#Indology #ancient #Varanasi
شہر وارانسی__تاریخ سےچند اوراق
اترپردیش (انڈیا)___1100قبل مسیح
شہروارانسی__جنوبی ھندوستان کی ریاست اترپردیش میں واقع ہندؤوں کامقدس ترین شہر بلکہ روحانی دارالخلافہ (Spiritual Capital)
شہر وارانسی__کی وجہ تسمیہ یہ کہ شہرکی سرحدیں دوندیوں (ورونہ اور آسی)
سے ملتی ہیں جو گنگا میں بہتی ہیں۔ شہر کا نام انہی دو دریاؤں کیوجہ سے ھے۔
شہروارانسی__شیو دیوتا کا مسکن جو ہندؤ مت میں الہی کا سب سے اہم مظہر ھے۔
شہروارانسی__ دریائے گنگا کے کنارے آباد وہ دریا جو ہندومت کے مقدس ترین دریاؤں میں سے ایک ھے۔
2,500سال سےزیادہ عرصےسےھندو یاتریوں نےگنگا
گنگا میں نہانے کے لیے وارانسی کی طرف اڑان بھری ھے کیونکہ مقدس دریا میں غسل کو پاک کرنے والا سمجھا جاتا ھے۔
شہر وارانسی__میں جو بھی مرتا ھے وہ مبارک گنا جاتا ھے۔
شہروارانسی__کنارے شمشان گھاٹ ھونے کے باعث یہ شہر بحری قزاقوں کیلئے زریعہ آمدنی بھی کہلایا۔
گویا وارانسی شہر کی روح گنگا
ھے۔ مذہبی، روحانی، ثقافتی بلکہ اقتصادی زندگی بھی دریا کے کنارے کھیلتی ھے۔
شہروارانسی__پیدائش سے لے کر پترجنم کے ابدی چکروں سے گزرتا ھے۔
#StepWell #architecture #Rajhastan
پنا مینا کا کنڈ (ریاست راجستھان، بھارت)
Panna Meena ka Kund (Rajhastan, India)____16th C.
زیرزمین تعمیر ھندوستان کیلئے کوئی نئی بات نہیں!
ریاست راجھستان، کی ڈسٹرکٹ جےپور کے قریب شہر امیر جسے عنبر بھی کہا جاتا تھا، میں واقع پنامینا کا کنڈ زیرزمین
طرزتعمیر کی شاندار مثال ھے جو 16لہویں صدی میں مشہورِ زمانہ "قلعہ امیر" کیساتھ تعمیر کیا گیا تھا۔
یہ مختصر سی StepWell تعمیر دراصل پانی کا ذخیرہ کرنے کیلئے کنواں کی مانند تھی جہاں امیر کےلوگ پانی جمع کرتے تھے۔ بعد میں اس جمع شدہ ذخیرےکو قریبی مندروں میں استعمال کیاجاتا تھا۔
خواتین
بھی گھر کے کام کے لیے پانی کے برتن بھرنے یہاں آتی تھیں۔ اس کے علاؤہ پنا مینا کا کنڈ بہت سے مسافروں کے لیے ایک آرام گاہ بھی تھی۔
پنا مینا کا کنڈ ایک مربع شکل کی سیڑھی ھے جس کے چاروں اطراف سے ملحقہ سیڑھیاں اور شمالی دیوار پر ایک کمرہ ھے۔ خیال کیا جاتا ھے کہ یہ کمرہ شادیوں سےپہلے یا
#ਗੁਰੂ_ਅ੍ਰਜੰ_ਦੇਵ #ਪੰਜਾਥ #Lahore #History
لاھور (پاکستان) اور گرو ارجن دیو کا تعلق (1606)
بادشاہی مسجد (لاھور) سےتھوڑا آگےخوبصورت سکھ گوردوارہ جسےدیکھ کر لوگ تعریف تو کرتےہیں مگرشاید وہ اس کے پس منظر سےکم ہی واقف ھوں گے۔
