تلاش کرنے کے نام پر 29 اپریل سے چیف جسٹس لاھور ہائی کورٹ جسٹس قاسم خان کی سربراہی میں جسٹس ملک شہزاد احمد خان، جسٹس ٰعالیہ نیلم، جسٹس محمد امیر بھٹی، جسٹس سرفراز ڈوگر، جسٹس اسجد گھرال اور جسٹس فاروق حیدر پر مشتمل 7 رکنی بنچ روزانہ کی بنیاد پر سماعت کرے گا
مکمل تفصیلات کچھ یوں ہیں کہ نومبر2018 میں سانحہ ماڈل ٹاؤن کی ایک مقتولہ کی بیٹی #بسمہ_امجد نےدیگر متاثرین کے ساتھ مل کے چیف جسٹس ثاقب نثار سے ملاقات کی اور اس وقت تک سانحہ ماڈل ٹاؤن کی ہونے والی تحقیقات پر اپنے تحفظات کا اظہار کرتےہوئے ان سے ایک نئی جے آئی ٹی بنانے
اور اس سے سانحہ ماڈل ٹاؤن کی از سر نو تحقیقات کروانے کے لیے اپنی درخواست پیش کردی
چیف جسٹس ثاقب نثار نے سانحہ ماڈل ٹاؤن کے نظر انداز متاثرین کو فوری انصاف دلانے کے لیے پہلے تو بسمہ امجد کی درخواست پر از خود نوٹس لیا اور پھر 19 نومبر 2018 کو از خود نوٹس کی پہلی ہی
سماعت میں پنجاب حکومت سے نئی جے آئی ٹی بنوا کےاس سے سانحہ ماڈل ٹاؤن کی از سر نو تحقیقات کروانے کےلیے جسٹس ثاقب نثار نے اپنی سربراہی میں جسٹس آصف سعید خان کھوسہ، جسٹس شیخ عظمت سعید، جسٹس فیصل عرب اور جسٹس مظہر عالم خان میاں خیل پر مشتمل سپریم کورٹ کا ایک 5 رکنی بنچ
بنا دیا اور 5 دسمبر2018 تک کےلیے سماعت ملتوی کرنے سے پہلے پنجاب حکومت کے لیے حکم جاری کر دیا کہ وہ اگلی سماعت پر بنچ کے سامنے پیش ہو کے متاثرین سانحہ ماڈل ٹاؤن کے مطالبات پر اپنا جواب داخل کروائے
تحریک انصاف کی پنجاب حکومت کو سانحہ ماڈل ٹاؤن پر نئی جے آئی ٹی بنانے
اور اس سے از سرِ نو تحقیقات کروانےپر کوئی اعتراض ہو ہی نہیں سکتا تھا اس لیے پنجاب حکومت نے 5 دسمبر2018 کو سپریم کورٹ کے 5 رکنی بنچ کی پہلی سماعت کے موقع پر ہی سپریم کورٹ کو یقین دہانی کروا دی کہ انہیں متاثرین کے مطالبات کے عین مطابق نئی جے آئی ٹی بنا کے اس سے سانحہ
پہلی ہی سماعت پر مراد کے ملنے کی کسی کو امید نہیں تھی، اس پر جب عدالت نے متاثرین سے ان کی رائے پوچھی تو وہ بھی شکر کا کلمہ پڑھتے دکھائی دیے اس لیے عدالت نے پنجاب حکومت کے نمائندے سے یہ کہتے ہوئے عدالتی کاروائی ختم کر دی کہ پنجاب حکومت اس پر جلد از جلد کام کرے اور
یہاں یہ واضح کرتاچلوں کہ یہ بالکل درست ہےکہ نئی جے آئی ٹی بنانے کےلیے پنجاب حکومت کو سپریم کورٹ نے کوئی حکم نہیں دیا تھا، پنجاب حکومت نے نئیJIT کسی کے بھی حکم کے بغیر خود اپنی مرضی سے بنائی تھی لیکن 5 دسمبر 2018ِ کو سپریم
