#Indology #ancient #StepWell #Architecture
اگریسن کی باؤلی (دہلی، بھارت)
Agrasen ki Baoli (India)
دہلی کے قلب میں واقع مہابھارت (Ancient Sanskrit Epic Script) کے دور میں تعمیر کی گئی یہ زیرزمین آرائشی سیڑھی جو کبھی پانی کا ذخیرہ تھا آج شاندار فن تعمیر اور قدیم انجینئرنگ کی مہارت
کا ایک دنگ کر دینے والا نمونہ ھے۔
اس بارے میں کوئی واضح تاریخی ریکارڈ موجود نہیں ھے کہ شاندار اگراسین کی باؤلی کب اور کس نے تعمیر کی تاہم بہت سے مورخین کاخیال ھے کہ اسکی تعمیر مہابھارت (महाभारतम्) کےدور میں کسی اور نےنہیں بلکہ اگروہ (Agroha) کے سوریا ونشی خاندان کے بادشاہ مہاراجہ
اگرسین (Maharaja Agresan) نے کی تھی۔
14ویں صدی میں اسے اگروال برادری کے لوگوں نے دوبارہ تعمیر کیا جو مہاراجہ اگرسین کی اولادکے طور پرہی جانےجاتے تھے۔
بائولی کی تعمیراتی خصوصیات یہ بھی بتاتی ہیں کہ اسے تغلق خاندان (1321-1414) یا لودھی خاندان (1451 سے 1526) کے دہلی پر دور حکومت میں
دوبارہ تعمیر کیا گیا تھا۔
باؤلی کو نہ صرف پانی کے ذخائر کے طور پر بلکہ ایک کمیونٹی جگہ کے طور پر بھی کام کرنے کے لیے بنایا گیا تھا۔
اس وقت کی خواتین اس کنویں پر جمع ھوتی تھیں اور باؤلی کے ٹھنڈے ماحول میں انہیں شدید گرمی سے کچھ لمحے سکون کے مل جاتے تھے۔
باؤلی کی لمبائی 60 میٹر اور
چوڑائی 15 میٹر ھے۔
پوراڈھانچہ ملبے کی چنائی سےبنایا گیاھے جس میں چٹانوں اورپتھروں کی ایک قسم کااستعمال کیاگیا ھے۔
باؤلی مقامی زبان میں Basement کوکہتےہیں۔ اگریسن باؤلی کنویں کی مستطیل شکل اسےدہلی کی دیگر باؤلیوں سےالگ کرتی ھے۔ @threadreaderapp Unroll. #India #Archaeology #History
• • •
Missing some Tweet in this thread? You can try to
force a refresh
#ancient #Archaeology #Ethiopia
ایتھوپیا کی تاریخ
لاکھوں سالہ قدیم شہر حبشہ (Abyssinia) اور مقام ہدر (Hadar)
حبشہ نام سنتے ہی سب سےپہلے ذہن میں وہ سیاہ غلام عاشق اور مؤذنِ رَسُوْلُﷺ بلال حبشیؓ ذہن میں آتے ہیں جنہوں نے سب سے پہلےجنت کا دروازہ کھولنا ھے۔
لیکن ایتھوپیا ماہرین آثارِ
قدیمہ اور ماہرین ارضیات کا پسندیدہ خطہ بھی ھے۔
وہ ایسے کہ ایتھوپیا کو یہ اعزاز حاصل ھے کہ 1974 میں اسکی "Great Rift Valley" میں دنیا کے قدیم ترین ڈھانچوں "Lucy" اور "Ardi" کے فوسلز پائے گئے ہیں جو 3.2 ملین پرانے ڈھانچے ہیں۔ اسی لیے ایتھوپیا کو "انسانیت کا گہوارہ" کہاجاتاھےکیونکہ
یہاں انسانوں کی جڑیں ھونے کا بہت امکان ھے۔
اس وادی کے جس مقام سے یہ انسانی فوسلز دریافت ھوئے ہیں اسے "Hadar" کہا جاتا ھے۔
