تصوف جو حدیثی اصطلاح "احسان" کا ہی دوسرا نام ہے ہمیشہ سے علمائے اسلام کا موضوعِ بحث رہا ہے، اس کی تائید میں دلائل، معترضین کے اعتراضات کا شافی جواب دینے کے علاوہ بطورِ خود ہی اس پر تنقید کا عمل بھی جاری رکھا، تصوف کے پردے میں اپنی خواہشات نفسانی کو پھیلانے اوکے جعلی صوفیا کو سب
سے پہلے خود اہلِ تصوف ہی مردود و نامقبول ٹھہراتے ہیں.
چودھویں صدی کی عظیم روحانی و علمی شخصیت مولانا احمد رضا خان بریلوی نے بھی اپنی تصانیف میں جا بجا بناوٹی صوفیوں کے نظریات کی خبر کی ہے، ایک رسالہ خاص اسی موضوع پر بنام "مقال عرفاء باعزاز شرع و علماء" لکھا.
اپنی تصنیف "اعتقاد الأحباب" میں شریعت و طریقت کی وضاحت اور ان کے مابین تعلق کو واضح کرنے کے علاوہ جعلی صوفیوں کی خبر لیتے ہوئے فرماتے ہیں:
"شریعت غذا ہے اور طریقت قوت، جب غذا ترک کی جائے گی قوت آپ زوال پائے گی. شریعت آنکھ ہے اور طریقت نظر، آنکھ پھوٹ کر نظر غیرمتصور."
بعض جاہل کو خود کو اہلِ طریقت بولتے ہوئے شرعی ذمہ داریوں سے خود کو آزاد سمجھتے ہیں انہیں سمجھاتے ہیں:
"شریعت و طریقت دو راہیں متبائن نہیں، بلکہ بے اتباعِ شریعت خدا تک وصول محال.
شریعت تمام احکامِ جسم و جان و روح و قلب و جملہ علومِ الہیہ و معارفِ نامتناہیہ کو جامع ہے جن میں سے ایک
ایک ٹکڑے کا نام طریقت و معرفت ہے و لہذا باجماعِ قطعی جملہ اولیائے کرام کے تمام حقائق کو شریعت مطہرہ پر عرض کرنا فرض ہے، اگر شریعت کے مطابق ہوں حق و مقبول ہیں ورنہ مردود و مخذول. "
بعض جاہل کہتے ہیں کہ شرعی احکام خدا تک رسائی کا راستہ و ذریعہ ہیں اور راستے کی حاجت راہی کو نہ کہ اسے کو منزل تک پہنچ چکا ہے، ایسوں کے زعم باطل کی تردید کرتے ہوئے محقق بریلوی فرماتے ہیں:
"بعد از وصول اگر اتباعِ شریعت سے بے پروائی ہوتی تو سید العالمین ﷺ اور إمام الواصلين علی
کرم اللہ وجہہ الکریم اس کے ساتھ أحق ہوتے.
نہیں! بلکہ جس قدر قرب زیادہ ہوتا ہے شرع کی باگیں اور زیادہ سخت ہوتی جاتی ہیں."
اسی بات کو ایک مثال کے ذریعے اپنی تصنیف مقال عرفاء میں بیان کرتے ہیں کہ" آخر نہ دیکھا کہ سید المعصومين رات رات بھر عبادات و نوافل میں مشغول رہتے اور کارِ امت
کا لیے گریاں و ملول رہتے، نماز پنجگانہ تو حضور پر فرض تھی ہی، نماز تہجد کا ادا کرنا بھی حضور ﷺ پر لازم بلکہ فرض قرار دیا گیا، جب کہ امت کے لیے وہی سنت کی سنت ہے."
پھر آخر میں وصول الی اللہ کا صحیح راستہ بتاتے ہیں کہ" خلق پر تمام راستے بند ہیں مگر وہ جو رسول ﷲ ﷺ کی نشانِ قدم کی
پیروی کرے (جیسا کہ شیخ سعدی فرماتے ہیں)
خلافِ پیمبر کسے رہ گزید
کہ ہر گز بمنزل نہ خواھد رسید
(جس کسی نے پیمبر ﷺ کے خلاف راستہ اختیار کیا ہرگز منزلِ مقصود پر نہ پہنچے گا)."

موجودہ دور میں بقیہ سبھی شعبوں کی طرح' خود کو حاملینِ تصوف و وارثینِ صوفیا کہلانے والوں میں بھی بہت سی
نظریاتی اور عملی خرابیاں در آئی ہیں تو اس کا حل بھی تعلیماتِ نبویہ اور حقیقی اہلِ تصوف مثلِ امام غزالی، قشیری، ہجویری، شعرانی و بریلوی وغیرہم کے فرمودات کی روشنی میں ہی تلاش کیا جائے گا نہ یہ کہ تصوف کا ہی انکار کر دیا جائے.

