وہاں کے لوگوں اور ریاست کا کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکتا
بس فرق یہ تھا کہ چرچل مضبوط برطانیہ کی بقا اور سلامتی کیلیے اپنا عدالتی نظام مضبوط سے مضبوط تر دیکھنا چاہتا تھا جبکہ قومی خزانے میں لوٹ مار کا غدر مچا کے اپنے بچوں اور ان کی نسلوں کیلیے برطانوی ممالک میں محلات، کاروبار اور
2/66
مال و دولت کے انبار جمع کرنے والے شریف برادران اپنی لوٹ مار ہضم کرنے اور نسل در نسل لوٹ مار جاری رکھنے کے لیے عدل و انصاف کا نظام جڑ سے ہی اکھاڑ پھینکنا چاہتے تھے اور یہ ہماری بد قسمتی کی انتہا تھی کہ قومی خزانے پر بے رحمی سے اپنے ہاتھ صاف کرنے والا شریف برادران نامی مافیا
3/66
اقتدار کی راہداریوں پر قابض ہو کے ہمارے سیاہ و سفید کے فیصلے بھی خود ہی کر رہا تھا جس کی بدولت اسے پاکستان کے عدالتی نظام کی اینٹ سے اینٹ بجانے اور پاکستان کے پورے نظام انصاف کو ہی زمین بوس کرنے میں کوئی دشواری نہیں ہوئی
یہ تو غریب قوم کا صبر کام آیا کہ ایک کچھ غیر ملکیوں کے ہاتھوں جاری ہونے والی تفصیلات میں نواز شریف کے غیر ظاہر شدہ اثاثے بھی سامنے آ گئے اور جب اس پر شور شرابا ہونے کے باوجود کسی قومی ادارے نے اس کے خلاف از خود کوئی کاروائی نہیں کی تو عمران خان اس معاملے کو سپریم کورٹ میں
5/66
لے گیا اور وہاں نوازشریف کی اپنی وزارت عظمیٰ کے دوران کی ایک غیر ملکی (اپنے بیٹے کی کمپنی میں) نوکری، غیر ظاہر کردہ تنخواہ اور غیر ملکی اقامہ بھی سامنے آ گیا
نوازشریف کی بدقسمتی تھی کہ 2 وجوہات اس کے آڑے آ گئیں، اول یہ کہ اس نے اپنی تین حکومتوں میں وزیر اعظم کے لیے غیرملکی
6/66
نوکری، اقامے یا تنخواہ کو قانونی تحفظ نہیں دلوایا تھا اور دوئم یہ کہ اس وقت اسے ویسی سپریم کورٹ بھی میسر نہیں تھی جیسی آج #قاضی_فائز_عیسیٰ کو "انصاف" دینے والی سپریم کورٹ موجود ہے، نتیجتاً سپریم کورٹ نے اسے وزارت عظمیٰ کے منصب کے لیے تا حیات نا اہل قرار دے دیا اور اس کے
7/66
اثاثوں کی چھان بین کے لیے تحقیقات شروع کروا دیں اور پھر معاملہ احتساب عدالت میں گیا تو اسے ایون فیلڈ پیلس کو اپنی جائز آمدنی سے بنایا ہوا اثاثہ ثابت نہ کر سکنے پر 10 سال کی سزا بھی سنائی گئی، ورنہ تو وہ آج بھی اپوزیشن لیڈر بن کے ملک اور قوم کی چھاتی پر مونگ دل رہا ہوتا
8/66
نواز شریف کو جب تیسری بار وزارت عظمیٰ سے اتارا گیا تو پاکستان کے تمام اثاثے گروی، قوم اپنی نسلوں سمیت قرضوں کی دلدل میں اور خزانہ خالی تھا جبکہ شریف خاندان کے بچے پیدا ہونے سے پہلے ہی ارب پتی تھے مگر اس کے باوجود نظام انصاف کا قاتل نواز شریف سزا و جزا سے اس قدر بے نیاز تھا
9/66
کہ بھری محفلوں میں پوری ڈھٹائی سے یہ تک کہتا ہوا ملتا تھا کہ "اگر ہمارے اخراجات ہماری آمدن سے زیادہ ہیں تو
تمہیں کیا؟"، وہ جانتا تھا کہ عدالتوں میں اتنی سکت نہیں ہے کہ وہ اسے کوئی سزا دے سکیں
خفیہ اداروں کے اراکین پر مشتمل جے آئی ٹی کی وجہ سے نواز شریف کو 10 سال کی سزا
10/66
ہوئی تو اس نے نومبر 2019 میں لاھور ہائی کورٹ سے صرف 50 روپے کے بیان حلفی کے عوض لیے ہوئے عدالتی حکم پر سب کی آنکھوں کے سامنے جیل سے برطانیہ فرار ہو کے ثابت بھی کر دکھایا کہ اس کے لیے یہ عدالتیں عدالتیں نہیں بلکہ سہولت کار اور حکم کی غلام ہیں