ایتھوپیا متنوع ثقافتی اقوام کا مجموعہ رہا۔
ایتھوپیا افریقہ کا واحد ملک ھے جو کبھی نوآبادیاتی (Colonial) نہیں رہا ورنہ افریقہ نےاپنے کالے رنگ کے باعث نسل پرستی
#ancient #Thatta #Pakistan
ٹھٹہ (سندھ)___تاریخ سے چند اوراق
ٹھٹہ__زمانہ قدیم کےسندھ کااھم ترین اور امیر شہر، دارالحکومت اور تجارتی مرکز دریائے سندھ سے2میل کےفاصلے پر واقع
ٹھٹہ__ھندوستان سے ہنگلاج (Hinglaj) جانے والی شاہراہ ہر واقع ھے۔ بمطابق ھندو عقائد ہنگلاج کاسفرکرنےوالا گناھوں
سے پاک ھو جاتا ھے۔
ٹھٹہ__شہربہت سےشہروں جیسے دیبل، سامی نگر، برہمن آباد کی وجہ سے مشہور ھے۔
ٹھٹہ__مسلماںوں کی فتح سے قبل ھندو راجاؤں نے اسکانام سامی نگر (Sami Nuggur) رکھا تھا۔
ٹھٹہ__زرخیر زمین اور گندم،چاول اور کپاس کیوجہ سےمشہور کیونکہ ھندوستان کے اس شہر بےمثال میں 2000 سے زائد
کرگھے(Looms) کپڑا بنتے تھے۔
ٹھٹہ__شہر الہیات، لسانیات اور سیاسیات کی تعلیم کیلئے مشہور۔ یہاں ان علوم کی تعلیمات کیلئے 400 سے زائد مدارس تھے۔
ٹھٹہ__ شہر عظیم میں ننگے پیر رھنے والے کارمالیوں (Carmalites) کاگرجا گھر
ٹھٹہ__قدیم یونانیوں کابیان کردہ Pattala شہر
ٹھٹہ__مشہورقدیم موءرخ
#Punjab #British #History
وزیراعظم پنجاب ملک خضر حیات ٹوانہ
( قصبہ مظفرآباد, شاہ پور سرگودھا، پاکستان)
1900-1975
عہدبرطانیہ میں ریاست پنجاب کےآخری وزیراعظم
ملک خضرحیات شاہ پور کےنزدیک قصبہ مظفرآباد ( نزدسرگودھا) کی جاگیردار ٹوانہ فیملی میں 1900 میں پیداھوئے۔
آپ 1916 سے1923 تک ایک
آرمی مین رھے۔
آپ نے ہی پنجاب کی تقسیم کی شدید مخالفت کی اور محمد علی جناح کے سامنے کھڑے ھوئے۔
ملک خضر حیات تقسیم پنجاب کے اس لیے مخالف تھے کہ وہ نہیں چاہتے تھے کہ پنجاب مذہب کی بنیاد پر ٹوٹے کیونکہ وہ پنجاب کو ایک مکمل خطہ اور پنجابیوں کو الگ اور منفرد شناخت کا مالک سمجھتے تھے۔
خضرحیات ٹوانہ تاج برطانیہ کےبہت زبردست حامی تھے۔ ان کی اپنی الگ "Unionist Party" تھی۔
ملک صاحب کا دور اقتدارکچھ آسان نہ تھا کیونکہ جنگ عظیم اول (1914-1918) کے اثرات بھیانک تھے، دوسری جنگ عظیم کافی تباہی مچارہی تھی جس میں بہت سےپنجابی سپاہی حصہ لےرھےتھے اوربنگال کا قحط کسی آفت کی
#ਸਿਖਮੱਤ #Gurdwara #Kashmir
گوردوارہ سری چھٹی پٹھ شاہی (ڈسٹرکٹ بارہ مولا، مقبوضہ کشمیر)
Gurdwara Sri Chhati Path-shahi (Parampillan Town, Baramulla)
1620ء
مصرمیں چرچ ھوں، افغانستان میں بدھا, امریکہ میں مساجدیا چین میں مندر مذاہب نےکہاں کہاں ہجرت نہیں کی اور اپنےنقش قدم نہیں چھوڑے!
