#ancient #architecture #mounting #Turkiye
سمیلاخانقاہ (صوبہ ترابزون، ترکیہ)
Sumela Monestary(Trabzon, Turkiya)__4th C.
تقریباً1600سالہ قدیم پہاڑکی اوڑھ میں لٹکتی ھوئی شاہی عیسائی عبادت گاہ سمیلاجوترابزون سےکبھی جدانہیں ھوسکتی۔
ترکی کےصوبہ ترابزون میں پونٹک پہاڑ (Pontic Mountains)
کے اندر میلا ماؤنٹین (Mela Mountain) پر واقع یہ عمارت ایک یونانی آرتھوڈوکس خانقاہ تھی جو دوشیزہ مریم (Jesus' Mother) کے لیے وقف تھی۔ یہ خانقاہ عیسائی دنیا کی قدیم ترین خانقاہوں میں سے ایک ھے۔
لفظ "Sumela" دراصل "Mela" سے اخذ شدہ ھے جسکا مطلب ھے "کالا". چونکہ اس کمپلیکس میں "مریم"
کی مشہورِ زمانہ سیاہ پینٹنگ آویزاں ھے، اسی نسبت سے اس پہاڑ کو بھی "Mela" کہا جاتا ھے۔
اس جگہ پر عبادت گاہ کا مقصد پرسکون اور الگ تھلگ مقام تھا۔ مؤرخین کے مطابق خانقاہ کی بنیاد دو پادریوں، برناباس اور سوفرونیئس نے ایتھنز سے شہنشاہ تھیوڈوسیئس اول (Theodosius 1, AD 375-395) کےدورمیں
رکھی تھی۔
19ویں صدی میں سطح سمندر سے 1200 میٹر کی بلندی پر بنائے گئے اس شاہی کمپلیکس کو دیکھنے کے لیے دنیا کے کونے کونے سے بہت سے مسافر آنا شروع ھو گئے۔ سمیلا خانقاہ ایک راک چرچ، چیپل، کچن، ہولی اسپرنگ، لائبریری، گیسٹ ہاؤس اور طلباء کے کمروں پر مشتمل ھے۔
حالانکہ عالمی ورثے کی
تنظیم #یونیسکو کا حصہ یہ خانقاہ آج کسی عیسائی ملک میں واقع نہیں آتی مگر اس کی شان و شوکت اور دیکھ بھال آج بھی اسی دور کے مطابق ھے۔
سمیلا ایک بار تو اپنے دیکھنے والوں کو اپنی طرزتعمیر کےحوالے سے پریشان ضرورکرتی ھے۔ @threadreaderapp unroll it. #Trabzon #Archaeology #UNESCO #History
تنظیم #یونیسکو کا حصہ یہ خانقاہ آج کسی عیسائی ملک میں واقع نہیں آتی مگر اس کی شان و شوکت اور دیکھ بھال آج بھی اسی دور کے مطابق ھے۔
سمیلا ایک بار تو اپنے دیکھنے والوں کو اپنی طرزتعمیر کےحوالے سے پریشان ضرورکرتی ھے۔ @threadreaderapp unroll it. #Trabzon #Archaeology #UNESCO #History
• • •
Missing some Tweet in this thread? You can try to
force a refresh
#ਪੰਜਾਬ #ਵਾਰੇਗੁਰੂ_ਜੀ #Gurdwara #Pakistan
گوردوارہ دربارصاحب کرتارپور (شکر گڑھ تحصیل، نارووال پاکستان)
کرتار(ਕਰਤਾਰ) جس کے لفظی معانی "Creator/Lord" کےہیں، سکھوں کےسات اھم ترین مقامات میں سےایک سفیدمالائی حسن سےمالامال ایک جاذب نظرسیاحتی مقام جہاں سکھوں کےمذہبی پیشوا اوربانی گرونانک