کورٹ کے 5 رکنی بنچ کے سامنے یہی نئی جے آئی ٹی جلد از جلد بنانےکی یقین دہانی کروادینے کےبعد پنجاب حکومت سپریم کورٹ کی پابند ہو گئی تھی اور اس کی جے آئی ٹی نہ بنانے والی مرضی بھی اب ختم ہو گئی تھی۔ سپریم کورٹ کا کوئی تحریری حکم نہ ہونے کے باوجود اگر اس کے بعد پنجاب
حکومت جے آئی ٹی نہ بناتی تو سپریم کورٹ میں توہین عدالت کی مرتکب قرار پاتی، اس لیے اس جے آئی ٹی کو بنانے یا بنوانے والوں میں سپریم کورٹ کو تسلیم نہ کرنا بھی درست نہیں مانا جا سکتا
حکومت پنجاب نے ایک مہینے کے اندر اندر نئی جے آئی ٹی بنا کے جو کہا وہ کر دکھایا
3 جنوری 2019 کو محکمہ داخلہ پنجاب نے سابق #IG سندھ اور اس وقت کے #IG موٹرویز، اے ڈی خواجہ کی سربراہی میں سانحہ ماڈل ٹاؤن پر #نئیJIT تشکیل دے کر نوٹیفیکیشن جاری کر دیا۔ اس نئی جے آئی ٹی کے دیگر اراکین میں #ISI کے لیفٹیننٹ کرنل محمد عتیق الزمان، #MI کے لیفٹیننٹ کرنل
عرفان مرزا، #IB کے ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل محمد احمد کمال اور #DIG ہیڈ کوارٹرز پولیس گلگت بلتستان قمر رضا شامل تھے
پنجاب حکومت کے توسط سے نئی جے آئی ٹی کے بن جانے اور انتہائی سرعت کے ساتھ اپنا کام شروع کر دینے کی خبر چیف جسٹس ثاقب نثار تک پہنچائی گئی تو انہوں نے سپریم
کورٹ کا وہ 5 رکنی بنچ تحلیل کر دیا جو انہوں نے یہی جے آئی ٹی بنوانے کے لیے بنایا تھا
3 جنوری 2019 کو بننے والی اس جے آئی ٹی کی سبک رفتاری کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ یہ جے آئی ٹی ٹھیک 77 روز بعد 21 مارچ 2019 کو کوٹ لکھپت جیل میں نواز شریف کا آخری بیان ریکارڈ کر
رہی تھی (جس کے بعد جے آئی ٹی اراکین کا اپنی رپورٹ کو کمپائل کرنے کا کام ہی بچا تھا)
سنا ہے کہ 21 مارچ 2019 کو 2 گھنٹے کی پوچھ تاچھ کے دوران #ISI, #MI اور #IB کی شخصیات کے سامنے بھیگی بلی کی طرح بیٹھ کے پانی پی پی کے اپنا حشر کر لینے والے جس نواز شریف کی آواز تک
نہیں نکل رہی تھی، جے آئی ٹی اراکین کے کوٹ لکھپت جیل سے نکلتے ہی اسی نوازشریف نے ایسے ادھم مچایا تھا جیسے کوئی ادھم مچانے کا حق ہوتا ہے اور یہی وجہ تھی کہ ٹھیک اگلے ہی روز یعنی 22 مارچ 2019 کو کچھ نہلے دہلے، چیف جسٹس لاھور ہائی کورٹ جسٹس قاسم خان کی سربراہی میں
جسٹس ملک شہزاد احمد خان اور جسٹس عالیہ نیلم پر مشتمل لاھور ہائی کورٹ کا ایک 3 رکنی "ایمرجینسی" بنچ بنوانے کے بعد لاھور ہائی کورٹ کی راہداریوں میں ٹہل ٹہل کے کسی دُکّی تِکّی قسم کے پٹیشنرز کے آنے کے منتظر تھے اور جب سانحہ ماڈل ٹاؤن کے دو ملزمان انسپکٹر رضوان قادر
ہاشمی اور کانسٹیبل خرم رفیق پٹیشنرز کا #رول_پلے کرنے وہاں پہنچےتو نون لیگی لیگل ونگ کی جانب سے ایڈووکیٹ اعظم نذیر تارڑ اور ایڈووکیٹ برہان معظم نےانہیں ہاتھوں ہاتھ لیا اور پھر انسپکٹر رضوان قادرہاشمی اور کانسٹیبل خرم رفیق کی رٹ پٹیشن نے جس تیزی کے ساتھ سماعت کے لیے