نوازشریف کو 50 روپے میں فراری
11/66
پروانہ دینے والے جج صاحب کی اپریل 2021 میں شہبازشریف کے آمدن سے زائد اثاثہ جات کیس میں ضمانت کی درخواست سنتے ہوئے دوبارہ آواز سنائی دی تو وہ یہ تھی کہ "نیب والو، یہ جو شہبازشریف تک اس کی آمدنی سے زیادہ پیسے پہنچے کیا تم نے اس کا کھوج لگایا کہ وہ اس کے پاس کیسے آئے؟"
12/66
تو جواب شہبازشریف کا اپنا وکیل دیتا ہے کہ "اسہی سوال کا تو ان کے پاس جواب نہیں ہے" جس پر عدالت شہبازشریف کی ضمانت منظور کر کے اسے رہا کرنے کا حکم دے دیتی ہے
جبکہ نیب قوانین میں یہ صاف درج ہے کہ یہ بتانا یا کھوج لگانا نیب کی ذمہ داری نہیں ہے کہ کسی
شخص نے اپنی آمدن سے زائد پیسے یا اثاثے کہاں سے یا کیسے بنائے؟ نیب قوانین کے تحت اس سوال کا بار ثبوت ملزم پر ہے کہ وہ ثابت کرے کہ اس کے جن اثاثوں پر نیب نے آمدن سے زائد ہونے کا الزام عائد کیا ہے وہ اثاثے اس نے جائز آمدنی سے بنائے ہیں
14/66
قاسم خان کا 31 مارچ 2021 کو شریف مافیا کے کیس سننے والے جج صاحبان سمیت 25 جج صاحبان کے تبادلے کرنا بھی یقیناً اسہی پلاننگ کا حصہ تھا کہ شہبازشریف وغیرہ کو رکی ہوئی سماعتوں کے بہانے ضمانتیں طلب کرنے کا جواز ملے اور انہیں ضمانت دینے میں بھی آسانی رہے
قاسم خان کا کام کرتی ہوئی عدالتیں بند کر کے انہیں تالے ڈلوانا اور شہبازشریف، حمزہ، سعد رفیق، سلمان رفیق، خواجہ آصف اور راناثناءاللہ وغیرہ کا تمام عدالتی ریکارڈ بوریوں میں بھروا کے عدالتی کاٹھ کباڑ والے اسٹور روم میں پھینکنا بھی
صاف بتاتا ہے کہ اسے شہبازشریف وغیرہ کے ملک سے فرار ہو جانے پر یقین تھا اور چونکہ شہباز شریف کی غیر موجودگی میں اس کا ٹرائل بھی رک جانا تھا اس لیے اس نے اپنی دانست میں شہباز شریف وغیرہ کے تمام ہائی پروفائل کیسوں کا عدالتی ریکارڈ سنبھال کے اسٹور روم میں رکھوا دیا تھا
17/66
پروگرام کے عین مطابق شہباز شریف نے اپنی ضمانت کی درخواست دائر کی تو قاسم خان نے اسے ضمانت دینے کے لیے دو رکنی بنچ بنا دیا لیکن جسٹس اسجد جاوید گھرال نے ضمانت منظور کرنے سے انکار کر دیا مگر اس کے باوجود 14 اپریل 2021 کو جسٹس سرفراز ڈوگر نے اپنے
نائب قاصد سے یہ اعلان کروا دیا کہ شہباز شریف کی ضمانت منظور کر لی گئی ہے اور اس کے بعد دو روز تک قاسم خان یہ کوشش کرتا رہا کہ جسٹس اسجد جاوید گھرال بھی ضمانت کے فیصلے پر دستخط کر دیں لیکن جسٹس اسجد جاوید گھرال نہ صرف اپنے انکار پر ڈٹے رہے بلکہ انہوں نے اپنے فیصلے میں وہ
19/66
تمام تفصیلات بھی جاری کر دیں جن کی وجہ سے شہباز شریف کو ضمانت پر رہا کیا ہی نہیں جا سکتا تھا
قاسم خان جسٹس اسجد کو منانے میں ناکام رہا تو اس نے کسی ایک ریفری جج کے پاس معاملہ بھیجنے کی بجائے شہباز شریف کی ضمانت منظور کرنے کے لیے جسٹس باقر نجفی کی سربراہی میں تین رکنی بنچ
20/66
بنا کے کھلی انتقامی کاروائی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اسہی روز جسٹس اسجد جاوید گھرال کا بہاولپور بنچ میں تبادلہ بھی کر دیا
شہبازشریف عید سے پہلے ہی پاکستان سے فرار ہونے کی پوری تیاری میں تھا اور اس کے دیرینہ خدمت گزار #قاسم_خان کے بھرپور اشتراک سے
