#ancient #Archaeology #Roman #Jordan
قصر بشیر ، اردن___چوتھی صدی عیسوی
Q'Sar-i-Bashir, Jordan__4th AD
اردن کےصحرامیں واقع حیران کن حدتک محفوظ چوتھی صدی کا تنہا کھڑا رومن قلعہ قصر بشیر (Q’Sar Bashir) جوکہ کبھی، کسی بھی تہذیب میں دوبارہ تعمیرنہیں ھوا۔
موبین (Mobene) کے نام سے مشہور
قصر بشیر کی دیواریں اب بھی جگہ جگہ سے 20 فٹ تک بلند ہیں، جبکہ مرکزی دروازہ آج بھی زمانوں کے تھپیڑوں کے باوجود قائم ھے۔ کونے کے بڑے بڑے مینار اب بھی زمین سے دو منزلہ اوپر اٹھتے ہیں۔
اس صحرائی قلعے کے آئیڈیا میں اردن کی زمین کی ساخت نے دفاع میں ایک بڑا کردار ادا کیا۔
قوی امکان ھے
کہ قصر بشیر اصل میں ایک معاون گھڑسوار یونٹ کا گھر تھا، جس پر رومی سرحد کے دفاع اور آس پاس کے علاقے کی نگرانی کا الزام تھا۔ فوجی اوپری منزل پر سوتے تھے جب کہ گراؤنڈ فلور پر رہنے والوں کے بارے میں خیال ھے کہ وہ اصطبل تھے۔
جیسے جیسے روم مشرق کی طرف پھیلتا گیا اسے عرب سرحد کے ساتھ
دفاع کی ضرورت بھی پیش آئی. ایک لکیر جس کا نام Limes Arabicus ھے، بنجر صحرا کے بڑے حصے کو ایک قدرتی رکاوٹ فراہم کرتی ھے۔
جب قصر بشیر جیسے صحرائی قلعے بنائے گئے تو ان کے ساتھ فوجی بھی تعینات کیے گئے جس کا جزوی طور مقصد پر مقامی خانہ بدوش آبادی کے ساتھ تعلقات کو برقرار رکھنا اور ان
کے خلاف دفاع تھا۔
جو قدیم اور آج بھی محفوظ رومن طرزِتعمیر کی تلاش میں سرگرداں ہیں ان کے لیے قصر بشیر کسی خزانے سے کم نہیں!
#Indology #Archaeology #architecture
Rock-Cut
قلعہ گوالیار (مدھیہ پردیش، بھارت)
Gwalior Fort (MadhiyaPardesh)__3 AD
پہاڑی کی چوٹی پر واقع ایک ناقابلِ تسخیرقلعہ جوتیسری صدی میں مقامی بادشاہ سورج سین (Suraj Sen) کاتعمیرکردہ ھے، چٹانی طرزتعمیر کاشاندارماڈل ھے۔
قلعہ گوالیار اوراس میں
واقع اندرونی تالاب, جسے "سورج کنڈ" کہا جاتا ھے، مقدس و بابرکت خیال کیا جاتا ھے۔
سورج سین کے 83 جانشینوں نے قلعے کو کنٹرول کیا۔ لیکن 84 ویں بادشاہ تیج کرن نے یہ قلعہ کھو دیا.