منظوری کا مرحلہ طے کیا اس سے بھی زیادہ تیزی کے ساتھ چیف جسٹس لاھور ہائی کورٹ کی سربراہی میں 3 رکنی بنچ نے سانحہ ماڈل ٹاؤن پر بنی نئی جے آئی ٹی سے متعلق اپنا فیصلہ محفوظ کیا
رٹ پٹیشن میں درخواست گزاروں نے یہ موقف اختیار کیا تھا کہ سانحہ ماڈل ٹاؤن کی انکوائری ایک
جے آئی ٹی نے کی تھی، جس کی رپورٹ پر چالان داخل ہوا اور مقدمے کا ٹرائل انسداد دہشت گردی کی عدالت میں شروع ہو گیا جو تاحال جاری ہے، تقریباً 50 سے زائد گواہوں کے بیانات قلمبند کئے جا چکے ہیں، اب پنجاب حکومت نے ایک نئی جے آئی ٹی تشکیل دے دی ہے، کسی معاملے پر ایک جے
آئی ٹی کے بعد اسی معاملے پر دوسری جے آئی ٹی نہیں بن سکتی، ایسا کوئی قانون موجود نہیں کہ ایک فوجداری معاملے پر دوسری تحقیقاتی ٹیم مقرر کی جائے، درخواست گزاروں کا موقف ہے کہ نئی جے آئی ٹی کی تشکیل کیلئے سپریم کورٹ نے کوئی حکم جاری نہیں کیا، نئی جے آئی ٹی کی تشکیل کا
سے بھی زیادہ سبک رفتاریاں دکھائے، اس سارے معاملے میں اعتراض کا اصل نکتہ یہ تھا کہ لاھور ہائی کورٹ نے پنجاب حکومت کی بنائی ہوئی جس نئی جے آئی ٹی کا نوٹیفیکیشن معطل کر کے اسے کام سے روکنے کا فیصلہ محفوظ کیا اس فیصلے تک پہنچنے کے لیے ہائی کورٹ کے اس تین رکنی بنچ نے
درخواست گزاران + مقدمے کے واحد فریق یعنی پنجاب حکومت کو سننا تو دور، انہیں کوئی نوٹس دے کے اطلاع دینا تک گوارا نہیں کیا اور اپنا فیصلہ بھی لکھ ڈالا اور یہ فیصلہ شاید ہائی کورٹ اور پاکستان کی پوری تاریخ کا پہلا فیصلہ تھا جو مقدمے کے واحد فریق کو بتائے بغیر لکھا گیا
چونکہ ایڈووکیٹ جنرل پنجاب احمد اویس کا دفتر احاطہ عدالت میں چند قدم کے فاصلے پر ہی تھا اس لیے انہیں بھی اس کھیل کی بھنک پڑ گئی، جب انہیں یہ خبر ملی تب شام کے تقریباً 6 بجنے والے تھے، وہ اسی وقت کمرہ عدالت میں پہنچ گئے جہاں کچھ ہی دیر میں محفوظ فیصلہ سنایا جانے
والا تھا، اور کمرہ عدالت بھی فیصلے کا انتظار کرنے والوں سے بھرا ہوا تھا
ایڈووکیٹ جنرل پنجاب احمد اویس نے کمرہ عدالت میں اپنا بھرپور احتجاج ریکارڈ کروانے کے لیے با آواز بلند بات کرتے ہوئے کہا کہ "ہائی کورٹ کی 100 سالہ تاریخ میں پہلی مرتبہ اہم مقدمے کے بارے میں
عدالتی عملے نے ایڈووکیٹ جنرل آفس کو اطلاع تک دینا گوارا نہیں کیا، اس کیس کی تمام کارروائی ایک منصوبہ بندی کے تحت کی گئی، ضمنی پیشی فہرست جاری کرکے کیس لگایا گیا"
بنچ نے انہیں بلند آواز میں بولنے سے منع کیا تو احمد اویس نے کہا کہ "میں اونچا بول رہا ہوں تاکہ میری