#لاھور_ہائی_کورٹ کے تمام مہرے اس کی مکمل معاونت کر رہے تھے اور یہی وجہ تھی کہ 14 اپریل کو ضمانت منظور نہ ہونے پر قاسم خان نے شہبازشریف کی ضمانت آنکھیں بند کر کے منظور کرنے کے لیے تین رکنی بنچ میں جو تین ہیرے اکٹھے کیے تھے انہوں نے 22 اپریل کو جن نکات پر شہباز شریف کی ضمانت
22/66
منظور کی اسے کوئی جج کھلی آنکھوں سے منظور کر ہی نہیں سکتا تھا
شہباز شریف کو فرار کروانے کی سازش میں قاسم خان کی معاونت کا اس بات سے بھی پتہ چلتا ہے کہ 22 اپریل کو شہباز شریف کی ضمانت ہونے کے ٹھیک دو روز بعد ہی قاسم خان نے 24 اپریل کو متاثرین سانحہ
ماڈل ٹاون کی وہ درخواستیں نپٹانے کے لیے 7 رکنی بنچ تشکیل دے کر 29 اپریل کو اس کی پہلی سماعت بھی مقرر کر دی جنہیں وہ سپریم کورٹ کے حکم کے باوجود 14 مہینے سے صرف اس لیے ٹالتا آ رہا تھا کہ شہباز شریف کی پاکستان میں موجودگی کے دوران انہیں نپٹانا اپنے
ہی ہاتھوں شہباز شریف کے گلے میں پھانسی کا پھندا ڈالنے کے مترادف تھا
قاسم خان کو پورا یقین تھا کہ ان درخواستوں کا فیصلہ ہونے سے پہلے ہی شہبازشریف ملک سے نکل چکا ہو گا یقیناً وہ دونوں اس وقت تک نہیں جانتے تھے کہ شہباز شریف کا نام FIA کی کسی سٹاپ لسٹ میں ہے لیکن یہ بات ان سے
25/66
زیادہ دیر تک پوشیدہ بھی نہیں رہی اور جونہی انہیں پتہ چلا کہ شہباز شریف کا نام FIA کی کسی لسٹ میں ہے اور اس کا فرار مشکل ہے تو قاسم خان نے 24 اپریل کو بنائے ہوئے لارجر بنچ کو ایسے بھلایا جیسے وہ بنایا ہی نہیں تھا اور اس کی پہلی سماعت تک نہیں کی جو اس نے 29 اپریل کو کرنی تھی
26/66
سپریم کورٹ نے 13 فروری 2020 کو حکم جاری کیا تھا کہ لاھور ہائی کورٹ، متاثرین #سانحہ_ماڈل_ٹاؤن کی دائر شدہ وہ تمام درخواستیں 90 دنوں میں نپٹائے جو ان متاثرین نے لاھور ہائی کورٹ کے 22 مارچ 2019 والے فیصلے کے خلاف دائر کی تھیں
22 مارچ 2019 کو LHC کے 3 رکنی بنچ میں سے جسٹس ملک شہزاد احمد خان اور جسٹس مس عالیہ نیلم نے سانحہ ماڈل ٹاؤن کی تحقیقات کرنے والی نئی JIT کو کام کرنے سے روکنے کا فیصلہ سنایاتھا جبکہ اس بنچ کے سربراہ جسٹس قاسم خان نے فیصلے میں اپنا اختلافی نوٹ لکھا تھا
19 مارچ 2020 کو جب قاسم خان نے چیف جسٹس لاھور ہائی کورٹ کا حلف اٹھایا تو اس کی میز پر متاثرین سانحہ ماڈل ٹاؤن کی درخواستیں تقریباً ایک سال سے اور ان درخواستوں کو نپٹانے کا سپریم کورٹ کا حکم نامہ 34 روز پہلے سے موجود تھا
29/66
سوال یہ ہے کہ چیف جسٹس کی کرسی پر 473 دن بیٹھنے والے قاسم خان نے سپریم کورٹ کا واضح حکم موجود ہونے کے باوجود متاثرین سانحہ ماڈل ٹاؤن کی درخواستوں کا وہ انبار کیوں نہیں نپٹایا جو ایک ایسے فیصلے کے خلاف تھا جس میں درج واحد اختلافی نوٹ بھی اس کے اپنے ہی ہاتھ کا لکھا ہوا تھا؟
30/66
(اگر میں نے کسی بنچ کے رکن کی حیثیت میں اپنے ساتھی ارکان @AzharSiddique اور @adv_ghaffar1 کے رٹ پٹیشن منظور کرنے والے فیصلے کو قانون اور انصاف کے تقاضوں پر پورا نہ سمجھتے ہوئے اپنا اختلافی نوٹ لکھا ہوا ہو اور چیف بننے کے بعد میرے سامنے اسہی فیصلے کے خلاف صرف ایک درخواست
31/66
بھی آ جائے تو میں تو اس درخواست کو #سبیل_من_جانب_اللہ تصور کرتے ہوئے اسے سننے کا فوری بندوبست کروں گا تاکہ 1-2 سے پٹیشن منظور کرنے والا فیصلہ جلد از جلد اس غلطی سے پاک ہو جس کی نشاندہی میرے اپنے اختلافی نوٹ میں موجود تھی اور مجھے وہ درخواست نپٹانے کے لیے کسی اعلیٰ عدالتی