قلعے کے اندر یادگاروں اور نوشتہ جات بھی موجود ہیں۔ ایک شہنشاہ جس کا نام میہیرکولا (Mihirakula) تھا اس وقت
کے دوران قلعے پر حکمرانی کی۔ بعد میں نویں صدی میں ، گورجارا پرتیہارس (Gorjara Pratiharas) نےقلعے پر قبضہ کیا اور ٹیلی کا مندر (Teli ka Mandir) بھی تعمیر کیا۔
1398 تک، تین صدیوں تک ایک دومسلمان خاندانوں نے بھی اس قلعے پرحکمرانی کی۔ مان سنگھ آخری اورسب سےممتازحکمران تھا۔ اس نے فورٹ
#architecture #archaeohistories #Iran
Rock-Cut Art
طاق بوستاں (کرمانشاہ، ایران)
Taq-e Bostan (Kirmanshah, Iran)
A Glory of Sassanid Kings
Circa: 4th C
Period: Sassanid Era (3 c - 7 c)
قدیم بابل ونینوا کی تہذیبوں کااور زرتشتی مذہب کاوارث خطہ ایران میں چٹانی طرزتعمیر کاایک اورحیران
کر دینے والا شاہکار
طاق بوستاں مغربی ایران کے شہر کرمانشاہ کے بالکل شمال مشرق میں واقع ھے جو ساسانی نسل (تیسری سے ساتویں صدی عیسوی) کی چٹانوں کی نقش و نگار (Bas-relief) کیلیے جانا جاتا ھے۔
طاق بوستاں دراصل ساسانی عہد کے بادشاہ اردشیر دوم (Ardeshire ۱۱، 379-383) کے دورحکومت کی ایک
یادگار ھے اور چٹانی طرزتعمیر کا دنگ کر دینے والا شاہکار ھے۔
طاق بوستان آثارِقدیمہ کی جگہ زگروس پہاڑوں (Zargos Mountains)، جو جنوب مغربی ایران کے ترکی اور عراق تک پھیلی ھوئی ہیں، کے مرکز میں واقع ھے۔ یہ تین اہم حصوں پر مشتمل ھے: اردشیر II، بڑا طاق، اور چھوٹا طاق۔
اردشیر دوم اور
#Indology #architecture #Rajhastan
مہرگڑھ قلعہ (جودھ پور، بھارت)
1460ء__ھندوستان کے شاندار ماضی کا عکاس
ریاست راجھستان کے دوسرے بڑا شہر جودھ پورمیں واقع 1200 ایکٹر پر پھیلا منفرد قلعہ مہرگڑھ جسے "جودھ پورقلعہ" بھی کہا جاتاھے، کی قلعے کی تاریخ راجہ راءوجودھ سےجاری ھے جس نےاسے 1460
میں تعمیر کروایا اور اسی نسبت سے اسکا نام بھی منتخب کیا۔
وہ پہاڑی جس پر طاقتور قلعہ کھڑا ھے درحقیقت ایک سنیاسی کاگھر تھاجسے چیریا ناتھ جی کے نام سےجاناجاتاھے۔ اپناگھر کھونےپر اس نےزمین پر لعنت بھیجی۔
جودھ پورشہرکی بنیادبھی 1459میں راجہ جودھ نےہی رکھی جوایک راجپوت تھااور راجپوتانہ
کےتاریخی علاقے کےجنگجو حکمرانوں میں سے ایک تھا اور جودھپور کی شاہی ریاست کے دارالحکومت کےطور پر کام کرتاتھا۔
جودھ پور کے کچھ حصے 18ویں صدی کی دیوار سےگھرےھوئے ہیں۔ مہران گڑھ قلعہ، جس میں مہاراجہ کامحل اور ایک تاریخی میوزیم بھی ھے، ایک الگ تھلگ چٹان پربنایا گیا ھےجو شہر پرحاوی ھے۔
#architecture #technology #Dubai #UAE
پام جمیرہ جزیرہ (دبئی، متحدہ عرب امارات)
Palm Jumeirah #Island (UAE)__2010
"ھےدیکھنے کی چیز اسے باربار دیکھ"
جدت اورٹیکنالوجی کی حدوں کو توڑتا اور خوبصورتی میں آسمان کی بلندیوں کوچھوتا کھجور کے پتےکی مانند مصنوعی جزیرہ
دبئی (متحدہ عرب امارات)
کے Persian گلف میں واقع "Jumeirah Hotel Chain" کا تیار کردہ ایک مصنوعی (Human Made) جزیرہ ھے جو دبئی حکومت کی ماتحت ڈویلپر نخیل (Developers Nakheel) کے ذریعے تعمیر کیاگیاھے۔
پام جمیرہ ان تین جزیروں میں سےایک ھے جسےپام آئی لینڈز (Palm Islanders) کہا جاتا ھے۔ یہ جزیرہ دبئی کے ساحل
کو کل 520 کلومیٹر تک بڑھا دیتا ھے۔
پام جمیرہ تین پام جزائر پام جمیرہ، پام جیبل علی اور پام دیرا میں سب سےچھوٹا ھے مگر یہی اصل ھے۔ یہ امارات دبئی کےجمیرہ ساحلی علاقے پرواقع ھے۔
کھجور کے پتےکی شکل میں یہ جزیرہ ایک تنے، 17جھنڈوں والےایک تاج، اور ارد گرد کےایک کریسنٹ جزیرےپر مشتمل ھے
#Architecture #archives
براڈوے ٹاور (قصبہ براڈوے، انگلینڈ)
Broadway Tower Town Broadway, (#England)__18th C
اٹھارویں صدی کے اوآخر کی ایک سمارٹ مگر جاذب نظر حماقت
انگریز بھی مغلوں سے کم احمق نہ تھے.