ایسی ہی ایک مثال صدیوں سے مسلمان اکثریتی ریاست #کشمیر کے گوردوارہ کی ھے جسے "چھٹی پٹھ شاہی" سکھوں کے چھٹے شاہ (گرو) کی نسبت سے کہا جاتا ھے۔
برلب جہلم 1620ء میں ڈسٹرکٹ بارہ مولا کے قصبہ پرم پلاں (کشمیر) میں واقع یہ گوردوارہ دراصل کشمیری ترکھان کرم چند کا مکان تھا جہاں چھٹے گرو
ہرگوبند سنگھ جی اور بادشاہ جہانگیرنے دودہ کشمیر کے دوران یہاں قیام کیاتھا۔
کرم چند نےبعد میں گروجی کی عقیدت میں اس مکان کو انکی یادگار بنا دیا۔
عہدرنجیت تک یہ گھرجو گوردوارہ میں ڈھل چکاتھاخاصی مختصرسی عمارت تھی لیکن سکھ شاہی میں کپور اورچوپڑہ خاندانوں نےاسےبہت ساری زمین عنایت کی۔
#ancient #Archaeology #Buddhism #Pakistan
Shatial Petroglyphs (Karakorum Highway, #Chitral)
Circa: 224 BC- 651 AD
نقش حجریعنی "Petroglyphs" پتھروں پر قدرتی نقش کاری کےعلم وفن کوکہاجاتاھے۔
شمالی پاکستان کی شایراہ ریشم کیساتھ واقع وادی چترال میں پیٹروگلیفس کےنایاب، پراسرار اورقدیم
پتھر, نوشتہ جات اور فن پارےموجود ہیں جوبدھ مت عہدقدیم کی زبان، لکھائی کا نظام اور نقوش کاناقابل یقین خزانہ مہیا کرتے ہیں۔
شاہراہ قراقرم کےراستےجب آپ گلگت بلتستان میں داخل ھوتےہیں تو تانگیر اور داریل وادیوں کےدرمیان بدھ مت کےمشہور آثارِقدیمہ پائےجاتےہیں۔
چٹانی فن کےیہ Inscriptions
ناقابل یقین علاقائی اور عالمی ثقافتی ورثے کے اہم ریکارڈز ہیں۔
شتیال طویل عرصے سے "قدیم بدھسٹ چٹان کے نقش و نگار" کے لیے ایک مقام کے طور پر مشہور رہا ھے لیکن یہ نقش و نگار موجود ھونے سے پہلے بھی وسطی ایشیاء سے گزرنے والے تاجر اور زائرین چٹانوں میں اپنے نام اور اوقات تراش لیتے تھے۔
#archaeology #Beijing
Chapel of Sound Hall (China)
بیجنگ شہر کے قلب سے کچھ فاصلے پر ایک پہاڑی وادی میں واقع "چیپل آف ساؤنڈ" ایک اوپن ایئر کنسرٹ ہال ھےجس میں منگ خاندان (1368-1644) کے دور کی عظیم دیوار کےکھنڈرات کےنظارےہیں۔
بیجنگ میں واقع آرکیٹیکچر آفس OPEN کی طرف سے ڈیزائن کیاگیا
ھے۔
دیکھنے والوں کیلئے یہ ایک پراسرار چٹان کے طور پر ھے جو آہستہ سے اپنی جگہ پر کھڑا تھا.
یہ عمارت مکمل طور پر کنکریٹ سے بنائی گئی ھے جو کہ مقامی معدنیات سے بھرپور چٹانوں کے مجموعے سے افزودہ ھے۔
اس میں ایک نیم بیرونی ایمفی تھیٹر، آؤٹ ڈور اسٹیج، دیکھنے کے پلیٹ فارم، اور ایک گرین
روم شامل ھے۔ جب کہ فطرت کے گہوارہ میں موسیقی کے غیر مانوس اور گہرے چھونے والے تجربے کو حاصل کرنے کے لیے ڈیزائن کیا گیا تھا۔
معمار یہ بھی چاہتے تھے کہ لوگ پرسکون رہیں اور فطرت کی آواز کو سنیں جو ان کے خیال میں بہت متاثر کن اور شفا بخش ھے۔ جب یہاں کوئی پرفارمنس نہیں ھوتی تو کنسرٹ