32/66
حکم کی ضرورت بھی بالکل نہیں ہو گی، میں اسے نپٹانے کا بندوبست نہ صرف خود کروں گا بلکہ جلد از جلد کروں گا
اور اگر میں چیف بننے کے بعد اپنی میز پر پہلے دن سے موجود اختلافی درخواستوں اور ان درخواستوں کو 90 دنوں میں نمٹانے کے سپریم کورٹ کے حکم کے باوجود 473 دن چیف کی کرسی پر
33/66
بیٹھ کے ریٹائر تک ہو جاتا ہوں اور کوئی ایک درخواست بھی نہیں نمٹاتا تو میں اپنا یہ عمل کسی بھی منطق، فلسفے یا ریاضی کے فارمولے سے درست ثابت نہیں کر سکتا، میرے پاس اپنی صفائی میں پیش کیا جا سکنے والا ایسا کوئی ایک بھی جواز نہیں ہو گا جو کسی بھی زبان میں بیان کیا جا سکے)
34/66
اب آپ خود ہی فیصلہ کریں کہ سابق چیف جسٹس لاھور ہائی کورٹ جسٹس محمد قاسم خان یہ سچ کیسے بولتا اور اگر بولتا تو وہ یہ سچ بولتا ہوا کیسا لگتا کہ سانحہ ماڈل ٹاون کی تحقیقات کرنے والی نئی JIT کا نوٹیفیکیشن معطل کرنے والے 22 مارچ 2019 کے فیصلے میں اس نے اپنا اختلافی نوٹ دراصل
35/66
جسٹس ملک شہزاد احمد خان اور جسٹس مس عالیہ نیلم کے فیصلے سے اختلاف کی وجہ سے نہیں بلکہ احتیاط کی وجہ سے لکھا تھا؟
اس کے لیے یہ وزن بھی یقیناً زیادہ تھا کہ 21 مارچ 2019 کو سانحہ ماڈل ٹاؤن کی از سر نو تحقیقات کرنے والی پنجاب حکومت کی بنائی ہوئی نئی JIT کو کام سے روکنے کی
36/66
پٹیشن دائر ہونے کے بعد اس کی اپنی سربراہی میں بنائے گئے 3 رکنی ہنگامی بنچ میں بطور سربراہ (رجسٹرار ہائی کورٹ کے بعد) یہ اس کی اپنی ذمہ داری تھی کہ وہ فریقین کو نوٹس جاری کر کے بلاتا اور ان کی موجودگی میں سماعت کرتا لیکن اس نے اس معاملے کے واحد اور اہم ترین فریق
37/66
ایڈووکیٹ جنرل پنجاب احمد اویس کو رجسٹرار کی جانب سے نوٹس جاری نہ کیے جانے پر خود بھی نہیں بلایا اور صرف پٹیشنرز کی موجودگی میں ان کی پٹیشن منظور کرنے کی جاری کاروائی پر اپنی آنکھیں بند کیے رکھیں اور پھر جسٹس ملک شہزاد احمد خان اور جسٹس مس عالیہ نیلم نے پنجاب حکومت کے موقف
38/66
کی عدم موجودگی کے باوجود 22 مارچ کے ایک ہی دن میں 3 سماعتیں کر کے پٹیشن منظور کر لینے کا وزن اٹھایا تو اس نے اس پر خاموش رہنے کا وزن اٹھا لیا
19 مارچ 2020 کو لاھور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس بننے کی قطار میں کھڑے قاسم خان کے لیے اس سے زیادہ وزن اٹھانا واقعی ممکن نہیں تھا، ایسے
39/66
یصلے میں شامل ہو کے وہ چیف جسٹس بننے کی قطار سے نکالے جانے کا خطرہ مول نہیں لے سکتا تھا اسہی لیے اس کا اختلافی نوٹ لکھنا پہلے سے ہی طے تھا جس کے بارے میں یقینی طور پر بنچ بنانے والے بھی جانتے تھے اور بنچ کے دیگر دونوں اراکین بھی، اور یہی وجہ تھی کہ اس نے اختلافی نوٹ بھی
40/66
فقط اتنا ہی واجبی سا اختلافی لکھا کہ بس وہ فیصلے میں شمار نہ ہو
جو یہ سوچ رہے ہیں کہ نئی JIT کو کام سے روکنے کیلیے اتنی افراتفری اور سبک رفتاری سے کام کیوں لیا گیا، وہ نئی JIT کے قیام سے اسے کام سے روکنے تک کے اس چھوٹے سے جائزے میں مزید میرے ساتھ رہیں، ان شاء اللہ انہیں
41/66
لگی ہوئی وہ آگ بھی اپنی آنکھوں سے ہی دکھائی دے گی جس کی وجہ سے یہ سب افراتفری مچائی گئی تھی اور ہر کوئی دوسروں کا وزن اٹھائے پھر رہا تھا
اکتوبر 2018: سانحہ ماڈل ٹاون کی ایک متاثرہ بچی بسمہ امجد نے اکتوبر 2018 میں چیف جسٹس ثاقب نثار کو تمام متاثرین سانحہ ماڈل ٹاون کی جانب