#محقق_بریلوی
#اعتقاد_الاحباب
#مقال_عرفاء

• • •

Missing some Tweet in this thread? You can try to force a refresh
 

Keep Current with بنجارہ

بنجارہ Profile picture

Stay in touch and get notified when new unrolls are available from this author!

Read all threads

This Thread may be Removed Anytime!

PDF

Twitter may remove this content at anytime! Save it as PDF for later use!

Try unrolling a thread yourself!

how to unroll video
  1. Follow @ThreadReaderApp to mention us!

  2. From a Twitter thread mention us with a keyword "unroll"
@threadreaderapp unroll

Practice here first or read more on our help page!

More from @DabeerHijazi

14 Oct
صفاتِ ذاتی جن کی ﷲ تبارک و تعالیٰ کی ذات مقدسہ سے جدائی محال و ناممکن ہے، ان میں سے علم، قدرت، بصارت جبکہ صفات فعلیہ میں سے تخلیق کی طرف قرآن مجید میں کل شیء (ہر شے) کی نسبت کی گئی ہے. بظاہر ہر صفت کو ہر ہر شے سے متعلِّق بتایا جا رہا ہے لیکن درحقیقت ان میں سے ہر صفت کا دائرہ کار
الگ ہے، ہر ہر شے ان میں سے ہر صفت کی متعلَّق نہیں ہے، متکلم اسلام احمد رضا خان بریلوی اپنی تصنیف "سبحان السبوح عن عیب کذب مقبوح" میں لکھتے ہیں:
"1: خلاق کبیر جل و علا فرماتا ہے: خالق کل شیء فاعبدوہ وہ ہر چیز کا بنانے والا ہے تو اسے پوجو. یہاں صرف حوادث مراد ہیں کہ قدیم
یعنی ذات و صفاتِ باری عزمجدہ مخلوقیت سے پاک (ہیں).
2: سمیع و بصیر جل مجدہ فرماتا ہے انہ بکل شیء بصیر وہ ہر چیز کو دیکھتا ہے. یہ تمام موجودات قدیمہ و حادثہ سب کو شامل مگر معدومات خارج یعنی مطلقاً یا جس چیز نے ازل سے اب تک کسوتِ وجود نہ پہنی نہ ابد تک پہنے.
Read 6 tweets
20 May
صحابہ اہلِ زبان تھے نزولِ وحی کا مشاہدہ کرتے تھے، قرآن کریم اور اس کی تشریحات و توضیحات بلا واسطہ خود مہبطِ وحی ﷺ سے سننے کا شرف حاصل ہوا اس کے باوجود سب کا علمی مرتبہ یکساں نہیں تھا ہر ایک خود مجتہد اور مفتی گمان نہیں کرتا تھا بلکہ یہ مراتب بھی اجلہ صحابہ کرام کے ساتھ مخصوص تھے
دیگر صحابہ کرام باوجود معانئ قرآن و سنت جاننے کے باوجود مسائل کے حل کے لئے انہی اجلہ صحابہ کی بارگاہ میں حاضر ہوتے تھے، خلفائے راشدین، سیدہ عائشہ صدیقہ، عبادلہ اربعہ وغیرہ حضرات ہی منصبِ اجتہاد و افتا پر فائز تھے.
یہ تو تھا اسلام کے اولین مخاطبین اور حاملین کا طرزِ عمل دوسری جانب
یہ نئی پود ہے جنہیں قرآن و حدیث پر عبور تو دور معلوم آیات و احادیث کے معانی جاننے کے لیے بھی کسی لغت کی محتاجی سے چھٹکارا نہیں لیکن اس کے باوجود انہیں اصرار ہے کہ ہر شخص قرآن مجید اور احادیث کریمہ سے بذات خود مسائل نکالنے کا مکلف اور ماذون ہے ایسوں کے نزدیک کسی بھی ایرے غیرے
Read 7 tweets
7 May
لفظ تحقیق سے مذہبی طبقے کو الرجی کیوں؟
ایسے سوال یا تو سائل کی لاعلمی سے پیدا ہوتے ہیں یا سادگی کی بنا پر.
بھئی سیدھی سی بات ہے اسلام کی چودہ صدیوں کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں ہر صدی میں آپ کو کوئی نہ کوئی محقق مل جائے گا جس نے مروجہ خرافات و باطل نظریات کے خلاف علمِ تحقیق و بغاوت
بلند کیا چاہے وہ خوارج کے خلاف صحابہ کا جہاد ہو، ریاستی معاملات میں در آئی بدعات کے خلاف سیدنا عمر بن عبدالعزیز کے اقدامات ہوں، فتنۂ خلق قرآن کے خلاف امام احمد بن حنبل کی تحقیق یا جبری بیعت کے خلاف امام مالک کا فتویٰ ہو، شرع میں عقلیات کو فوقیت دینے کے خلاف امام غزالی کا نقطہ نظر