(اصل نام سدھارتھ) نےاپنی زندگی کےآخری 18سال گزارےاور یہیں وفات پائی۔
*دربار کرتا پور راوی کنارے پاکستان کے صوبہ پنجاب کےضلع ناروال کا سرحدی علاقہ ھے۔
بابانانک ستمبر 1521 کو اس مقام پر تشریف لائے، پڑاؤ ڈالا اور کرتارپور کےنام سےیہ گاؤں آبادکیا۔
ابتداء دربارصاحب کی مقامی جگہ مختصر
ھونے کے سبب 1921 تا 1929 کے درمیان پٹیالہ کے مہاراجہ بھوپندر سنگھ بہادر نے اس کی مکمل اور وسیع العرض تعمیر کروائی۔
آج بھی وقفے وقفے سے حکومت پاکستان بین المذاھب احترام و یکجہتی کے سبب گوردوارے کی تزئین و آرائش کو اپنا فرض سمجھ کر کرتی ھے۔
بھارت سے تعلقات میں اونچ نیچ کے باوجود
کیلئے مخصوص ھے۔
ماہر آثار قدیمہ کے مطابق یہ مندر 1200 سال پرانا ھے لیکن موءرخین اس مندر کو 1400 قبل مسیح میں بھگوان سری کرشنا کے پڑپوتے وجرنابھ سے جوڑتے ہیں۔
وجرنابھ نے جب اس مندر کو تعمیر کیا تھا یہ یہ ایک شاندار ڈھانچہ تھا جو بحیرہ عرب کے پانیوں سےاٹھتا دکھائی دیتا تھا۔
اس مندر
کو "جگت مندر" بھی پکارا جاتا ھے، اسے جھل ظالم سنگھ نے گیارہویں صدی میں تازہ کیا۔
اس کاشاندار نقش و نگار 43 میٹر بلند اور 52گزکپڑے سےبنابڑاجھنڈا 10 کلومیٹر دورسے دیکھا جا سکتا ھے۔
مندر نرم چونے کے پتھر سے بنایا گیا ھے اور اس میں ایکمقبرہ اور ایک مستطیل ہال ھے جس کے3اطراف پورچ ہیں۔
#زرتشت #zoroastrian #ancient #religion
"شریف آباد دخمہ" (صوبہ یزد، #ایران)
خاموشی کا مینار (آسمانی دفن)
Tower of Silence (The Sky Burial)
زرتشتیوں کی میتیں دفنانے کا مقام
زرتشتی مذہب کی ایک لمبی اورقدیم تاریخ میں "یخچل" اور "آرگ بام" کےبعد"شریف آباد"کوبھی ایک مرکزی حیثیت حاصل ھے.
زرتشتی روایت میں جب کسی کی موت ھو جاتی ھے تو اس کا جسم فوری طور پر بدروحوں سے آلودہ اور ناپاک ھو جانے سے لاش کو اس جگہ مقامی پرندوں (خاص طور پر گدھ) کے سامنے بے نقاب (nakedly) کر کے ڈال دیا جاتا ھے یعنی پاکیزہ کیا جاتا ھے، اس مقام کو"دخمس" کہتےہیں۔
40 سال پہلے تک ایران کےصوبہ یزد
میں "ٹاورز آف سائیلنس" کے اوپر اب بھی لاشیں پائی جا سکتی تھیں، جو آہستہ آہستہ بکھر رہی تھیں یا صحرائی گدھوں کے ذریعے الگ ھو رہی تھیں۔
3,000 سال پرانی روایت کے مطابق ٹاورز پر لاشوں کو تین مرتکز دائروں میں ترتیب دیا گیا تھا۔
مردوں کو بیرونی دائرے میں، خواتین کو درمیان میں اور بچوں
#RockCut #architecture #sichuan
دیوقامت لیشن بدھا (لیشن، چین)
Leshan Giant Buddha(Near Min, Qingyi and Dadu River, Leshan City)
Circa: 8th C.