42/66
سے درخواست پیش کی جس میں یہ گزارش کی گئی تھی کہ شہباز شریف اور اس کی پنجاب حکومت کی کروائی ہوئی یک طرفہ تحقیقات ناقص اور ناقابل اعتبار ہیں اس لیے وہ چاہتے ہیں کہ سپریم کورٹ ایک نئی JIT بنوائے جس سے سانحہ ماڈل ٹاون کی از سر نو تحقیقات کروائی جا سکیں
نومبر 2018: چیف جسٹس ثاقب نثار نے بسمہ امجد کے ذریعے موصول ہونے والی متاثرین سانحہ ماڈل ٹاون کی درخواست پر سماعت کی اور اسے اپنے از خود نوٹس سے بدل دیا اور اسہی روز اپنی ہی سربراہی میں سپریم کورٹ کا 5 رکنی بنچ تشکیل دے دیا جس کا مقصد
کروانے پر کوئی اعتراض نہیں، جس پر اس بنچ نے کہا کہ اگر پنجاب حکومت کو کوئی اعتراض نہیں ہے تو وہ اس ضمن میں ضروری اقدامات کر کے عدالت کو جلد از جلد آگاہ کرے
3 جنوری 2019: پنجاب حکومت نے IG موٹرویز اے ڈی خواجہ کی سربراہی میں
۔#ISI کے لیفٹیننٹ کرنل محمد عتیق الزمان، #MI کے لیفٹیننٹ کرنل عرفان مرزا اور #IB کے ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل محمد احمد کمال کے علاوہ DIG ہیڈ کوارٹرز پولیس گلگت بلتستان قمر رضا جسقانی پر مشتمل نئی JIT تشکیل دے دی اور چیف سیکٹری پنجاب نے اس کا نوٹیفیکیشن بھی جاری کر دیا جس کے
47/66
بارے میں سپریم کورٹ کے 5 رکنی بنچ کو بھی فوری طور پر مطلع کر دیا گیا، جس پر چیف جسٹس ثاقب نثار نے بسمہ امجد کے ذریعے نئی JIT کی تشکیل کیلیے موصول شدہ متاثرین سانحہ ماڈل ٹاون کی درخواست بھی نپٹا دی اور نئی JIT کی تشکیل کیلیے بنایا ہوا سپریم کورٹ کا وہ 5 رکنی بنچ بھی
48/66
تحلیل کر دیا جس کا مقصد نئی JIT کے تشکیل پا جانے سے حاصل ہو چکا تھا
20 مارچ 2019: 3 جنوری 2019 کو تشکیل پانے والی نئی JIT نے ایک لمحہ بھی ضائع کیے بغیر فوری طور پر اپنا کام شروع کر دیا تھا اور اس کی برق رفتاری کا عالم یہ تھا کہ وہ 20 مارچ 2019 کو اپنی فہرست میں موجود سب
49/66
سے آخری شخص (نواز شریف) سے تحقیقات کرنے کیلیے کوٹ لکھ پت جیل میں موجود تھی جہاں اس نے نواز شریف سے دو گھنٹے سے زیادہ پوچھ گچھ کی جس کے بعد اس کا کام صرف اپنی رپورٹ مرتب کرنے تک کا ہی بچا تھا اور یہی وہ مقام تھا جہاں آگ لگی تھی
اس نئی JIT کی صرف دو گھنٹے کی تحقیقات میں ن لیگی شیر کہلانے والے نواز شریف کی پوری شلوار گیلی ہو چکی تھی اور اسے پھانسی کا پھندا اپنے گلے پر محسوس ہو رہا تھا اسہی لیے اس نے ادھم مچا کے آسمان سر پر اٹھا لیا تھا اور اپنے تمام مہرے ایک ساتھ متحرک کر کے JIT اور اس کی رپورٹ
51/66
روکنے پر لگا دیے تھے۔ سچ پوچھیں تو نواز شریف کے پاکستان سے دم دبا کے بھاگنے کے پیچھے بھی سانحہ ماڈل ٹاون کی تحقیقات کرنے والی نئی JIT میں شامل ISI, MI اور IB کے وہ افسران ہی تھے جن کے سامنے صرف دو گھنٹے بیٹھنے نے ہی اس کی حالت پتلی کر دی تھی
52/66
21 مارچ 2019: نوازشریف سے تحقیقات ہونے کے ٹھیک اگلے ہی روز یعنی 21 مارچ 2019 کو ایک پولیس انسپیکٹر رضوان قادر ہاشمی اور کانسٹیبل خرم رفیق اپنے وکلا (جن میں اعظم نذیر تارڑ، برہان معظم ملک، سید زاہد بخاری سمیت دیگر وکلا بھی شامل تھے) کے ذریعے لاھور ہائی کورٹ میں پیش ہوئے اور
53/66