آواز عدالت تک جائے، اگر مجھے نہ سنا گیا تو عدالت کا واک آؤٹ کروں گا"
بنچ کے رکن جسٹس ملک شہزاد احمد نے کہا کیا آپ عدالت کو دباؤ میں لانا چاہتے ہیں؟ اپنی آواز نیچی رکھیں ورنہ توہین عدالت کے نوٹس جاری کئے جائیں گے، ایڈووکیٹ جنرل نے کہا کہ "آپ نے توہین عدالت کے نوٹس
جاری کرنے ہیں تو ضرور کریں لیکن اس ناانصافی پر احتجاج کرنا ان کا حق ہے، وہ اس پر خاموش نہیں رہ سکتے"۔ اس کے بعد ایڈووکیٹ جنرل دیگر لاء افسران کے ساتھ کمرہ عدالت سے واک آؤٹ کر گئے
ایڈووکیٹ جنرل پنجاب احمد اویس کے واک آؤٹ کر جانے کے بعد تین رکنی بنچ نے محفوظ فیصلہ
سنایا تو اس میں جسٹس ملک شہزاد احمد خان اور جسٹس عالیہ نیلم نے درخواست گزاران کے حق میں سانحہ ماڈل ٹاؤن پر بنائی گئی نئیJIT کا نوٹیفیکیشن معطل کر کے اسے کام سے روکنے کا فیصلہ سنایا جبکہ اس تین رکنی بنچ کے سربراہ اور چیف جسٹس لاھور ہائی کورٹ جسٹس قاسم خان نے اس
انکوائری کیلئےبنائی گئی نئی جے آئی ٹی کےخلاف عبوری حکم امتناعی جاری کرتے ہوئے قرار دیا کہ اگر جے آئی ٹی کو اس مرحلہ پر کام سے نہ روکا گیا تو وہ اس کیس کے حتمی فیصلے تک تحقیقات مکمل کر لے گی اور اگر جے آئی ٹی نے تحقیقات مکمل کر لیں تو یہ درخواستیں غیر موثر ہو جائیں
گی۔ انہوں نے مزید قرار دیا کہ انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت دوسری بار جے آئی ٹی نہیں بنائی جا سکتی، ایڈیشنل چیف سیکرٹری نے نئی جے آئی ٹی تشکیل دینے کا نوٹیفکیشن جاری کیا جس کا انہیں اختیار نہیں تھا
بنچ کے سربراہ جسٹس محمد قاسم خان نے نئی جے آئی ٹی کو کام کرنے سے
روکنے اور اس کےخلاف عبوری حکم امتناعی جاری کرنےسے متعلق بنچ کے اکثریتی فیصلے سے اختلاف کرتے ہوئے قرار دیا کہ نئی جے آئی ٹی کا نوٹیفکیشن معطل کرنے سے سانحہ ماڈل ٹاؤن کی باقی تحقیقات رک جانے کا خدشہ ہے، انصاف کے حصول کیلئے سانحہ ماڈل ٹاؤن کی تحقیقات نہیں رکنی چاہئیں
سپریم کورٹ کے 1971ء کے شہناز بیگم بنام فاضل ججز سندھ و بلوچستان ہائیکورٹ کے فیصلے کے تحت لاہور ہائیکورٹ ایسے معاملات میں مداخلت نہیں کر سکتی، نئی جے آئی ٹی کا نوٹیفکیشن معطل کرنے کا مطلب ہو گا کہ درخواست گزاروں کو حتمی دادرسی فراہم کر دی گئی ہے، قانون کے تحت عبوری
جسٹس ملک شہزاد احمد خان اور جسٹس عالیہ نیلم اس موقعہ پر ایڈووکیٹ جنرل پنجاب احمد اویس کو بالکل نہیں بھولے تھے، انہوں نے ایڈووکیٹ جنرل پنجاب کو شوکاز نوٹس جاری کرتے ہوئے انہیں اپنے رویہ کے معاملہ پر تحریری جواب داخل
