#Temple #architecture
رانا محل گھاٹ (دریائے گنگا کنارے، وارانسی، بھارت)
Rana Mahal Ghat, Varanasi (Uttar Pradesh, India)
1670ء میں اودے پور کے مہاراجہ کا تعمیرکردہ مقدس دریائےگنگا کنارے یہ شاہکارھندوستان کےمقدس ترین مقامات میں سے ایک ھےاوراپنی حسین لوکیشن کی بدولت توجہ کھینچتاھے۔
خیال کیاجاتاھے کہ یہ بھگوان شیو کا گھر تھا۔
زیادہ تر گھاٹ غسل اور پوجاکی تقریب کے گھاٹ ہیں جبکہ کچھ کوخصوصی طور پر شمشان گھاٹ کےطور پر استعمال کیا جاتا ھے۔
وارانسی کےزیادہ تر گھاٹ 1700عیسوی کے بعد بنائےگئےتھے، جب یہ شہر مراٹھا سلطنت کاحصہ تھا۔ موجودہ گھاٹوں کےسرپرست 'مراٹھے' ہیں۔
رانا محل دراصل آرائشی اور سجاوٹی راجپوت فن تعمیر کے دلدادہ رانا جگیت سنگھ کی اودے پور کے عظیم وژن اور دور اندیشی کی یاد دہانی ھے۔
تقریباً 86 گھاٹ بنارس میں دریا گنگا کے کنارے کو گھیرے ھوئے ہیں لیکن رانا محل کی شاندار فن تعمیر اسے دوسروں سے الگ اور ممتاز کرتی ھے۔
آج جہاں کبھی محل
ھوا کرتا تھا، ہوٹلز کی لمبی قطاریں ہیں۔ lس وقت کی سرخ اینٹوں سے بنا شاندار راجپوت محل راجستھانی فن تعمیر کا ایک بہترین نمونہ گنگا کنارے گھاٹ پر کھڑا ھے۔
#architecture #Peru
Rock-Cut Art
Dwelling of gods (Peru)
"دیوتاؤں کا گھر" (پیرو)
نہ فیک، نہ فوٹو شاپ، نہ ایڈیٹنگ
لیکن ناقابل یقین ضرور
کیونکہ انسانی ہاتھ سےبنا یہ چٹانی طرزِ تعمیر (Rock-Cut Architecture) دیکھ کرسب سےپہلے یہی ذہن میں آتاھے۔
جنوبی امریکی ملک پیرو کےشہر کسکو (Cusco)
جوہمیں حیران کرنےسےبازنہیں آتاکیونکہ نئے کھدائی شدہ کھنڈرات، دریافتوں کی وجہ سےیہ شہر کبھی بھی ساکن نہیں رہا!
پیروجو پہلےہی عالمی آرکیالوجیکل سائیٹ Macchu Pichchu کیوجہ سےحیران کن تصورکیاجاتاھے۔ اسی پیروکی اپوکوناق ٹیانن چٹان (Apukunaq Tianan Mountain) جسکامقامی زبان (quenchecqu)
میں مطلب "دیوتاؤں کا گھر" ھے، پر بنائے گئے قدیم Inca gods Andean کے یہ مجسمے 15 سے 17 میٹر بلند ہیں۔ چٹان سطح سمندر سے 3850 میٹر بلند ھے۔
نہایت باریک، نفیس اور حیران کر دینے والا اور زندگی کا عکاس یہ آرٹ سوچنے پر اکساتا ضرورھے کہ یہ بہترین امتزاج یاہر چیز اپنی صحیح جگہ پرکیسے ھے؟
#Gujranwala #History
گوجرانوالہ (پاکستان)___تاریخ سے چند اوراق
وجہ تسمیہ اور تاریخی پس منظر
گوجرانوالہ__تقسیمِ ھند سے پہلے بھی وجہ شہرت "پہلواناں دا شہر"
گوجرانوالہ__کی بنیاد گجروں نے رکھی تھی اور امرتسر کے سانسی جاٹوں نے اسکا نام خانپور رکھاجو وہاں آباد ھوئے تاہم اس کا پرانا نام
باقی رہا۔
گوجرانوالہ__کا 630ء میں چینی بدھ مت یاتری Hsuan Tsang نے موجودہ گوجرانوالہ کے قریب Tse-kia کے نام سے مشہور دیہات کا دورہ کیا.