(نوٹ: عدالتی فیصلے سے ان پٹیشنرز کی مراد اس مقدمے کا فیصلہ تھا جو شہباز شریف نے اپنی ہی بنائی ہوئی متنازعہ ترین JIT کی یک طرفہ تحقیقاتی رپورٹ اور اپنی ہی مدعیت میں سانحہ ماڈل ٹاؤن کے مقتولین کے مظلوم ورثا اور زخمیوں کے خلاف درج کروایا تھا)
55/66
21 مارچ 2019: لاھور ہائی کورٹ کی پھرتیاں
لاھور ہائی کورٹ نے رٹ پٹیشن موصول ہوتے ہی جسٹس قاسم خان کی سربراہی میں جسٹس عالیہ نیلم اور جسٹس ملک شہزاد پر مشتمل 3 رکنی بنچ تشکیل دے کر اگلے ہی روز کی سماعت مقرر کر دی اور وہ سماعت مقرر کرتے ہوئے رجسٹرار لاھور ہائی کورٹ نے
56/66
اس بات کا خاص خیال رکھا کہ اس کیس کے اہم ترین اور واحد فریق یعنی حکومت پنجاب/ایڈووکیٹ جنرل پنجاب کو کوئی نوٹس جاری نہ ہونے پائے (اگر رجسٹرار لاھور ہائی کورٹ نے مقدمہ کی سماعت کے لیے ایک اہم فریق کو نوٹس جاری نہیں کیا تھا تو یہ سماعت کرنے والے بنچ کی ذمہ داری تھی کہ وہ
57/66
اس فریق کو نوٹس جاری کرتا اور فریقین کی موجودگی میں پٹیشن پر سماعت کرتا مگر قاسم خان نے ایسا نہیں کیا)
22 مارچ 2019: لاھور ہائی کورٹ کے 3 رکنی بنچ نے اس پٹیشن پر ایک ہی دن میں 3 سماعتیں کیں اور مخالف فریق (حکومت پنجاب) کا کوئی بھی موقف لیے بغیر اسی روز شام کے وقت فیصلہ
58/66
سناتے ہوئے سیکٹری پنجاب کا وہ نوٹیفیکیشن ہی معطل کر دیا جس سے پنجاب حکومت نے 3 جنوری 2019 کو نئی JIT تشکیل دی تھی
اہم فریق کی موجودگی کے بغیر سنایا جانے والا یہ فیصلہ یقیناً کسی قانون کو نہیں بلکہ نوازشریف کی پریشانی دیکھ کر سنایا گیا تھا
ایڈووکیٹ جنرل پنجاب احمد اویس کا دفتر لاھور ہائی کورٹ میں اس عدالت سے چند قدم کے فاصلے پر ہی تھا، دن بھر سے جاری اس سماعت کی بھنک ملنے پر وہ فیصلہ سنائے جانے سے کچھ دیر پہلے عدالت پہنچے اور کاروائی میں شامل نہ کرنے پر انہوں نے اپنا احتجاج کا حق استعمال کیا جو کہ جسٹس عالیہ
60/66
نیلم اور جسٹس ملک شہزاد کو ناگوار گزرا جس پر ان دونوں نے ایڈووکیٹ جنرل پنجاب کو اگلے ہی روز توہین عدالت کے نوٹس جاری کر دیے اور ان کے خلاف توہین عدالت کی کاروائی بھی شروع کر دی جس کے نتیجہ میں احمد اویس کو اپنا عہدہ تک چھوڑنا پڑا تھا
یہ شریف برادران کی نمک حلالی کا ہی ثبوت تھا کہ قاسم خان نے بطور چیف جسٹس لاھور ہائی کورٹ اپنے پورے دور میں نئی JIT کو کام سے روکنے والے فیصلے کے خلاف متاثرین سانحہ ماڈل ٹاون کی درخواستیں سپریم کورٹ کے حکم کے باوجود نہیں نپٹائیں اور اس کی وجہ یہ تھی کہ اگر وہ سماعتیں کر کے
61/66
درخواستیں مسترد بھی کر دیتا تو اس فیصلے کے خلاف درخواست گزاران کو سپریم کورٹ سے رجوع کرنے کا جواز مل جاتا اور سپریم کورٹ اپنے ایک ایسے بنچ میں تشکیل دی گئی نئی JIT کو بحال کر سکتی تھی جس بنچ کا مقصد ہی نئی JIT کی تشکیل تھا اس لیے یہ بات یقینی ہے کہ شریف برادران کا کوئی بھی
62/66
خیر خواہ شریف برادران کے ملک میں موجود ہوتے ہوئے ان درخواستوں کو کبھی نہیں نپٹائے گا اور جب تک سپریم کورٹ میں شریفوں کے نمک خوار ہیں تب تک کوئی لاھور ہائی کورٹ سے یہ بھی نہیں پوچھے گا کہ اس نے 13 فروری 2019 کو جو 90 روز میں درخواستیں نپٹانے کا حکم دیا تھا اس کا کیا بنا؟
63/66
22اپریل 2021 کو شہبازشریف کی ضمانت پر رہائی کے فوری بعد 24اپریل 2021 کو متاثرین سانحہ ماڈل ٹاون کی درخواستیں سننے کیلیے قاسم خان کا اپنی سربراہی میں سات رکنی بنچ تشکیل دے کر 29 اپریل کو اس بنچ کی پہلی سماعت مقرر کرنا یہی بتاتا ہے کہ اسے یقین تھا کہ
