1996 کوئٹہ میں 4 ایکڑ زمین لی ، کاغذات تیار کروائے جب گھر بنانے کی پلاننگ کی تو آرمی کیطرف سے روک دیا گیا اور میری اپنی زمیں پر مجھے داخل ہونے سے منع کر دیا گیا ،
👇👇
اب اسی زمیں پر ڈی ایچ ایے بن رہا ہے ، جنرل عاصم سلیم باجوہ میرے دوست بھی ہیں میں نے انہیں کبھی فون نہیں کیا ، شاید میرے خاندان والوں نے تربیت ہی ایسی کی تھی کہ دوست اگر طاقت میں ہو تو اسے فون نہ کرو ،
👇👇
انہوں نے مجھے جواب دیا ، " گھر بیٹھ کر تو آپکو کوئی پیسے نہیں دے گا ، مجھے اپنے کاغذات بھجوائیں میں ڈی ایچ اے والوں کو فون کروں گا تو وہ آپکو پیسے دے دیں گے"۔۔۔۔۔۔
👇👇
جنرل صاحب کا بہت شکریہ کہ انہوں نے تعاون کی یقیں دہانی کروائی لیکن میں نے دل میں سوچا کہ اگر گھر بیٹھ کر میری زمین پر قبضہ کر سکتے ہیں تو گھر بیٹھے پیسے بھی دے دینے چاہئیں ۔۔۔۔۔۔۔۔
👇👇
جب میں سول سروسز میں تھا تو میرے کورس میٹ کے والد بریگیڈئیر تھے ، شہر کے بیچ کنٹونمنٹ میں انکا گھر تھا ، انکے گھر کے سامنے ایک پلازہ تعمیر کیا جا رہا تھا ،
👇👇
دنیا کے کسی بھی ملک میں افسر شہر کے بیچ و بیچ نہیں رہتے کیونکہ پلازہ کی اونچی عمارت سیکورٹی رسک نہیں بلکہ آپ اردگرد رہنے والے کئی سویلینز کے لیے سیکورٹی رسک ہیں، آپ کو رہنا ہے تو کہیں بارڈر کے پاس یا سویلین آبادی سے دور بسیرا کریں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
👇👇
تو کرنل صاحب کافی عرصے سے بضد تھے کہ ہوٹل کیلیے دودھ انکے فارم سے لیا جائے ، میں نے وہ دودھ try بھی کیا ، لیکن اس دودھ کی چائے کا وہ ذائقہ نہیں جسکے گاہک شوقین ہیں ،
👇👇
تو میں نے کرنل صاحب سے معذرت کی کہ میں جہاں سے دودھ لیتا ہوں وہیں سے continue کروں گا ، اسی بات پہ تنازعہ بڑھتا چلا گیا اور آج یہ صورت آن بنی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
👇👇
میں اکثر ایسے فوج کے افسروں کو بھی جانتا ہوں جو down to earth ہیں ، میری اسٹیبلشمنٹ سے مراد وہ طبقہ ہے جو عدالتوں کے فیصلوں کو ایک کاغذ کا ٹکڑا تصور کرتے ہیں ،
👇👇
جو حوالدار بارڈر پر شہید ہوتا ہے اسے سلام ، لیکن اس حوالدار کی قربانی کو ، کسی مخصوص طبقے کا پیٹ بھرنے کی میں
قطعی اجازت نہیں دے سکتا ۔۔۔۔۔۔۔
( عاشر عظیم )
• • •
Missing some Tweet in this thread? You can try to
force a refresh
اقدام قتل، ناجائز اسلحے، کار ، پولیس سے جھگڑوں سمیت دیگر مقدمات میں ملوث ایک کریمنل ریکارڈ ہولڈر نے دو روز قبل لاہور میں پاکستان کی سیاسی اور قانونی تاریخ کا سیاہ ترین باب رقم کیا جب اس نے دو سابق وزرائے اعظم کے ساتھ ساتھ
چار سابق گورنروں، تین سابق جرنیلوں، بارہ خواتین اور آزاد کشمیر کے موجودہ وزیراعظم سمیت پینتالیس افراد کے خلاف بغاوت اور غداری کا مقدمہ اتنی آسانی سے درج کروا دیا کہ لاہور میں جتنی آسانی سے چوری چکاری کا پرچہ بھی درج نہیں ہوتا
نام اس شخص کا بدر رشید بتلایا جا رہا ہے جوتھانہ شاہدرہ کے علاقے سہراب فیکٹری، خورشید پارک کا رہائشی بیان کیا جاتا ہے۔
دلچسپ امر یہ ہے کہ قانون کے مطابق کسی بھی شخص پر بغاوت یا غداری کا مقدمہ درج
