#linguistics #Lexicology
لفظ "خان" کاآبائی گھر
3rd C____ Xianbei (#ancient Mongolian Group of People)
دلچسپ امرھے کہ کچھ الفاظ اپنی اصل جگہ سےاتنی دور کیسےسفر کرتے ہیں! لفظ "خان" اسکی بہترین مثال ھے۔
زیادہ ترپٹھان/پشتون ناموں کیساتھ استعمال ھونےوالالفظ خان کااصل مسکن حیران کن ھے۔
یہ ایک ایسا لفظ ھےجو اندرون ایشیاء (Central Asia) سےنکلا اور پورے جنوبی ایشیا تک سفر کیا۔ اب پاکستان اور افغانستان میں ایک مشترکہ نام ھے، دراصل ایک عنوان کےطور پرشروع ھونے والی اصطلاح ھے۔
خان کی اصطلاح شروع میں نام کی بجائےایک لقب (Title) تھی۔ یہ ایک لقب تھاجس کاحوالہ کسی حکمران
یابادشاہ کیلیےمختص تھا۔
بومن کھگن (Boman Khagan)، گوکترک کوگنیٹ (Gotric Cognate) کےبانی۔ خان اور خگن کے القاب منگول سلطنت کے عروج سےبہت پہلے مشہورتھے۔
یہ لفظ یا اس کی دوسری شکلیں دنیا میں ایک ہزار سال سے موجود ہیں۔ خان کی اصطلاح اندرون ایشیا کےخطےمنگولیایاچین سےشروع ہوئی تھی جیسے
چنگیز خان (Genghis Qan)، قبلائی خان (Qublai Qan) وغیرہ۔ یہ پروٹو-ترک Proto-Turkish اور Proto-Mangolian نسل کا لفظ ھے۔
"خان" کی اصطلاح تاریخ میں پہلی بار تیسری صدی میں Xianbei خانہ بدوش کنفیڈریشن کے حکمرانوں نے استعمال کی اسے بعد میں روران کھگنیٹ اور پھر گوکٹرک کوگنیٹ کے حکمران نے
استعمال کیا۔
کیا خبر تھی کہ یہ اصطلاح منگول سلطنت کے عروج کے ساتھ پوری دنیا میں مشہور ھو جائے گی اور ھمارے لیے پٹھان/پشتون کی شناخت بن جائے گی!!!
#LesserKnownFacts #Indology #ancient #indusvalleycivilization
"وادیِ سندھ کی تہذیب" (IVC) کے زوال کی وجوہات
4000 BC - 1500 BC
جنوب ایشیائی علاقوں ہڑپہ، موہنجوداڑو (سندھ، پاکستان) اور ڈھولاویرا، راکھی گڑھ (ریاست گجرات، بھارت)، 4000 سال قبل مسیح درجہ بہ درجہ ابھرنےوالی، پھیلنے والی
یہ شاندار تہذیب کیسے 3500 سالوں میں زوال کا شکار ھو گئی؟
کیسے یہ شہر مٹی تلے دب گیا؟
کیسےاس تہذیب کا آرٹ، کلچر اور مذہب وقت کے ہاتھوں اوجھل ھو گیا؟
کیوں یہ تہذیب تسلسل برقرارنہ رکھ سکی اورڈوب گئی؟
موءرخین (Historians), ماہرِ آثارِقدیمہ (Archaeologists) اور ماہرِ ھند (Indologists)
اس کو مختلف زاویوں سے دیکھتے ہیں جیسے؛
کچھ اس تہذیب کے زوال کی وجہ خشک سالی کو قرار دیتے ہیں کہ جب دریاؤں نے راستہ بدلا تو یہ شہر اجڑے؛
کچھ قدرتی آفات، سیلاب اور زلزلوں کو اس کے زوال کی وجہ قرار دیتے ہیں؛
کچھ کے نزدیک ان لوگوں نے زمین پر بہت زیادہ کاشت کی، زمین کوریتلا کیا،دھاتیں
#ancient #Egyptology #LostHistory #abandonedplaces
ہراکلین کا گمشدہ شہر (اسکندریہ، مصر) 2300 سال قدیم
Lost City of Heracleion (Alexandria, Egypt)___ 3rd BC
مصر شاید نام ہی حیران کردینے والے سلسلوں کاھے۔
ہراکلین اسکندریہ (مصر) سے32 کلومیٹر کے فاصلےپردریائے نیل (Nike River) کے قریب
