جل محل (جےپور راجھستان، بھارت)
(Jal Mahal/Water Palace, India)
"سنا ھے لوگ اسے آنکھ بھر کے دیکھتے ہیں"
1799ء____ راجپوت طرزتعمیر کا شاہکار
تقدیر ہر شخص کو دنیا کی تخلیقات کی تلاش کا موقع نہیں دیتی اسلیے حس تخلیق بیدار رھنی چاہییے۔
ایک لمحے کیلئے #History #Archeology #architecture
"گولڈن ٹیمپل" (1604, امرتسر) سے قریبی مشابہت رکھتا پانی پر اکیلا، خاموش، پرسکون کھڑا جل محل یعنی "واٹر پیلس" کیسےممکن ھے نظر کو خیرہ نہ کرے!
1799 میں تعمیر شدہ یہ 5 منزلہ جل محل حیران اس وقت کرتاھے جب پتا چلتا ھے کہ اسکی پہلی چارمنزلیں پانی کےنیچے واقع ہیں۔
یہ تاریخی محل مہاراجہ
سوائی پرتاپ سنگھ نے بنوایا تھا۔ مان ساگر جھیل پر سوائی مان سنگھ نے دو پہاڑیوں کے درمیان ڈیم بنوایا تھا۔ یہ راجپوت فن تعمیر کا بہترین نمونہ ھے۔
جل محل اپنی خوبصورتی اور فن تعمیر کی وجہ سے بہت سے سیاحوں کو اپنی طرف متوجہ کرتا ہے۔ جل محل ایک رومانوی جگہ ھے کیونکہ یہ سرخ ریت کے پتھر
میں بنایا گیا ھے۔شاہی خاندان کے مزارات اس محل کے بالمقابل ہیں۔
محل جے پور کے باہر امبر فورٹ روڈ پر عنبر قلعہ سے 6 کلومیٹر پہلے واقع ھے۔
اس محل کی صرف اوپری منزل ہی دھوپ اور بارش سےلطف اندوز ھوتی ھے۔ تعمیر کے 200سال گزرنے کے بعد بھی آج بھی اس کی تعمیراتی خوبصورتی وہی ھےجو پہلےتھی۔
یہ محل نہر گڑھ قلعہ سے شاندار لگتا ھے۔
مان ساگر جھیل کے پانی میں جل محل کا سایہ حیرت انگیز معلوم ھوتا ھے۔
مہاراجہ سوائی مادھو سنگھ نے دیگر شاہی معززین کو فرصت کے وقت اس محل میں مدعو کیاتھا۔ مان ساگر جھیل کے جنوب میں کچھ خوبصورت باغات اور راجپوت تعمیراتی طرز کی دیواریں ہیں جوپرجوش
سیاحوں کا انتظار کر رہی ہیں۔
جل محل صرف راجپوت تعمیراتی ظاہری خوبصورتی ہی نہیں بلکہ تکنیکی مہارت کی بہترین مثالوں میں سےبھی ایک ھے۔ شام کے وقت محل بہت خوبصورت لگتاھے کیونکہ پوراکمپلیکس فلڈلائٹس میں نہایاھوا لگتا ھے۔
اراولی کی پہاڑیوں کامنظر جس پر بہت سے مندراورقلعے ہیں، جھیل کےاس
پار سے دیکھا جا سکتا ھے۔
ایسے خوبصورت اور لافانی شاہکار کو سیاحوں کو اپنی طرف بزور وزبردستی کھینچنے کی ضرورت نہیں۔ نظریں خود ایسے دلکش مناظر کے تعاقب میں رھتی ہیں اور انکی ہمیشہ سے متلاشی رہی ہیں۔ @threadreaderapp pls Unroll it. #India #architecturaldesign #History
• • •
Missing some Tweet in this thread? You can try to
force a refresh
#request
رسول حمزہ طوف (داغستان، روس)
Rasul Gamzatovich Gamzatov (1923-2003)
وہ نام جو سابقہ سوویت یونین اور موجودہ روس کی ایک چھوٹی سی جمہوری ریاست داغستان کی پہچان بنا۔
ممکن نہیں کہ ادب سےدلچسپی رکھنے والے روسی نژادمسلمان ادیب رسول حمزہ کےنام سےناواقف ھوں۔ #Russian #Literature