کرنے کا حکم دیا اور وضاحت طلب کی کہ کیوں نہ ان کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی عمل میں لائی جائے، فاضل بنچ نے قرار دیا کہ لاہور ہائی کورٹ کی ڈیڑھ سو سالہ تاریخ میں ایسا نہیں ہوا کہ لاء افسروں نے ایسا رویہ اختیار کیا ہو، ایڈووکیٹ جنرل پنجاب اور لاء افسروں نے شور
مچا کر عدالت پر دباؤ ڈالنے کی کوشش کی، ایڈووکیٹ جنرل اور لا افسران اپنی مرضی کے بنچ کے پاس کیس لگوانا چاہتے تھے، ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے عدالت میں بائیکاٹ کرنے کا بھی کہا، ایڈووکیٹ جنرل کا رویہ بادی النظر میں توہین عدالت کے زمرہ میں آتا ہے
توہین عدالت کا نوٹس جاری کرنے کے علاوہ ان دونوں جج صاحبان نے
ایڈووکیٹ جنرل پنجاب کو شوکاز نوٹس کا تحریری جواب داخل کرنے کی ہدایت کرنے کے علاوہ جسٹس ملک شہزاد احمد خان اور جسٹس عالیہ نیلم نے حکومت پنجاب کو بھی باقاعدہ ایک نوٹس جاری کرتے ہوئے جواب طلب کیا جس میں
انہوں نے لکھا تھا کہ "جمعہ کے روز فاضل بنچ نے جب اس کیس کی شام 6 بجے کے قریب دوبارہ سماعت شروع کی تو ایڈووکیٹ جنرل پنجاب احمد اویس درجن بھر لاء افسروں کے ساتھ کمرہ عدالت میں آئے اور فاضل بنچ سے تلخ کلامی کے بعد واک آؤٹ کر گئے۔ ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے عدالت میں
غیر روائتی رویہ اختیار کیا اور فاضل بنچ سے کہا تھا کہ ہائیکورٹ کی 100 سالہ تاریخ میں پہلی مرتبہ اہم مقدمے کے بارے میں عدالتی عملے نے ایڈووکیٹ جنرل آفس کو اطلاع تک دینا گوارا نہیں کیا، اس کیس کی تمام کارروائی ایک منصوبہ بندی کے تحت کی گئی ،ضمنی پیشی فہرست جاری کرکے
کیس لگایا گیا جبکہ اس کیس کی پہلےبھی سماعت ہوتی رہی ہے، یہ کوئی نئی درخواست نہیں ہے۔ فاضل بنچ نے انہیں بلند آواز میں بولنے سے منع کیا تو احمد اویس نے کہا تھا کہ میں اونچا بول رہا ہوں تاکہ میری آواز عدالت تک جائے، اگر مجھے نہ سنا گیا تو عدالت کاواک آؤٹ کروں گا، بنچ
کے رکن جسٹس ملک شہزاد احمدنے کہ اکیا آپ عدالت کو دباؤ میں لانا چاہتے ہیں؟ اپنی آواز نیچی رکھیں ورنہ توہین عدالت کے نوٹس جاری کئے جائیں گے، جس پر ایڈووکیٹ جنرل نے کہا مجھے توہین عدالت کے نوٹس جاری کریں۔ اس کے بعد ایڈووکیٹ جنرل دیگر لاء افسروں کے ساتھ کمرہ عدالت سے
واک آؤٹ کر گئے تھے ، اب فاضل بنچ نے انہیں توہین عدالت کا نوٹس جاری کر دیا ہے
لاھور ہائی کورٹ سے نئی جے آئی ٹی کو کام کرنے سے روکنے اور اس کے خلاف عبوری حکم امتناعی جاری ہونے پر سانحہ ماڈل ٹاؤن کے متاثرین، عوامی تحریک اور پنجاب حکومت نے اس "تاریخی" فیصلے کے خلاف
سپریم کورٹ میں اپیلیں دائر کر دیں، جنہیں سننے کے لیے چیف جسٹس سپریم کورٹ جسٹس گلزار احمد نے اپنی سربراہی میں سپریم کورٹ کا تین رکنی بنچ بنا دیا جو ان اپیلوں پر سماعتیں کرتا رہا
