#Indology #Uttarpardesh #partition1947
منگل پانڈے (اکبر پور ،ریاست اترپردیش ھندوستان)
Mangal Pandey (Akberpur, UP Hindustan)
19 جولائی 1827 تا 10 مئی 1857
پہلےکسی کومذہب کیخلاف اکساءو اورجب وہ طیش میں آکر کوئی قدم اٹھائےتو اسے"بغاوت" کا نام دےکرلٹکادو۔
یہ وطیرہ ہمیشہ سےفرنگیوں نے
ھندوستانیوں سے روا رکھا اور اسی "بغاوت" کا ایک مجرم منگل پانڈے تھا جس نے 1849 میں برٹش ایسٹ انڈیا کمپنی کی فوج میں شمولیت اختیار کی۔
آزادی کی وہ جنگ (1857) جسے انگریز "بغاوت" کہتے ہیں، کاپہلا قطرہ منگل پانڈے اعلیٰ ذات برہمن زمیندار خاندان کاسپاہی مضبوط عقائد کامالک تھا لیکن پانڈے
کے کیریئر کے عزائم ان کے مذہبی عقائد سے ٹکرا گئے جب اس نے یہ سنا کہ اسلحے کو لوڈ کرنے کے لیے چکنائی والے کارتوس کے سروں کو جان بوجھ کر گائے یا سور کا سور کا گوشت تھا، جو بالترتیب ہندوؤں یا مسلمانوں کے خلاف تھا۔
مارچ 1857 میں پانڈے نے اپنے ساتھی سپاہیوں کو بیرک پور (Barrickpur) کی
فوجی چھاؤنی (Military Garrison) کےانگریز افسروں کے خلاف اکسانے کی کوشش کی اور 29 مارچ 1857 کوبرطانوی افسران پرحملہ کیا۔ روکے جانےکےبعدخود کو گولی مارنےکی کوشش کی اور آخرکار گرفتار کر لیاگیا۔
29 سالہ پانڈے پرجلد ہی مقدمہ چلایاگیا اوراسےموت کی سزاسنائی گئی جبکہ باقی ساتھوں کوانکارِ
جرم پر عمرقید کی سزا سنائی گئی۔
نانا صاحب ھوں، برسا منڈا ھو، بھگت سنگھ ھو، مہاراناپرتاب سنگھ ھو، چھترپتی ھو، اودھم سنگھ ھویامنگل پانڈے__جس جس نےھندوستان سے برطانوی راج کےپنجےاکھیڑنےمیں حصہ ڈالا گویااس نےدھرتی ماں کا قرض اداکیا۔ @threadreaderapp unroll it. #freedom #India #History
• • •
Missing some Tweet in this thread? You can try to
force a refresh
#ancient #History
پان کی تاریخ___ 5000 قبل مسیح
(Betel Quid History)__5000 BC
البیرونی کا اپنی ’کتاب الہند‘ میں ’ہندوستانیوں کےدانت سرخ ھوتے ہیں' لکھنا
امیرخسرو کاپان کا منہ کو خوشبودار بنانا
چینی سیاح آئی چنگ کاپان کوہاضم قرار دینا
ان گنت خوبیوں سےمزین اور ثقافتی رنگ سے مالا مال
پان آج کل کا نہیں بلکہ صدیاں پہلے ھندوستانی تہذیب و تمدن کا اھم جزو رہا ھے۔
پان سنسکرت زبان کےلفظ "پرنا" سےاخذ شدہ ھے جس کا مطلب ھے "پتہ".