ایک معمولی روایتی چرواہے کے گھر آنکھ کھولنے والے طوف نے 11 سال کی عمر میں شاعری کا آغاز کیا۔
عالمگیر شہرت یافتہ شاعر اور نثر نگار رسول حمزہ ایک بہترین صحافی، ترجمہ نگار، عمدہ سیاستدان، تھیٹر نگار، ریڈیو رائٹر، مدھم اور سریلے مغنی شاعر بھی تھے۔
داغستان میں جنگ چھڑی تو آپ کو تعلیمی
سلسلہ منقطع کرنا پڑا جو 1945 میں دوبارہ شروع ھوا لیکن شاعر کا پہلا اور آخری حوالہ شاعری ہی ھوا کرتا ھے۔ ایک ادیب کیلئے اسکے الفاظ ہی اسکی شناخت ھوا کرتے ہیں۔
آپ کے لکھے ھوئے گیت ”زہوراولی“ کو سوویت نغمے کے طور پر گردانا گیا۔ طوف کی شاعری، گیت اورنغمات انکی اپنی مادری زبان "آواری"
مہاراجہ وکرم آدتیہ (اوجین، ھندوستان)
(102 BC- 15 AD)
پنجابی کیلنڈر کا بانی
سمدر گپت کا بیٹا وکرم آدتیہ جو عہد قبل مسیح میں اوجین (Ujjain) کا مہاراجہ تھا، اپنے علم، شجاعت اور دوراندیشی کی وجہ سے مشہور ھوا۔
بادشاہ وکرم آدتیہ کی اولاد کے لوگ کاہلوں کہلاتے ہیں۔ اسی #ancient #India
مہاراجہ کو تاریخ میں اس کے لقب بکرَم اجیت سے لکھا گیا ھے۔ یہ مہاراجہ دیسی کیلنڈر کا خالق کہلایا جسے اسی کے نام بکرم سے ہی منسوب کیاگیا۔
اس قدیمی کیلنڈرکا آغاز 100 سال قبل مسیح میں ھوا۔ اس کیلنڈر کا اصل نام وکرمی کیلنڈر ھےجو راجہ وکرم آدتیہ کےنام پرھے۔
اس شمسی تقویم میں سال "چیت”
کے مہینے سے شروع ھوتا ھے۔
تین سو پینسٹھ (365) دنوں کے اس کیلینڈر کے 9 مہینے تیس (30) تیس دنوں کے ھوتے ھیں، اور ایک مہینہ وساکھ اکتیس (31) دن کا ھوتا ھے، اور دو مہینے جیٹھ اور ھاڑ بتیس (32) بتیس دن کے ھوتے ھیں۔
عیسویں مہینوں کے نصف سے ان مہینوں کاآغاز ھوتا ھے۔
14 جنوری۔۔۔ یکم ماگھ
#اردو_زبان #Philology
لفظ کہا ھوا ھو یا لکھا ھوا__
علم ومعلومات کے ایک نسل سے دوسری نسل تک پہنچنے کاوسیلہ لفظ ہی ھوتے ہیں (Bloomfield Theory*)۔
لکھے ھوئے لفظ کی عمر کہے ھوئے لفظ سے کہیں زیادہ ھوتی ھےاس لئے انسان نے فن تحریر ایجاد کیا۔
ایک زمانہ تھاجب فن طباعت سے لفظ کی عمر اورصحت
میں اضافہ ھوا مگر پھر بدقسمتی سے اسی فن طباعت نے غلط الفاظ کو درست سمجھنے پر مجبور کر دیا ھے۔
طباعت نے کچھ یوں ہماری اردو کا ستیاناس کیا ھے؛
غلط درست
انشاء اللہ ان شاءاللہ
انکساری انکسار
اےخدایا خدایا
بارات برات
بخیریت سے خیریت سے
بےنیل ومرام بےنیل مرام
السلام وعلیکم السلام علیکم
آب زم زم کاپانی آب زم زم
بمع اہل وعیال مع اہل وعیال
سورج مندر (گجرات, بھارت)
(Sun Temple, 1050 CE)
ملتان (پاکستان) میں واقع سورج مندر جو ھندوستان میں سورج بنسی کےپجاریوں کا سب سےقدیم، اولین اور بڑا مرکز تھا۔ بھارتی ریاست گجرات کاسورج مندر اسی سلسلے کی ایک کڑی ھے۔