شہباز شریف اس بنچ کے فیصلے سے پہلے ہی فرار ہو چکا ہو گا اور اگر اس نے شہباز شریف کے فرار کے بعد یہ بنچ بنایا تو اس پر سوال اٹھیں گے کہ اس نے یہ بنچ بنانے کے لیے شہباز شریف کے فرار کا انتظار کیوں کیا؟
لوگ کہتے ہیں کہ قاسم خان کی مدت ملازمت ختم ہونے کے بعد لاھور ہائی کورٹ
65/66
اب شریف برادران کے خیر خواہوں کے ہاتھ میں نہیں رہی، میں یہ تب تسلیم کروں گا جب لاھور ہائی کورٹ شہبازشریف کی زندگی+پاکستان میں موجودگی میں متاثرین سانحہ ماڈل ٹاون کی درخواستیں انصاف کے تقاضوں کے عین مطابق نپٹائے گی
اللہ کرے کہ لوگ ٹھیک ہی کہتے ہوں۔ آمین
ندیم زیدی۔ لاھور
66/66
A Missed Tweet
انہوں نے ایک رٹ پٹیشن میں یہ موقف اختیار کیا کہ "نئی JIT کی تشکیل سے متعلق سپریم کورٹ کا کوئی حکم موجود نہیں ہے اور نئی JIT کی وجہ سے ماڈل ٹاون کا ٹرائل متاثر ہو رہا ہے اس لیے عدالت نئی JIT کو کالعدم قرار دے اور عدالتی فیصلہ آنے تک نئی JIT کو تحقیقات سےروکے
اپنے بیوی بچوں کے آمدن سے زائد اثاثوں کا جواب نہ دے سکنے والے #قاضی_فائز_عیسیٰ کو #قائد_اعظم_محمد_علی_جناحؒ کے ساتھ اپنے باپ کی چند تصویروں سے خود ساختہ کہانیاں منصوب کر کے سوال و جواب اور جزا و سزا سے مبرا ہونے کی کوشش کرتے دیکھا تو مجھے قائد اعظم کی اصول پسندی کے
وہ واقعات یاد آ گئے جن سے واقف کوئی بھی شخص آنکھیں بند کر کے کہہ سکتا ہے کہ اگر آج قائد اعظم موجود ہوتے تو وہ قاضی فائز عیسیٰ یا اس جیسے کسی بھی شخص کو (خواہ وہ ان کا اپنا سگا بھائی ہی کیوں نہ ہوتا) اپنے ہاتھوں سے نشان عبرت بنا دیتے
اس تھریڈ میں تاریخ کے اوراق سے چنے ہوئے
2/17
کچھ ایسے ہی واقعات پیش کر رہا ہوں جنہیں پڑھ کے آج کی نئی نسل بھی #بابائےقوم اور ان کی #اصول_پسندی کو آسانی سے سمجھ سکے گی
1947 میں پاکستان بننے کے چند ہفتے بعد کا ہی ایک واقعہ ہے کہ قائد اعظم کے بھائی #احمدعلی گورنر جنرل ہاؤس میں قائد اعظم سے ملنے کے لیے آئے تو انہوں نے
30سے50 سالہ تجربہ کار اپوزیشن، عمران خان کو تبدیل کرنےکی بات تو کرتی ہےلیکن عمران خان کی اُس لُولی لنگڑی حکومت کو گرا کےاپنی حکومت بنانےکی کبھی کوئی بات نہیں کرتی جو #آزاد#MQM#PMLQ#GDA اور #BAP کے (24 اتحادی) ملانے کے باوجود صرف 6 سیٹوں کی برتری پر ہی ٹکی ہوئی ہے
(مجھے یاد نہیں کہ پاکستان کی 73 سالہ تاریخ میں اتنی کمزور اور نازک حکومت کسی اور کی بھی کبھی کوئی گزری ہے کہ نہیں؟ جتنی کمزور اور نازک حکومت عمران خان کی دیکھنے میں آئی ہے)
حق تو یہ ہے کہ 24 اتحادیوں میں 2018 سے پہلے تک کے ن لیگ اور پیپلزپارٹی سے تعلق رکھنے والے وہ
2/25
20 #الیکٹ_ایبلز بھی شامل کیے جائیں جن کے بارے میں مجھ سمیت کوئی نہیں جانتا کہ وہ #تحریک_انصاف میں شامل ہونے کیلیے خود سے آئے تھے یا نون لیگ اور پیپلزپارٹی سے نکال کے اچانک #PTI میں شامل کر دی جانے والی وہ ہستیاں #سسلیئن_مافیا اور #بھٹو_مافیا کی ہی کسی شاطرانہ چال کی تکمیل
3/25
This order is globally the most used #JudicialPrecedent till today, to disqualify such judges and to set aside their orders who acted being judges in their own cause.