آنکھیں موندے اوربارعب اندازمیں بیٹھےبرلب دریائےمن، چنگی اور دادو، صوبہ سیچوان(چین)میں واقع لیشان بدھاکا 71 میٹر(233 فٹ) اونچادیوہیکل مجسمہ
جو 1940 میں دریافت ھوا، چٹانی طرزتعمیر کی حیران کن مثال ھے۔
ہائی ٹونگ نامی ایک راہب تھا جس نے اس منصوبے کا آغاز کیا تھا۔اسکی فکر ان دیرینہ لوگوں کی حفاظت کیلیے تھی جو تین دریاؤں کے سنگم کے آس پاس اپنی روزی کماتے تھے۔ ٹونگ کاماننا تھاکہ بدھاپانی کی روح کوقابو میں لائیں گے۔
20 سال
کی بھیک مانگنے کے بعد، آخر کار اس نے اس منصوبے کے لیے کافی رقم جمع کر لی۔ ٹونگ کی وفات کے بعد اس کے دو شاگردوں نے اس مجسمے کو مکمل کروایا۔
بدھا کامقام عام طور پر واٹر لائن سے اوپر ھے لیکن یہ علاقہ 70سالوں میں بدترین سیلاب کی زد میں آیا ھے۔
بدھا کہ ہیت (Structure) کو زیرقلم لائیں
#ancient #Iraq #Civilization
میخی یا پیکانی رسم الخط (Cuneiform Script)
3500 BC - 2500 BC
دنیا کے اس قدیم تیروں کے سروں کی مانند رسم الخط کو دریافت کرنے کا سہرا ایک انگریز عہدے دار کے سر ھے جو ایران میں مقیم تھا۔ اس نے 12 سال لگا کر اسے دریافت کیا۔
یہ رسم الخط بابلی، عکادی، سمیری
تہذیب (Sumerian Civilization) کے زمانے میں، لکڑی کے کیل کی مدد سے لکھنے کیلئےمٹی کی تختیوں کا استعمال کیا جاتا تھا۔ اسی لیے اسے میخی کہا جاتا ھے۔
سمیری تہذیب میں تحریر کا سب سے پہلے آغاز شہر یوروک (Uruk) سے ھوا جو تصویری (Pictorial) تھایعنی "بچہ بھاگ رہا ھے" تو بھاگتےبچے کا خاکہ۔
گیلی مٹی کی تختیوں پر *نرسل کے قلم سے لکھ کر وہ اسے آگ میں پکالیتے تھے۔ اور یہ کام سب سے پہلے مندر کے کسی کیا کرتے تھے۔
اسی تحریر نے معاشرے کو منظم کیا۔
اسی طریقے سےوہ تجارتی لین دین، ٹیکس، قانونی معاہدے، احکامات، حساب کتاب، رسیدیں لکھتے۔
دنیا کااولین قانون "حمورابی کا قانون" بھی
#Iran #Archaeology #architecturaldesign
"آرگ بام" (شہر بام، صوبہ کرمان)
Arg-i-Bam (Kerman Province, Iran)
Circa: 224 AD - 651 AD
Era: Sassanid Period
تاریخ پڑھنا ایساھےجیسےکسی بندکتاب کو ورق در ورق ٹٹولنااور آثارِقدیمہ کھودناایسا ھےجیسےخودکو شش وپنج میں ڈالنا۔
ایسےہی خود کوپریشان
کرنے کی زندہ مثال "آرگ بام" ھے جسے 2004 میں #یونیسکو عالمی ورثے کیلئے نامزد کیا گیا۔
صوبہ کرمان (ایران) میں دریائے بام کے کنارے آباد جدید شہر بام کےصحرا میں ایک خاص قسم کی ریتلی مٹی کی تہوں اور اینٹوں سے بناقلعہ، جسے کمپلیکس کہاجائےتو غلط نہ ھوگا، ایک پہاڑی کی چوٹی پرواقع ھے جسکی
بیرونی دیوار نےشہر کوگھیر رکھا ھے۔
تمام تر ضروری تعمیر سے مزین قلعہ اپنی بنیاد سےتقریباً 200 فٹ (60 میٹر) بلندھے جسکی دیواریں، تقریباً 40 فٹ (12 میٹر) اونچی تھیں۔
19ویں صدی کے آغازتک یہ ایران میں سب سےمضبوط قلعہ بند جگہ تھی، جسے18ویں اور 19ویں صدی کےایرانی خاندانی تنازعات کےدوران