گوجرانوالہ__7ویں صدی کے آغاز سے راجپوت سلطنتوں کا پاکستان کے ان مشرقی حصوں اور شمالی ہندوستان پر غلبہ ھو گیا۔
گوجرانوالہ__997ء میں، سلطان محمود
غزنوی نے قبضہ کیا تو ان میں اپنے والد، سلطان سبکتگین کی قائم کردہ غزنوی سلطنت پر قبضہ کیا جس میں 1005ء میں مغربی پنجاب کےکچھ علاقوں کی فتوحات بھی شامل تھیں۔
گوجرانوالہ__پنجاب کےمشرقی علاقےملتان سےراولپنڈی تک شمال میں (موجودہ گوجرانوالہ کے علاقے سمیت)1193 تک راجپوت حکمرانی کےماتحت
#StepWell #Church #Ethiopia
Saint George Church (Lalibela, Ethiopia)
سینٹ جارج چرچ (ایتھوپیا)____11th AD
زیرزمین صرف مندر، محل یا یادگاریں ہی نہیں ھوتی بلکہ چرچ بھی اس میں شامل ہیں جیساکہ ایتھوپیاکایہ چرچ جسےبصارت داد دیئے بغیرنہیں رہ سکتی۔
ایتھوپیامیں چٹان کو کاٹ کرقبطی عیسائیوں
(Coptic Orthodox Christians)
نے زیرزمین یہ چرچ بنایا۔
قدیم مقدس بائبل جن عیسائی عبادت گاہوں کا حوالہ دیتی ھے وہ یہی ایتھوپیائی چرچ ہیں۔ ایتھوپیا میں 341ء میں رسمی طور ہر عیسائیت کو اپنایا گیا تھا۔
ملک کے شمال میں امہارا ریجن میں واقع للی بیلاشہر (Lalibela جو کہ یہاں کے بادشاہ کا
نام تھا) کے کھلے میدان سے منسلک پانچ زیر زمین گرجا گھروں کی ایک سیریز ھے۔
آس پاس میں مختصر گزرگاہیں اور خندقیں ہیں۔ یہ چٹان گویا ایک سرمئی، مٹی کی طرح کا ذخیرہ ھے جو 6 میٹر تک گہرے اور کشادہ صحن کو راستہ فراہم کرتا ھے۔
چٹان سے کٹے ہوئے چرچ بنانے کا عمل اکثر اوپر سے نیچے تک کھدائی
#Sukkur #Temple
سادھو بیلو (دریائے سندھ کنارے، بمقام سکھر)
Sadhu Belu (Sukkur, #Pakistan) 1823
سادھو بیلو کیا ھے؟
سکھر اور تاریخ کے مابین بہت گہرا اور قدیم رشتہ ھے۔
سکھر شہر (پاکستان) کے پاس دریائے سندھ کے جزیرے پر واقع یہ ھندوؤں کے مقدس ترین مندر ہیں۔
عام خیال کیا جاتا ھے کہ1823
میں اداسی پنتھ سے تعلق رکھنے والے ایک عقیدت مند پجاری "سوامی بانکھنڈی" نے اس مندر کو بنوایا تاکہ ہندو برادری اپنی قدیم روایات کو دوبارہ زندہ کر سکے۔
چودھویں صدی میں سندھ "اداسین پنتھ" عقیدے کا سب سےبڑا مرکز ماناجاتا تھا اور کسی زمانےمیں سادھو بیلہ کے مندر کے اطراف میں گرجاگھر اور
پارسی برادری کی عبادت گاہیں موجود تھیں۔