اپنی اپیلوں میں سانحہ ماڈل ٹاؤن کے متاثرین، عوامی تحریک اور پنجاب حکومت کا مؤقف تھا کہ
کے حکم میں مداخلت کی ہے" تو اس پر چیف جسٹس، جسٹس گلزار احمد کا یہ کہنا تھا کہ "سپریم کورٹ کو اس معاملے میں نہ گھسیٹیں"، جبکہ جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیے تھے کہ "پنجاب حکومت نے سپریم کورٹ میں نئی جے آئی ٹی بنانے کی یقین دہانی کرائی تھی، نئی جے آئی ٹی نہ بنتی تو
صوبائی حکومت توہین عدالت کی مرتکب ہوتی، پولیس افسران نوٹس کے باوجود پیش ہوئے، نہ جے آئی ٹی کی مخالفت کی"
طویل سماعتوں کے بعد جمعرات 13 فروری 2020 کو سپریم کورٹ کے اس تین رکنی بنچ نے اپنا فیصلہ سناتے ہوئے ان تمام اپیلوں کو نپٹا دیا اور ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف
سپریم کورٹ نےاپنے فیصلےمیں لاھور ہائی کورٹ کو ہدایات دیتےہوئے لکھا کہ چیف جسٹس لاھور ہائی کورٹ ایک بنچ تشکیل دیں اوراس بنچ میں نئی جے آئی ٹی سے متعلق تمام درخواستیں سن کے ان پر 3 مہینوں میں یعنی 13 مئی 2020 تک فیصلے کر کے انہیں نپٹائیں
سپریم کورٹ کے 13 فروری 2020 والے فیصلے پر عمل کرنے کے لیے چیف جسٹس لاھور ہائی کورٹ کی جانب سے وہ سات رکنی بنچ اب بنایا گیا ہے جو 29 اپریل 2021 سے روزانہ کی بنیاد پر سماعتیں کر کے وہ فیصلے کرے گا جو اس نے سپریم کورٹ کے احکامات کے مطابق مئی 2020 تک کرنے تھے
لاھور ہائی کورٹ نے اپنے 7 رکنی بنچ میں جن درخواستوں کو نپٹانا ہے وہ سب نئی جے آئی ٹی کے قانونی ہونے اور لاھور ہائی کورٹ کے 22 مارچ 2019 والے فیصلے کو چیلنج کرنے کے لیے مختلف اوقات میں دائر کی گئی تھیں
اس معاملے میں بہت سے حیران کن اور دلچسپ و عجیب پہلو بھی ہیں
جیسا کہ لاھور ہائی کورٹ، لاھور ہائی کورٹ کے فیصلے کے درست یا غلط ہونے کا فیصلہ کرے گی اور یہ بھی کہ چیف جسٹس لاھور ہائی کورٹ جسٹس قاسم خان نے لاھور ہائی کورٹ کے 7 رکنی جائزہ بنچ کی سربراہی کرتے ہوئے، مارچ 2019 کا فیصلہ سنانے والے لاھور ہائی کورٹ کے جس تین رکنی بنچ
کے فیصلے کا جائزہ لینا ہے اس کے سربراہ بھی جسٹس قاسم خان خود ہی تھے، ویسے ان کا اس بنچ میں کسی بھی حیثیت میں ہونا تو اس لیے بھی سمجھ آتا ہے کہ مارچ 2019 والے فیصلے میں جسٹس قاسم خان نے دیگر دونوں جج صاحبان کے فیصلے سے اختلاف کرتے ہوئے اپنا جو اختلافی نوٹ لکھا تھا
فرشتوں نے ہماری گوندھی جانے والی صرف مٹی دیکھی تھی تو بالکل ٹھیک ٹھیک اور صاف صاف بتایا تھا کہ یہ جو بھی بن رہا ہے وہ خونریزیاں اور فساد برپا کرے گا، بالکل ویسے ہی جسٹس قاسم خان، جسٹس ملک شہزاد احمد خان، جسٹس ٰعالیہ نیلم، جسٹس محمد امیر بھٹی، جسٹس سرفراز ڈوگر
