی ہے ان پر اعتماد کرتی ہے انہیں قیادت پر بٹھاتی ہے وہ عوام کی نمائندگی کرتے ہیں وہ آئین اور قانون کے تحت عوام کی حاکمیت قائم کرنا چاہتے ہیں وہ ملکی
پالیساں اپنے ہاتھ میں رکھنا چاہتے ہیں میں بھی اسی راستے کا ایک مسافر ہوں میں بھی چاہتا ہوں کہ عوام کی مرضی کا احترام کیا جائے ان کے ووٹ کی عزت کی جائے ان کی مرضی پر اپنی مرضی مسلط نہ کی جائے آئین کا احترام کیا جائے تمام ادارے اپنی طے کردہ حدود میں رہیں
میاں محمد نواز شریف نے کہا یہ بات بھی ریکارڈ پر ھے کہ میں نے یہ بھی ہدایت کی سارا کام کم سے کم درکار وقت یعنی سترہ دن کے اندر اندر مکمل کرلیا جائے۔ مجھے عالمی طاقتوں کی طرف سے نصف درجن فون آئے۔ 5ارب ڈالر کالالچ دیا گیا۔
لیکن میں بھارت کے مقابلے میں پاکستان کو سربلند دیکھنا چاہتا تھا۔ میں نے وہی کیا جو پاکستان کے مفاد میں تھا۔ مجھے پاکستان کی سربلندی ، پاکستان کا وقار، پاکستان کا افتخار اور پاکستان کی عزت و عظمت ، اربوں کھربوں ڈالر سے زیادہ عزیز تھی۔
آئین شکنی کرنے اوراپنا مقدس حلف توڑ کر قتدار پر قبضہ کرنے والے ڈکٹیٹر کا محاسبہ کرنا آئین اور جمہوریت ہی کا نہیں خود فوج کے وقار و تقدس کا بھی تقاضا ہے۔
نواز شریف نے کہا کہ میں اس فورم پر اس کھلی عدالت کے سامنے پوری تفصیل بتانے سے قاصر ہوں کہ مشرف پر مقدمہ قائم کرنے اور اس کارروائی کو آگے بڑھانے پر قائم رہنے کی وجہ سے مجھے کس کس طرح کے دباﺅ کا نشانہ بننا پڑا۔
مسلم لیگ (ن) کے قائد سابق وزیراعظم نواز شریف نے کہا ہے کہ سابق آمر پرویز مشرف کیخلاف غداری کا مقدمہ بنانے پر وزارت عظمیٰ اور پارٹی صدارت سے ہٹا کر میرے خلاف جھوٹے‘ بے بنیاد اور من گھڑت کیس بنا دیئے گئے ہیں
سابق صدر آصف علی زرداری نے مجھے پرویز مشرف کے2007ءکے غیر آئینی اقدامات کی پارلیمنٹ کے ذریعے توثیق کرنے اور مصلحت سے کام لینے کا مشورہ دیا لیکن میں نے انکار کردیا‘
سابق فوجی آمر جنرل (ر) پرویز مشرف کے خلاف فیصلے کی شکل میں پاکستان کی عدالتوں نے ملک کی تاریخ میں پہلی مرتبہ کسی فرد کو آئین شکنی اور سنگین غداری کا مجرم قرار دیا ہے۔
خصوصی عدالت کے فیصلے میں کہا گیا ہے کہ جنرل (ر) پرویز مشرف کے خلاف آئین شکنی کا مقدمہ ثابت ہوتا ہے اور آئین کے آرٹیکل چھ کے تحت انھیں سزائے موت سنائی جاتی ہے۔
یہ دیکھنا ضروری ہے کہ آئینِ پاکستان کی نظر میں غداری کیا ہے اور غدار کون ہوتا ہے غداری کا تعین کرنے اور غدار کے خلاف کارروائی کا آغاز کرنے کا حق آئین کس کو دیتا ہے؟ پھر یہ کارروائی کیسے ہوتی ہے؟ پاکستان میں اس کی مثالیں موجود ہیں۔