مہاراجہ بانکھنڈی کے اس مندر کو تعمیر کرنے سے جھل بنسی (پانی کی پوجا کرنے والے)، سورج بنسی (سورج کی پوجا کرنے والے)، اور اروڑ بنسی (بدھ متی) اوردیگر دھرم کو ماننے والے سب فرقے یکجا ھوگئے۔
ظاہر ھےپھر وقت کیساتھ ساتھ یہاں سےسکھ گزرے، مغل گزرے،
#mughals #Rajput #relationships #facts
مغل راجپوت تعلقات___تاریخ کے آئینے میں
تاریخ شاہدھے کہ مغل اور راجپوت روابط تاریخ کےسب سےمضبوط سیاسی اتحاد میں سے ایک رھے ہیں۔
"تاج محل" کے پاءوں کے نیچے کی زمین مغلوں کوایک راجپوت کی عنایت کردہ ھے اوران دونوں میں خون کےروابط رھے۔
مغل بادشاہ
جلال الدین اکبر کی شادی راجپوت شہزادی ہرکھا بائی سے ھوئی۔
اس شادی سے پہلے بھی ہمارے پاس یہ تاریخی ثبوت موجود ھے کہ کس طرح ہمایوں نے ایک راجپوت شہزادی جو اسکی راکھی بہن تھی، کی حفاظت کے لیے شیر شاہ سوری کےمقابل ایک جیتی ھوئی جنگ ہار دی۔
اسی ہار نے حقیقت میں ہمیشہ کے لیے اس کی قسمت
بدل کر رکھ دی۔
پھر تاریخ نے لکھا کہ راجپوت_مغل خون کےملاپ نے دو شہنشاہوں شاہجہان اور جہانگیر کو جنم دی۔ یہی اتحاد بہت سے کامیاب حملوں اور فتوحات کاپیش خیمہ بنا۔
تاریخ نے پھر لکھا کہ یہ بندھن لافانی تب بنا جب شاہ جہان نے اپنےپرجوش اور شہرہ افاق منصوبے تاج محل کی تعمیر کیلئے راجپوت
#Shia #Scholar
علامہ طالب جوہری (شیعہ اسکالر)
پٹنہ، بھارت
27 اگست 1929- 22 جون 2020
خانوادہءآیت اللہ مولانامحمدمصطفیٰ کے چشم وچراغ اورفرزندجلیل
عظیم المعتبر خطیبِ دوراں، شاعر
مفکر، مفسرقرآن وحدیث
ماہرعلوم اسلامیہ،ستارہ امتیازکےمالک
اردو، فارسی،عربی زبانوں پردسترس
فقہ جعفریہ
کی نہایت قد آور اور ممتاز شخصیت مولانا طالب جوہری 1929 میں ریاست بہار کے شہر پٹنہ (بھارت) میں پیدا ھوئے۔
ابتدائی تعلیم والد سے حاصل کرکے مذہبی تعلیم کیلئے نجف وعراق کاسفر کیا۔ وھاں آیت اللہ العظمیٰ سید ابوالقاسم الخوئی کے زیرانتظام "حوزہ علمیہ" (Howza Ilmiya) جہاں شیعہ طلباءتعلیم
پاتے تھے، میں داخلہ لیا۔
عراق میں تقریباً دس سال قیام کیا اور نہ صرف عربی و فارسی پر عبور حاصل کیا بلکہ عرب وعجم کی تاریخ پر بھی مکمل گرفت حاصل کی۔
اگر ھم علامہ صاحب کی شخصیت میں غوطہ زن ھوں تو قہوہ اور کھجوروں کے دلدادہ طالب جوہری علوم قرآنی پر ملکہ رکھنے کے باوجودخشک طبیعت ہرگز