کرنے کے لئے قانون کے مطابق حکومت کا فریق بننا اور اس
نوازشریف نے کہا میں اور بھی بہت کچھ کہہ سکتاہوں کہ مجھے مقدمات میں کیوں الجھایا گیالیکن قوم وملک کامفادمجھے اس سے زیادہ کچھ کہنے کی اجازت نہیں دےرہا آپ اگر پاکستان کی تاریخ سےواقف ہیں تو آپ کو بخوبی علم ہوگا کہ ایسے مقدمات کیوں بنتے ہیں؟کن لوگوں پر بنتے ہیں؟اور
ان لوگوں کا اصل گنا کیا ہوتا ہے ان کا اصل گناہ صرف ایک ہی ہوتا ہے کہ پاکستان کے عوام کی بھاری اکثریت انہیں چاہتی ہے ان پر اعتماد کرتی ہے انہیں قیادت پر بٹھاتی ہے وہ عوام کی نمائندگی کرتے ہیں وہ آئین اور قانون کے تحت عوام کی حاکمیت قائم کرنا چاہتے ہیں وہ ملکی
پالیساں اپنے ہاتھ میں رکھنا چاہتے ہیں میں بھی اسی راستے کا ایک مسافر ہوں میں بھی چاہتا ہوں کہ عوام کی مرضی کا احترام کیا جائے ان کے ووٹ کی عزت کی جائے ان کی مرضی پر اپنی مرضی مسلط نہ کی جائے آئین کا احترام کیا جائے تمام ادارے اپنی طے کردہ حدود میں رہیں
میاں محمد نواز شریف نے کہا یہ بات بھی ریکارڈ پر ھے کہ میں نے یہ بھی ہدایت کی سارا کام کم سے کم درکار وقت یعنی سترہ دن کے اندر اندر مکمل کرلیا جائے۔ مجھے عالمی طاقتوں کی طرف سے نصف درجن فون آئے۔ 5ارب ڈالر کالالچ دیا گیا۔
لیکن میں بھارت کے مقابلے میں پاکستان کو سربلند دیکھنا چاہتا تھا۔ میں نے وہی کیا جو پاکستان کے مفاد میں تھا۔ مجھے پاکستان کی سربلندی ، پاکستان کا وقار، پاکستان کا افتخار اور پاکستان کی عزت و عظمت ، اربوں کھربوں ڈالر سے زیادہ عزیز تھی۔
آئین شکنی کرنے اوراپنا مقدس حلف توڑ کر قتدار پر قبضہ کرنے والے ڈکٹیٹر کا محاسبہ کرنا آئین اور جمہوریت ہی کا نہیں خود فوج کے وقار و تقدس کا بھی تقاضا ہے۔
نواز شریف نے کہا کہ میں اس فورم پر اس کھلی عدالت کے سامنے پوری تفصیل بتانے سے قاصر ہوں کہ مشرف پر مقدمہ قائم کرنے اور اس کارروائی کو آگے بڑھانے پر قائم رہنے کی وجہ سے مجھے کس کس طرح کے دباﺅ کا نشانہ بننا پڑا۔
مسلم لیگ (ن) کے قائد سابق وزیراعظم نواز شریف نے کہا ہے کہ سابق آمر پرویز مشرف کیخلاف غداری کا مقدمہ بنانے پر وزارت عظمیٰ اور پارٹی صدارت سے ہٹا کر میرے خلاف جھوٹے‘ بے بنیاد اور من گھڑت کیس بنا دیئے گئے ہیں
سابق صدر آصف علی زرداری نے مجھے پرویز مشرف کے2007ءکے غیر آئینی اقدامات کی پارلیمنٹ کے ذریعے توثیق کرنے اور مصلحت سے کام لینے کا مشورہ دیا لیکن میں نے انکار کردیا‘
سابق فوجی آمر جنرل (ر) پرویز مشرف کے خلاف فیصلے کی شکل میں پاکستان کی عدالتوں نے ملک کی تاریخ میں پہلی مرتبہ کسی فرد کو آئین شکنی اور سنگین غداری کا مجرم قرار دیا ہے۔
خصوصی عدالت کے فیصلے میں کہا گیا ہے کہ جنرل (ر) پرویز مشرف کے خلاف آئین شکنی کا مقدمہ ثابت ہوتا ہے اور آئین کے آرٹیکل چھ کے تحت انھیں سزائے موت سنائی جاتی ہے۔
یہ دیکھنا ضروری ہے کہ آئینِ پاکستان کی نظر میں غداری کیا ہے اور غدار کون ہوتا ہے غداری کا تعین کرنے اور غدار کے خلاف کارروائی کا آغاز کرنے کا حق آئین کس کو دیتا ہے؟ پھر یہ کارروائی کیسے ہوتی ہے؟ پاکستان میں اس کی مثالیں موجود ہیں۔