لاھورقلعہ وہی جگہ ھےجہاں پنج شاہی (یعنی پانچویں گرو) ارجن دیو
کوشہنشاہ جہانگیرکے حکم پر تشدد سےشہید کیاگیاتھا۔ انہی کی یاد میں یہ "گوردوارہ ڈیرہ صاحب" تعمیر کیاگیا۔
پنج شاہی ارجن دیو صاحب سکھ مت کے پہلےشہید کہلاتے ہیں۔
سکھوں کی پنج شاہی ارجن دیو اور لاھور (پنجاب) کا آپس میں تعلق درحقیقت ایک تاریخی سانحہ ھے جو مغلوں کے جبر کا بھی عکاس ھے اور
زوال کا بھی۔
سکھوں کے کامیاب ترین گرو ارجن دیو، مقدس "آدی گرنتھ" کے پہلے منظم ایڈیشن کے بانی، پر مغل بادشاہ جہانگیرکے باغی شہزادےخسرو کی سپورٹ کا الزام تھا ۔
جہانگیر نے نہ صرف گرو ارجن دیو کو تبدیلی مذہب پر مجبور کیا بلکہ اپنے ہی بیٹے کو اندھا کروادیا اور قید بھی کر لیا۔ جتنے بھی
#Temple #Kashmir
مرتند سورج مندر (اننت ناگ، سرینگر کشمیر)
Martand Sun Temple (Anantnag, Kashmir)___8th AD
اننت ناگ (بھارتی کشمیر) میں واقع مرتند سورج مندر جو آٹھویں صدی کی سناتنی تہذیب (Sanatani Civilization) کاگڑھ تھا، کو وادئ کشمیرکی ٹاپ پر تعمیر کیاگیا جوکلاسک کشمیری طرزِتعمیر
کا نمونہ تھا۔
سورج مندر کی وجہ شہرت اس کا گندھارا، گپت اور چینی طرزتعمیر کا کلاسک اورجاذب نظر امتزاج ھے۔
یہ ھندو مندر سوریادیو (Suryadev) کے نام سے منسوب تھاجسے "مرتند" کہا جاتا تھا۔ سناتنی تہذیب دراصل ایک ایساھندو عقیدہ (Hindi Cult)تھا جنکی تعلیمات (Teachings) خالصتاً بھگوت گیتا
رامائن، اپنشد، رگ وید سے مشروط تھیں گویا اس عقیدے کی بنیاد ہی قدیم مذہبی کتب کی تحریروں پرمشتمل تھی۔
سورج مندر کو 15ویں صدی میں اسلام کے نام پر ایک صوفی تبلیغ کار محمد حمدانی کے کہنےپر کشمیری سلطان اسکندرشاہ میر نے تباہ کر دیاتھا۔
باقی ماندہ مندر زلزلوں اوروقت کی دھول سےمتاثرھوا۔
#ਪੰਜਾਬ #Shekhupura #Heritage #Fort #architecture
قلعہ شیخوپورہ (1607)
مغل بادشاہ جہانگیر کاشاہکار
بادشاہ جہانگیر کےنام (شیخو) پر ہی آباد شہر شیخوپورہ میں 68 کنال پرمشتمل یہ وہی قلعہ ھے جہاں رنجیت سنگھ کی بیوہ اور دلیپ سنگھ کی ماتا سکھ مہارانی جند کور (جنداں) کو برطانوی راج نے قید
کیا تھا۔
جہانگیری عہد میں تعمیر کیا گیا یہ قلعہ شیخوپورہ تاریخ میں ایک منفرد مقام رکھتا ھے۔ جہانگیر کی آب بیتی "توزک جہانگیر" کافی تفصیل سے اس قلعے کا حال بتاتی ھے۔
سکھ عہد میں قلعے کیساتھ متعدد عمارتیں تعمیر کرکے اسےیکسر تبدیل کر دیا گیا۔