جسٹس اسجد گھرال اور جسٹس فاروق حیدر میں موجود کچھ ناموں کے بارے میں بھی ہم آپ میں موجود بہت سے ہیں جو بالکل ٹھیک ٹھیک اور صاف صاف جانتے ہیں کہ ان کے فیصلے کیا اور کیوں ہوں گے؟
ہمارے ایک بہت پیارے اور باخبر دوست جو سپریم کورٹ کے سینیئر وکیل اور بہترین تجزیہ کار
بھی ہیں پچھلے دنوں اپنی اس خبر پر ڈٹے رہے کہ نواز شریف اور مریم وغیرہ نہیں چاہتے کہ شہباز شریف ضمانت پر رہا ہو، ذاتی طور پر میرا اب بھی یہی ماننا ہے کہ @AzharSiddique صاحب کی یہ خبر یا تجزیہ جو بھی تھا بالکل ٹھیک تھا، نواز شریف اور مریم کسی صورت نہیں چاہتے
کہیں #گاڈفادر کے خلاف کوئی بغاوت تو نہیں ہو گئی؟ 🙏😅
لیکن پھر اگلے ہی روز لاھور ہائی کورٹ سے سانحہ ماڈل ٹاؤن کی جے آئی ٹی کو کام کی اجازت دینے یا اجازت نہ دینے کے فیصلوں کے لیے بننے والے اس سات رکنی بنچ کی خبر آئی تو بڑے بھائی کا چھوٹے بھائی کے لیے تبدیل شدہ
وہ مشفقانہ پروگرام بھی کچھ کچھ سمجھ آنے لگا جو ابھی تو یقیناً تصدیق طلب ہے لیکن اس کی تصدیق نہ تو کوئی زیادہ دور ہے اور نہ ہی کوئی راکٹ سائنس جو کسی کو سمجھ نہ آئے، مارچ 2019 میں نئی جے آئی ٹی کو کام سے روکنے کا فیصلہ سنانے والی شخصیات، موجودہ 7 رکنی بنچ کے فیصلے
کہتے ہیں کہ زیادہ بولنے والے اپنےہی #بےتُکے اور #بےلاگ بولے کی زد میں آتے ہیں، #قاضی_فائز_عیسیٰ کےساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا
20 اپریل کو #سپریم_کورٹ میں #ملکہ_جذبات کی اداکاری کرتے ہوئے #سرینا_عیسیٰ نے ٹسوے بہاتےہوئے اپنے کیس کا خاتمہ مانگا تو جسٹس عمر عطاء بندیال نے بھی سائل
1/29
کی مراد پوری کرنے کے لیے کمال فیاضی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہہ دیا کہ "قاضی فائز عیسیٰ صرف ان تین سوالوں کے جواب دے دیں تو وہ سارا کیس یہیں اور اسی وقت ختم کر دیں گے"
جسٹس عمر عطاء بندیال نے جو تین سوال پوچھے وہ یہ تھے
1۔ سرینا عیسیٰ کے جس فارن کرنسی اکاؤنٹ سے رقوم باہر منتقل
2/29
کر کے بیرون ملکی جائدادیں خریدی گئیں اُس اکاؤنٹ سے قاضی فائز عیسیٰ کا کوئی تعلق تھا کہ نہیں؟
2۔ کیا قاضی فائز عیسیٰ نے سریناعیسیٰ کے اُس فارن کرنسی اکاؤنٹ میں کبھی کوئی رقوم جمع کروائیں جس اکاؤنٹ سے سرینا عیسیٰ نے اپنی بیرون ملکی جائدادیں خریدیں؟
عمران خان ہو یا ابراہام لنکن، قوم کیلیے دیکھے ہوئے خوابوں میں تعبیر کے رنگ بھرنے والے صدیوں میں ہی آتے ہیں
ابراہام لنکن کو اس کے قریبی ساتھیوں نے کہا کہ وہ #غلامی ختم نہ کرے ورنہ گوروں کے جذبات بھڑک جائیں گے اور وہ کچھ نہیں کر سکے گا لیکن ابراہام لنکن تو ایک خواب