ایک بندرگاہ ھے. یونانی نام کی یہ بندرگاہ مصرمیں تمام تجارت کوکنٹرول کرتی تھی۔
یہاں سےنایاب نوشتہ جات اورقدیم تحریروں میں ظاہر ہونےوالا خزانہ ہزاروں سالوں سے سمندر میں گہراڈوبا ھواتھاجس نےمحققین کو حیران کردیا۔
برسوں کی تلاش کےبعد فرانسیسی ماہرآثارقدیمہ فرانک گوڈیو (Franck Goddio)
اور ان کی ٹیم نے اتفاقاً پانی میں ایک بہت بڑا چہرہ ابھرتا دیکھا۔ پانی کے اندر موجود کھنڈرات (Wrecks) میں 64 جہاز، 700 لنگر، سونےکے سکوں کاخزانہ، 16فٹ پر کھڑے مجسمے، اورخاص طور پر دیوتا امون گریب (god Amon Gereb) کےایک بڑے مندرکی باقیات، اور جانوروں کے پتھر کےچھوٹے بت (Sarcophagi)
#Indology #England #RoyalFamily
"کوہ نور ہیرا"
Koh-i-Noor Apple
مغلوں کےتاج کافخر،سکھوں کی مالا کاگوہر نایاب بیضوی(مانند انڈہ)ہیراجسکا 1304ءمیں وزن 186قیراط تھا, برطانیہ کےتاج کی چوٹی تک کیسےپہنچا؟
ریاست حیدرآباد(بھارت)کی گولکنڈہ مائن (Golkonda Mine)سےدریافت ھونےوالا کوہ نورہیرا
جس کی آج قیمت 12B$ ھے، جنوبی ایشیاء ( South Asia) کی 1400 سالہ طویل تاریخ کاعکاس ھے، غم ماز ھے۔
کوہ نور برطانوی سامراجی (Colonialism), غیر ملکی قبضے، جنگوں، قتل و غارت، ہماری حماقتوں اور بزدلی کی یاد دلاتا ھےاور ان گنت سوالات کوجنم دیتاھے۔
6 مئی2023 کوجس تاج نےرسم تاجپوشی کےسلسلے
میں برطانیہ کی ہزاروں سالہ شہنشاہیت کے امین ملکہ Camilla Parker اور بادشاہ چارلس کے سر پر سجایا جانا ھے اس میں جڑا "کوہ نور ہیرا" ہمیں ایک تلخ اور تکلیف دہ ماضی کی یاد دلاتاھے۔
فارسی زبان کے لفظ "کوہ نور" جس کےمعانی ہیں "روشنی کا مینار" (Mountain of Light), دنیا کاسب سےبڑاہیراھے۔
#Prehistoric #Archaeology #Scotland
قصبہ سکارا برائے (سکاٹ لینڈ)
Skara Brae Village (Orkney Island, Scotland)
5000 BC to 3200 BC
اہرام مصر کی ہمعصر یورپ کی سب سے شاندار قبل از تاریخ (Prehistoric) باقیات
جسے 1850 میں ایک چرواہے (Shepherd) اور طوفان نے اچانک دریافت کیا۔
سکارا برائے
پتھر کے زمانے (Stone Age) کے سب سے زیادہ محفوظ دیہاتوں میں سےایک ھےجو ریت کے ٹیلوں سے مکمل ڈھکا ھوا تھا۔
1850 کے ایک زبردست طوفان سے بے نقاب ھوا۔
بقول آرکیڈین مورخ ڈاکٹر ارنسٹ ماروِک طوفان سےقبل یہ ایک مکمل "افسانہ" تھا۔
1860میں ولیم واٹ (William Watt) نےچارعمارتوں کی کھدائی کی۔
1926 میں ایک اور طوفان کے بعد برطانوی وزارتِ آثارِ قدیمہ نےمزید کھدائی شروع کی۔ 1970 کی دہائی کے دوران ریڈیو کاربن ڈیٹنگ نےثابت کیاکہ یہ بستی تقریباً 3200 سے 2200 قبل مسیح تک آباد تھی۔
4,000سالوں سے بستی کوڈھانپنے والی ریت نے ان کے میٹیریل اورڈھانچے کوناقابل یقین حدتک محفوظ رکھا۔
#British #architecture #Heritage #Peshawar
کنگھم گھنٹہ گھر (پشاور، پاکستان)
Cunningham Clock Tower__1900ء
مشکل ھےکہ پاکستان کےکسی ایک شہر کو بحوالہ تاریخ "دل" کہاجائے!