پان کا ذکرھندوؤں کی مقدس کتاب رامائن میں کئی حوالوں سےموجود ھےجیسےبھگوان رام لمحات فرصت میں پان چباتےرھےاورسیتاکابھگوان ہنومان کو پان کاتحفہ۔
ہندو روایات کے مطابق پان دیوی دیوتاؤں کا اور پارسی اساطیر کے مطابق دیوتا پاما کا مسکن ھے۔
پان بحرالکاہل کے جزیروں میں تقریباً 3000 قبل مسیح سے 3500 قبل مسیح تک پہنچا۔ چین بھی پان کے اثر سےزیادہ دیر نہ بچ سکا۔
آسٹرینیائ خانہ بدوشوں کےذریعےپان 2500 سے3500 قبل مسیح میں پہنچاجسکاثبوت
#ਪੰਜਾਬ #ਸਿਖਾ_ਸ਼ਆਹੀ #ਰੰਜੀਤ_ਸਿੰਘ #Sikh
مہاراجہ رنجیت سنگھ کی فوج کے یورپی سپہ سالار
(European Commanders in Ranjit Singh Army)
جیسے شیخ حمید راجہ جےپال کی فوج کا کمانڈر تھا، محمود غزنوی کی فوج میں 10,000 ہندو شامل تھےبلکہ اس کی فوج کا سپہ سالار بھی سوبند رائےیعنی ایک ہندو تھا بالکل
اسی طرح عہدمہاراجہ رنجیت سنگھ میں بھی درجنوں یورپی جرنیل نوکری کرتے رھے۔
لیکن یورپی جرنیلوں کی "بہادری" کا اندازہ یہاں سے لگائیں کہ جب سکھوں پر مشکل وقت آیاتو یہ بھاری بھرکم تنخواہیں لینےوالے "ملازم" دوڑ گئےیعنی ان جرنیلوں میں سے 1846 تک اکا-دکاجرنیل ہی پنجاب میں باقی بچے۔
انگریز
جرنیل جومختلف یورپی ممالک سےتعلق رکھتےتھے، ان کے نام و عہدےکچھ یوں تھے؛ 1- Alvarine (اٹلی، پیدل فوج، لاھورمیں انتقال) 2- Gordon (گھڑسوار، لاھورمیں انتقال) 3- Ventura (اٹلی، پیدل فوج، پنجاب سے مفرور) 4- Allard (فرانس، گھڑسوار فوج، پشاور میں انتقال) 5- Court (فرانس، توپخانہ، مفرور)
#Magnificent #Hindu #Temple #Bahawalpur
کالا دھری مندر (بہاولپور، پاکستانی پنجاب)
Kaala Dhari Temple (Punjab, Pakistan)___300 yrs old
ایک زمانے میں فن تعمیر کا کمال مگر آج کا شکستہ حال بہاولپور کا 300 سالہ قدیم نوادرات جڑا "کالا دھری مندر
جسے"شری نانی دیوجی مہاراج" بھی کہاجاتاھے،
اندرون بہاولپور کی پھٹے والی گلی میں واقع ھے۔
مندر پر نظر پڑتے ہی نگاہیں ماضی کے جھروکوں سے اس عہد رفتہ میں کود جاتی ہیں جب یہ مندر تعمیر کیا گیا ھو گا تو کیسا شاندار ھو گا۔
کیونکہ مندر خوبصورت نوادرات جڑی دیواروں، شاندار لکڑی کے کام، کھدے ھوئے نقوش، ٹائل آرٹ سےآراستہ ھے۔
یہ مندر
بہاولپور کے تاریخ قد اور اہمیت کو چار چاند لگاتا ھے۔ آج مقامی ہندو بتاتے ہیں کہ وہ مندر کی خراب حالت کیوجہ سےیہاں پوجا (Ritual Ceremonies) نہیں کر پاتے۔
یہ مندر مراٹھا ہندو سلطنت نےبنایا تھا اور اسےمراٹھا برادری کےلوگ چلاتےتھے اور اسکی مالی امداد کرتےتھے۔
ایک طویل عرصےتک یہ ریاست
#HistoryBuff #Archaeology #Discovery #India
زیر آب مسجد کی دریافت____ریاست بہار (بھارت)
Mosque Re-emerges from Underwater (#Bihar)
تقریباً120 سالہ قدیم