وہ جانتاتھا کہ صدیوں سے رائج کسی بھی نظام کا خاتمہ وقت لیتا ہے، لوگ پہلے تو ماننے سے انکار کرتے ہیں پھر مرنے مارنے پر تل جاتے ہیں لیکن اگر آپ سچے ہوں اور آپ کی نیت ٹھیک ہو تو خدا زمین پر اتر کر آپ کی مدد کرتا ہے
جیتنے کے بعد ابراہام لنکن نے غلامی کا خاتمہ کر دیا جس پر جنوبی امریکہ کی سات ریاستوں نے اپنی علیحدہ فیڈریشن بنا کے متحدہ ہائے امریکہ کے خلاف اعلانِ بغاوت کر کے سول وار شروع کر دی جس کی وجہ سے 1861 سے 1865 تک وسطی امریکہ کا تقریباً ہزار میل کا علاقہ میدان جنگ بنا رہا
آج الیکشن کمشن کا وہ 4 رکنی بنچ جو یوسف رضا گیلانی کی جیت کا نوٹیفیکیشن نہ جاری کرنےکی حکومتی درخواست پر سماعت کر رہاتھا، اسے اول تو خریدوفروخت کا ہونا ثابت کرنےوالی ویڈیوز کا سینیٹ الیکشن سےکوئی تعلق ہی نہیں ملا دوسرے وہ @ECP_Pakistan جسے 8 روز پہلے ہی سپریم کورٹ نے کہا تھا 1/7
کہ وہ بیلٹ پیپر کو قابل شناخت بنائے تاکہ اپنی پارٹی کا ووٹ کسی اور کو دینے والوں تک پہنچنا ممکن ہو وہی #ECP آج حکومتی وکلاء سے یہ کہتا پایا گیا کہ آپ کی درخواست صرف ایک فریق یوسف رضا گیلانی کے خلاف کاروائی کرنے کیلیے ہے اس میں دوسرے فریق کا ذکر نہیں ہے، اگر آپ نے اپنی درخواست
2/7
قابل سماعت بنانی ہے تو اس میں پیسوں کے عوض یوسف رضا گیلانی کو ووٹ دینے والے یا پیسوں کے عوض اپنے ووٹ ضائع کرنے والے 16 افراد کے خلاف کاروائی کرنے کا بھی لکھیں اور ان 16 افراد کے نام اور پیسے لینے کے ثبوت بھی دیں
۔ECP کے اس اعتراض کی پہلی وجہ تو یہ ہے کہ #ECP بخوبی جانتا ہے 3/7
آپ عمران خان سے صدارتی نظام کا مطالبہ ایسے کیوں کرتے ہیں جیسے #صدارتی_نظام عمران خان کے اختیار میں ہو؟
صدارتی نظام صرف وزیراعظم کی مرضی سے تو کیا، اس وقت کی قومی اسمبلی اور سینیٹ کی %100 مشترکہ مرضی سے بھی نہیں آ سکتا، سپریم کورٹ کے حکم یا کسی عوامی ریفرینڈم سے بھی نہیں۔ 🙏 1/7
اگر آپ کو پارلیمانی صدارتی نظام ہی چاہیے تو وہ کم سے کم 2028 کے الیکشن میں کس طرح آ سکتا ہے وہ سمجھ لیں
نظام حکومت کو تبدیل کرنے کے بل کا دونوں ایوانوں سے دوتہائی اکثریت سے پاس ہونا ضروری ہے اس لیے سب سے پہلے تو اگلے الیکشن میں عمران خان کا خود قومی اسمبلی میں دوتہائی اکثریت
2/7
سے پہنچنا ضروری ہے، پھر 2024 میں سینیٹ میں بھی عمران خان کی اکثریت کا دوتہائی تک پہنچنا ضروری ہے، اس کے بعد ہی قومی اسمبلی میں موجودہ #پارلیمانی_جمہوری_نظام کو #پارلیمانی_صدارتی_نظام سے بدلنے کا بل پیش کیا جانا کارآمد ہو گا
اب دوسری اور اہم بات یہ بھی سمجھیں کہ #نظام_حکومت
3/7