یہ گھنٹہ گھر کہاں کہاں نہیں!
کبھی لندن میں توکبھی لائلپورمیں، کبھی سیالکوٹ میں اور کبھی "پھولوں کےشہر" پشاورمیں!
ملکہ برطانیہ وکٹوریہ کی ڈائمنڈ جوبلی کے اعزاز میں شہر بےمثال پشاور (صرافہ بازار، محلہ باقر شاہ) میں تعمیر کیا گیا یہ "کلاک ٹاور" جسے اس وقت کے پشاور کے گورنر اور سیاسی ایجنٹ "Sir George Cunningham" کے نام سے منسوب کیا گیا تھا۔
انفرادیت اور خوبصورت میں یکتا اورپشاور شہرکی پہچان یہ
گھنٹہ گھر پشاور شہر کے ضلعی انجینیئر James Strachan نے تیار کیا۔
موءرخین کے مطابق کلاک ٹاور کی تعمیر بالموکنڈ خاندان (Balmukand Family) کی طرف سے فنڈ کی گئی تھی۔ یہ خاندان تقسیم کے بعد پشاور سے امرتسر، ہندوستان ہجرت کر گیا اور اس وقت ہندوستان میں 'کلاک ٹاور' برانڈ کے تحت فوڈ
#اردو #صحافت #journo #History
"اخبار جام جہاں نما"
اجراء: کلکتہ (1822ء)
دنیابھرمیں اردوصحافت کا دوسو سالہ جشن منایاجا رہاھےاور قابلِ حیرت حقیقت یہ ھےکہ غیرمنقسم ھندوستان میں اردوصحافت کا آغازہندؤوں نےکیاتھا،مسلمان توبعدمیں شامل ھوئے۔
27مارچ 1822میں اردو کےپہلےاخبار "جام جہاں نما"
کا اجراء پنڈت ہری ہردت نے کلکتہ (ھندوستان) سے کیا۔ اسکے ایڈیٹر منشی سدا سکھ لال تھے۔ یہ ایک ہفت روزہ اخبار تھا جس کا رسم الخط "نستعلیق" یعنی "Proto-Indo-Iranian" تھا۔
جام جہاں نما یورپ میں بھی اس طرح مقبول عام تھاجیسے ھندوستان میں۔ اسلیے اس اخبار کواردو کے اولین اور باقاعدہ اخبار
کی سند دی جا سکتی ھے۔
ٹیپو سلطان کی شہادت کے بعد انگریزوں نے ھندوستانی حالات اور مستقبل بھانپتے ھوئے تمام پریس اور فوجی اخبارات کی فائلوں کو ضبط کر لیا تھا بلکہ آگ لگا دی تھی۔
اس لیے جام جہاں نما پر بھی کنٹرول اور سنسرشپ کی ہدایت تھی لہذا اسی اخبارکی وجہ سے1823 میں برصغیرمیں پہلا