1808میں قلعے کورنجیت سنگھ نے اپنے 6 سالہ
بیٹے کھڑک سنگھ کیساتھ فتح کیا اور یوں یہ قلعہ "رنجیت جاگیر" کا حصہ بن گیا۔
1811 میں یہ قلعہ رنجیت سنگھ کی بیوی مہارانی داتا کور اور اس کے بیٹے کھڑک سنگھ کو نواز دیا گیا جہاں وہ اپنی زندگی کے آخری ایام تک رہیں۔
اور تاریخ کے قارئین کے علم میں ھو گا کہ انیسویں صدی میں عہد فرنگی میں
#Sehwan #Saints #Sindh
لال شہباز قلندر ؒ (خراسان/سہون، سندھ)
Lal Shehbaz Qalander ؒ(Sehwan, Pakistan)
(1177 تا 1274ء)
شہغنشاہ قوال نصرت فتح علی خان کی مشہورِ زمانہ قوالی "جھولےجھولےلال" کاعنوان "لال شہباز قلندر ؒ " کاکوئی شمار نہیں۔
یوں سمجھ لیں کہ دریائےسندھ انکےحکم کامحتاج ھے۔
سہون کی پہچان لال شہباز قلندر ؒ کا اصل نام "سید عثمان" تھا.
آپ ؒ (موجودہ) خراسان میں پیداھوئے اور تقریبآ 650سال قبل سہون تشریف لائے۔
آپکی مخصوص پہچان (Signature) وہ "ڈھول" جواس وقت سےآج تک آپکے مزارپرگونج گونج کر زائرین کودھمال پرمجبور کیےھوئےھےدراصل 1242میں بادشاہ دہلی علاؤالدین
نے آپ کو تحفے میں پیش کیا تھا یہی ڈھول آپ کی عظمت کی پہچان بن گیا۔
چاندی کا بنا ھوا دروازہ سندھ کے مرحوم امیرکی عقیدت کا مظہرھے۔
کابل اور ھندوستان کےحکمران اکثر یہاں پر حاضری دیتے ہیں لال شہباز قلندرکی ان گنت کرامات مشہور ہیں۔
آپ کےاحترام میں ھندوبھی مسلمانوں کیساتھ شامل تھےاسلیے
#ancient #History
"ھندوستان" نام کا اصل
کیاھندوستان کا کبھی ایک نام رہا ھے؟
ایک پیچیدہ ترین سوال
دراصل اس خطےمیں کبھی کوئی قوم وارد ھوئی اورکبھی کوئی حملہ اسلیے ھندوستان مختلف ادوار اور زمانوں میں مختلف ناموں سے لکھا اور پکاراگیا۔
آج ھم جس ھندوستان میں رھتےہیں کبھی اسے"جمبودیپ"
کہا جاتا تھا جو پورے ھندوستان کیلئے استعمال ھوتا تھا اور اشوک کے کتبوں اور ھندوؤں کی مقدس پرانوں میں بھی یہی لفظ استعمال ھوا ھے۔
آریاؤں نےاسے دریائے سندھ کی مناسبت سے "سندھ" کہا۔
ایرانیوں نےجب یہاں اپنا قبضہ جمایا "سندھ" یا "سندھو" کو "ھند" کر دیا۔
جب یونانی حملہ آورھوئے تو ان کے
ہاں "انڈوز" "انڈیکا" اور "انڈیا" ھو گیا۔
آریاؤں نے جب وادی گنگا وجمنا ہجرت کی تو اسے "آریہ ورت" پکارا یعنی "آریاؤں کےرھنے کی جگہ۔ مگر یہ نام سارے ھندوستان کیلئے ہرگز نہ تھا۔
بہت سےقدیم تاریخی ماخذات میں آپ کو یہ بھی ملےگا کہ کوہ ہمالیہ سے ونڈیا ل تک کےعلاقے کو "آریہ ورت" سے پکارا