ہو یا اکبری دین کے خلاف شیخ مجدد الف ثانی کی اصلاحی تحریک یہ سب اپنے آپ میں' رائج الوقت پاورفل باطل نظریات کے خلاف تحقیقات ہی تھیں جنہیں روایتی مذہبی طبقے نے نہ صرف قبول کیا بلکہ ایسوں کو سر آنکھوں پر جگہ دی لیکن جب آپ تحقیق کے نام فساد برپا کریں، تحقیق کے نام پر
Read 5 tweets
3 May
سلطان محمد فاتح کی علمی و عملی شخصیت سازی میں دو شخصیات کا کردار نہایت بنیادی حیثیت رکھتا ہے.
پہلی شخصیت تو ہیں شیخ احمد بن اسماعیل کورانی جو فقہ حنفی کے اجلہ علما میں شمار کیے جاتے ہیں، موصوف تفسیرِ قرآن کے ساتھ ساتھ شرحِ بخاری کے بھی مصنف تھے.
کہتے ہیں سلطان فاتح اولا حصولِ علم میں سنجیدہ نہیں تھے جو بھی استاد آتا مایوس ہو کر لوٹ جاتا، سلطان مراد نے کسی کے مشورے پر علامہ کورانی کو بھیجا اور گزارش کی کہ سختی بھی کیجئے گا.
حضرت نے ڈنڈا اٹھایا اور سلطان فاتح کے پاس پہنچ کر فرمایا میں تمہارے والد کے حکم پر تمہیں پڑھانے آیا ہوں اور اس معاملے میں سختی کا بھی مجھے اختیار ہے کہ یہ ڈنڈا تمہارے والد کا دیا ہوا ہے.
یہ سن کر سلطان کی ہنسی نکل گئی، حضرت نے یہ دیکھ کر ڈنڈا سیدھا کیا اور سلطان عالی مقام
Read 6 tweets
28 Jan
آؤ میں تمہیں دو دوستوں کا قصّہ سناتا ہوں، شمس تبریز نے کہا.
دو آدمی ایک سے دوسرے شہر کا سفر کر رہے تھے، ندی کنارے پہنچے تو وہ طغیانی کے سبب چڑھی ہوئی تھی اور قریب ہی ایک جوان اور خوبصورت خاتون ندی پار کرنے کے لیے مدد کی منتظر کھڑی دکھائی دی.
دونوں میں سے ایک نے آگے بڑھ کر اسے بانہوں میں اٹھا کر ندی پار کروا دی، اور دوسرے کنارے اتار کر اسے الوداع کہہ کر اپنے دوست کے ساتھ اپنی راہ چل دیا.
باقی سارا سفر دوسرا دوست غیر معمولی طور پر خاموش اور خفا رہا، کئی گھنٹوں کی ناراضگی اور خاموشی کے بعد آخر کو پہلے سے بولا:
تم نے اس عورت کو ہاتھ کیوں لگایا؟ وہ تمہیں ورغلا سکتی تھی! نامحرم مرد اور عورت اس طرح ایک دوسرے کو چھو نہیں سکتے.
یہ سن کر پہلے دوست نے بڑا خوبصورت جواب دیا وہ کہنے لگا:
میرے دوست!
Read 4 tweets
2 Jan
"نئے سال کی پہلی نظم"

چلو! کچھ آج حساب زیانِ جاں کر لیں
الم شمار کریں ، درد آشکار کریں
گِلے جو دل کی تہوں میں ھیں آبلوں کی طرح
انھیں بھی آج شناسائے نوکِ خار کریں
جو بے وفا ھو اُسے بے وفا کہیں کُھل کر
حدیثِ چشم و لب سوختہ کہیں کُھل کر
کہاں تلک یہ تکلم زمانہ سازی کے
پسِ کلام ھے جو کچھ ذرا کہیں کُھل کر
خنک خنک سی ھنسی ھنس کے مل رھے ھو کیوں؟
لہو ھے سرد تو آنکھیں بھی منجمد کر لو
جو دل میں دفن ھے چہروں پہ اشتہار کریں
الم شمار کریں درد آشکار کریں
Read 4 tweets

Did Thread Reader help you today?

Support us! We are indie developers!


This site is made by just two indie developers on a laptop doing marketing, support and development! Read more about the story.

Become a Premium Member ($3/month or $30/year) and get exclusive features!

Become Premium

Too expensive? Make a small donation by buying us coffee ($5) or help with server cost ($10)

Donate via Paypal Become our Patreon

Thank you for your support!

Follow Us on Twitter!