قصبہ براڈوے کےسبزہ زار میں تنہا کھڑا براڈوے ٹاور جواکثر "Fish Tower" بھی کہلاتاھے،
ٹاور کو لیڈی کوونٹری (Lady Coventry/ 1733-1760) میں فش ہل پر ماہر تعمیرات "Lancelot Capability Brown" نےبنایا۔
ٹاور62 فٹ اونچاھے اور 16 کاؤنٹیوں میں شاندار نظارے پیش کرتا ھے۔
لیکن ٹاورکیوں بنایا؟
لیڈی کوونٹری لیڈی جوچھٹے ارل جارج ولیمز (Earl George Williams)کی بیوی تھی، نےیہ ٹاور
اس لیے بنایا کہ وہ جاننا چاہتی تھی کہ آیا وہ Croom Courts میں اپنے گھر سے 102 میل لمبے فٹ پاتھ "Cotswold Way" کو دیکھ سکتی ھے۔
اس مقصد کیلئے فش ہل کی ٹاپ پر ایک بیکن (Beacon) روشن کیا گیا۔ اس وجہ سے مرکزی ٹاور کیساتھ ایک "Beacon Tower" کے متبادل نام سے دوسرا ٹاور بھی بنایا گیا۔
#Egyptology #ancientEgypt #Temple
کرنک مندر کمپلیکس
Karnak Temple Complex
3400 BC - 3100 BC
دریائے نیل کے مشرقی کنارے، Thebes شہر میں پر واقع کرنک مندر جو قدیم مصر کا روحانی مرکز بھی سمجھا جاتا تھا، جو 1979 میں #یونیسکو عالمی ورثے کیلئےنامزد کیا گیا۔
فرعونوں کےزمانے میں ایک مقامی
سردار "ان یوتف" نے فرعون بن کر گیارھویں خاندان کی بنیاد ڈالی۔
یہ عہد مصر کے تابناک مذہبی اور نعاشی عہد میں سے ایک کہلاتاھے۔ اسی عہد کے بادشاہوں نے فیوم (Phyum) کے علاقے میں آبپاشی کیلئے بڑےبڑے بندبنوائے جس کی شاہکار مثال "Lybrinth" اور یہ مندر ھے۔
انہی فرمانرواؤں نےتاریخ مصر کےسب
سے بڑے مندر کی تعمیر شروع کی۔ اس مندر کا مصری نام "اپت اسوت" تھا۔ آمن دیوتا کا یہ عظیم الشان مندر آج کل "کرنک مندر" کہلاتا ھے۔
مندر کے کھنڈرات کافی رقبے پر محیط ہیں اور اب بھی متاثر کن ہیں، حالانکہ مکانات، محلات اور باغات میں سے کچھ بھی باقی نہیں بچا ھے جو قدیم زمانے میں مندر کے