سورج مندر (بھارت) حیدراباد سے100کلو میٹر کےفاصلے پر #Temple #History
ضلع مہسنہ (Mehsana) کے مودھیرا گاؤں میں واقع شمسی دیوتا سوریا کے لیے وقف ایک ہندو مندر ھے۔ دریائے پشپاوتی کے کنارے واقع یہ مندر سائنسی اور ثقافتی لحاظ سے یہ مثال آپ ھے۔
سورج مندر چاؤلوکیہ خاندان کے حکمراں بھیم اول کے عہد میں 1026-27 عیسوی کے بعد تعمیر کیا گیا۔چاؤلوکیہ اپنے خاندان
کو اسی سوریا (سورج) کی اولاد تصور کرتے تھے۔
مندر میں سونے کے زیورات سے جڑا بت رکھا گیا تھا اسی بت پر سورج کی پہلی کرنیں پڑتی ہیں۔ اصل چھت اہرام مصر کی مانند تھی جو اب نہیں رہی۔
مندر کے احاطے میں تین بنیادی اجزاء ہیں: گدھا منڈپا (مزار ہال)، کنڈا (پانی کا ذخیرہ) اور سبھا منڈیا
قدیم وادئ پشاور____تاریخ سے چند اوراق
وادئ پشاور__ ایسی وادی جسےاولین آریہ بزرگوں نےآباد کیا۔
وادئ پشاور__ قدیم ھندوؤں کی گندھاراوادئ تھی۔
وادئ پشاور__ وشنو پران کی پشکالاوتی کہلاتی تھی۔
وادئ پشاور__ یونانی اسکندر اعظم کےحملے کےوقت ایک گنجان شہرکی حامل تھی اور #Peshawar #History
اس کے جانشینوں کے تحت ایک اہم یونانی باختری سلطنت کا مرکز بنی جس کا ذکر سنسکرت، چینی اور عربی ادب میں ھو چکا ھے۔
وادئ پشاور__ جس کے بدھ اسٹوپ (Stupas) پانچویں صدی میں چینی بدھ سیاح فاہیان (Faxian, 337-422), چھٹی صدی عیسوی میں سوانگ یون اور ساتویں صدی میں ہیونگ سانگ کی تحریروں کا
عنوان رہی۔
وادئ پشاور__ دسویں اور گیارہویں صدی میں عرب جغرافیہ نگاروں السعودی اور ابوالریحان کاموضوع قلم رھی۔
وادئ پشاور__ سولہویں صدی میں سلطنت مغلیہ کے بانی ظہیرالدین بابر کی توجہ کا مرکز رہی جہاں چندر بنسی کے ورثاء اسکندر اعظم کےخلاف صف آراء ھوئے جس کو اس نے "اساکینی" سےپکارا۔
مجسمہ اتحاد (Statue of Unity)
(Vadodara, Gujrat India)
182 میٹر (app. 600 feet) بلند دنیا کا سب سے اونچا مجسمہ
رام ونجی ستر (Ram Vanji Sutra) کا شاہکار "Statue of Unity" جو پانچ سال (2013-2018) کے درمیان تعمیر کیا گیا۔
"اسٹیچو آف یونیٹی" کو ’آئرن مین آف انڈیا‘ سردار ولبھ #History
بھائی پٹیل (1875-1950) کو خراج عقیدت پیش کرنےکے لیے بنایا گیا۔
مجسمہ اتحاد کو سردار ولبھ بھائی پٹیل سے اس لیے منسوب کیا گیا کہ آپ کے سر "بٹوارے" کے بعد جمہوریہ ہند کی تعمیرکے لیے ملک کی تمام 562 شاہی ریاستوں کومتحد کرنے کاسہرا تھا۔
مجسمےکو بڑے پیمانے پر 5 زونز میں تقسیم کیا گیاھے
جن میں سے 3 عام لوگوں کےلیے قابل رسائی ہیں۔ ان میں ایک یادگاری باغ اور میوزیم، ایک نمائش کا علاقہ، اور وزٹنگ گیلری بھی شامل ھےجو ایک وقت میں 200 زائرین کیلئے کافی ھے۔
153 میٹر کی بلندی پرواقع یہ گیلری سردار سروور ڈیم (Sardar Sarovar Dam)، ست پورہ اور وندھیا پہاڑی سلسلوں کا شاندار