موصوف نے بتایا کہ جج صاحبان نے اپنے مقصد کیلیےفیصلہ سنایا
2/38
اعتزاز احسن صاحب
دل تو نہیں مانتا لیکن مان لیتا ہوں کہ آپ نے اپنے اس بیان میں ناجائز اثاثے رکھنے والے جج صاحبان کو کوئی مشورہ نہیں دیا تھا بلکہ قوم کو صرف خبر ہی دی تھی
دل یہ بھی نہیں مانتا لیکن یہ بھی مان لیتا ہوں کہ آپ کو قاضی فائز عیسیٰ کے کیس اور اسے سننے والے جج حضرات
3/38
جو سمجھ رہے ہیں کہ #قاضی_فائز_عیسیٰ جیسے مرض کا جو فیصلہ ہوناتھا وہ ہو چکا اور اب کچھ نہیں ہوسکتا وہ ہرگز مایوس نہ ہوں، یہ کوئی موت نہیں کہ اسکا علاج ہی نہ ہو
مجھے کچھ ایسی جڑی بوٹیاں ملی ہیں جن میں اس مرض کا علاج صاف نظر آتا ہے، اللہ نے چاہا تو شام تک دوائی لے کر ہی آؤں گا 🙏😅
لیں جناب دوائی حاضر ہے
1852 کا وہ عدالتی فیصلہ جو آج تک ساری دنیا میں #عدالتی_نظیر بن کے ایسے بے شمار جج حضرات کو ان کے عہدوں سے برطرف کروانے سمیت ان کے فیصلے ختم کروانے کا باعث بن چکا ہے جو دوسروں کے کیس بھی اپنے مقصد کیلیے سننے میں ملوث پائے گئے
فیصلہ کرنے والے جن جج صاحبان نے قاضی فائز عیسیٰ کے ناجائز اثاثوں پر کوئی جواب طلبی کیے بغیر اور اثاثے بنانے کی کوئی منی ٹریل لیے بغیر یہ فیصلہ سنایا کہ قاضی فائز عیسیٰ کا کیس #SJC میں نہیں بھیجا جا سکتا اور کوئی دوسرا ادارہ بھی کاروائی نہیں کر سکتا ان کے اپنے ناجائز اثاثوں کے 👇
کیسے کا جواب یہ ہے کہ جو جو بھی یہ ٹویٹ دیکھ رہے ہیں وہ آج سے ہی کام شروع کریں اور اپنے خاندان اور محلہ میں ہر ایک کا ووٹ بنوائیں اور اگلے الیکشن میں اپنے خاندان اور محلہ کے ہر اس شخص سے بھی ووٹ کاسٹ کروائیں جس نے پہلے کبھی کوئی ووٹ کاسٹ نہ کیا ہو 🙏
🔸۔#GSP کیا ہے؟
🔸پاکستان کے #GSP سے نکلنے کی کیا وجوہات اور کیا محرکات ہیں؟
🔸۔#GSP سے نکلنے کے نقصانات کیا ہیں؟
🔸کیا #GSP سے نکلنے کا کسی کو کوئی فائدہ بھی ہے، اگر ہے تو کسے اور کیا فائدہ ہے؟
🔸Generalized Scheme of Preferences (GSP)
یورپی یونین میں
1/17
شامل ممالک اس سکیم یا ٹریڈ پالیسی کےتحت ہم جیسےترقی پذیر اور غریب ممالک کو ڈیوٹی فری تجارت کا موقع دیتےہیں، اس سکیم کےتحت وہ ہم سےہماری مصنوعات پر امپورٹ ڈیوٹی نہیں لیتےجس کی وجہ سےان ممالک میں ہماری مصنوعات کی قیمتیں کم رہتی ہیں اور ہمیں ان کی فروخت میں کوئی دقت نہیں ہوتی
2/17
جی ایس پی سے نکلنے کے بعد یہ ہو گا کہ یورپی یونین میں شامل ممالک ہماری مصنوعات پر امپورٹ ڈیوٹی عائد کرنی شروع کر دیں گے اور ہماری مصنوعات کی قیمتیں پہلے والی نہیں رہیں گی جس کی وجہ سے ہمارے شاید وہ تمام سودے یک مشت منسوخ ہو جائیں جو پہلے سے طے تھے اور نئے سودوں کا حصول بھی
3/17