جیسے مصر کی بندرگاہ ہراکلین سے زیر آب شہر اور چین میں زیر آب مجسمہ بدھااور شہر دریافت ھوا ھے بالکل اسی طرح چند دن قبل ریاست بہار
کے ضلع نوادہ کے چرائیلا (Chiraila) گاؤں میں زیر آب مسجد پھولواریہ ڈیم کے جنوبی سرے میں پانی کے خشک ھونےکے بعد ابھری ھے۔
اس زیر آب مسجد کاپس منظریہ ھے کہ یہ 1979 میں پھلواریہ ڈیم کی تعمیرپر کام شروع ھونے سے پہلے موجود تھی جہاں بڑی آبادی تھی جنہیں ڈیم کی تعمیرکیلیے بےدخل کیاگیاتھا۔
پہلے جب پانی کی سطح کم ھوتی تو مسجد کے گنبد کا صرف ایک حصہ نظر آتا تھا جسے لوگ نہیں سمجھ پاتے تھے کہ یہ کیا ھے؟
پرانے زمانے کے لوگ اس مسجد کا نام"نوری مسجد" سے یاد کرتے ہیں جو کہ 1985 میں پھلواریہ ڈیم کی تعمیر کےبعد زیر آب آگئی تھی۔
مسجدکی زمین سے بالائی گنبدتک اونچائی تقریباً 30
#ancient #StepWell #architecture #UttarPardesh
کرکوٹک ناگیشور ناگ مندر (وارنسی، اترپردیش)
سانپوں کا کنواں__دوسری صدی قبلِ مسیح
ناگ کنڈ یا ناگیشور جس کا لفظی مطلب ھے "سانپوں کا کنواں" بھارت کے شہر وارانسی کے علاقے جیت پورہ میں واقع ھے۔
یہ کنواں جسے مقامی زبان میں "کنڈ" کہتے ہیں،
ایک چھوٹے سےمندر کےعقب میں ھے اور ہندوؤں کیلیےمذہبی اہمیت رکھتاھے۔ 45 میٹر گہرے اس ناگیشور کنڈمیں سانپوں کی دنیاکادروازہ ھے۔
یہ کنواں پتنجلی Patanjali
(Hindu Author and Mystic, 2nd BC) نے بنوایاتھا اور یہی وہ جگہ ھےجہاں اس نے زمانہ قدیم میں پانینی(Sanskrit Grammarians, 4th BC)
کی تفسیر لکھی تھی۔
ایک بادشاہ نے 1845 میں کنویں کی تزئین و آرائش کی اور اسے وہ شکل دے دی جو آج تک قائم ھے۔
کرکوٹک ناگیشور کا کنڈ سال میں صرف ایک بار ناگ پنچمی (Naag Panchami) کے موقع پر کھولا جاتا ھے جب اس علاقے میں ایک عظیم الشان میلہ (5 اگست کو) لگایا جاتا ھے۔
#Indology #ancient #StepWell #Architecture
اگریسن کی باؤلی (دہلی، بھارت)
Agrasen ki Baoli (India)
دہلی کے قلب میں واقع مہابھارت (Ancient Sanskrit Epic Script) کے دور میں تعمیر کی گئی یہ زیرزمین آرائشی سیڑھی جو کبھی پانی کا ذخیرہ تھا آج شاندار فن تعمیر اور قدیم انجینئرنگ کی مہارت
کا ایک دنگ کر دینے والا نمونہ ھے۔
اس بارے میں کوئی واضح تاریخی ریکارڈ موجود نہیں ھے کہ شاندار اگراسین کی باؤلی کب اور کس نے تعمیر کی تاہم بہت سے مورخین کاخیال ھے کہ اسکی تعمیر مہابھارت (महाभारतम्) کےدور میں کسی اور نےنہیں بلکہ اگروہ (Agroha) کے سوریا ونشی خاندان کے بادشاہ مہاراجہ
اگرسین (Maharaja Agresan) نے کی تھی۔
14ویں صدی میں اسے اگروال برادری کے لوگوں نے دوبارہ تعمیر کیا جو مہاراجہ اگرسین کی اولادکے طور پرہی جانےجاتے تھے۔
بائولی کی تعمیراتی خصوصیات یہ بھی بتاتی ہیں کہ اسے تغلق خاندان (1321-1414) یا لودھی خاندان (1451 سے 1526) کے دہلی پر دور حکومت میں