#Prehistoric #Archaeology #Scotland
قصبہ سکارا برائے (سکاٹ لینڈ)
Skara Brae Village (Orkney Island, Scotland)
5000 BC to 3200 BC
اہرام مصر کی ہمعصر یورپ کی سب سے شاندار قبل از تاریخ (Prehistoric) باقیات
جسے 1850 میں ایک چرواہے (Shepherd) اور طوفان نے اچانک دریافت کیا۔
سکارا برائے
پتھر کے زمانے (Stone Age) کے سب سے زیادہ محفوظ دیہاتوں میں سےایک ھےجو ریت کے ٹیلوں سے مکمل ڈھکا ھوا تھا۔
1850 کے ایک زبردست طوفان سے بے نقاب ھوا۔
بقول آرکیڈین مورخ ڈاکٹر ارنسٹ ماروِک طوفان سےقبل یہ ایک مکمل "افسانہ" تھا۔
1860میں ولیم واٹ (William Watt) نےچارعمارتوں کی کھدائی کی۔
1926 میں ایک اور طوفان کے بعد برطانوی وزارتِ آثارِ قدیمہ نےمزید کھدائی شروع کی۔ 1970 کی دہائی کے دوران ریڈیو کاربن ڈیٹنگ نےثابت کیاکہ یہ بستی تقریباً 3200 سے 2200 قبل مسیح تک آباد تھی۔
4,000سالوں سے بستی کوڈھانپنے والی ریت نے ان کے میٹیریل اورڈھانچے کوناقابل یقین حدتک محفوظ رکھا۔
دیواریں جو اب بھی کھڑی ہیں اور گلیوں کی چھتیں ان کے اصلی پتھر کے سلیبوں سے بنی ہیں۔ بلکہ ہر گھر کے اندرونی سامان زندگی بھی ھے جو نیو لیتھک آرکنی کی جھلک پیش کرتاھے۔
ہر گھر کاایک ہی بنیادی ڈیزائن ھے: ایک بڑا مربع کمرہ، مرکزی چمنی، دونوں طرف ایک بستر اور دروازے کےسامنے دیوارپر شیلف
ڈریسر۔
1999 میں سکارا برائے کو #یونیسکو عالمی ورثے کا حصہ قرار دیا گیا۔ یہ گاؤں ساحلی کٹاؤ اور ریت اور سمندر کے حملے سے مسلسل خطرے میں ھے۔ اس کے علاوہ سالانہ سائٹ پر آنے والوں کی تعداد بھی مسلسل بڑھ رہی ھے۔
@threadreaederapp unroll. #UNESCO #Heritage #History
• • •
Missing some Tweet in this thread? You can try to
force a refresh
#Indology #England #RoyalFamily
"کوہ نور ہیرا"
Koh-i-Noor Apple
مغلوں کےتاج کافخر،سکھوں کی مالا کاگوہر نایاب بیضوی(مانند انڈہ)ہیراجسکا 1304ءمیں وزن 186قیراط تھا, برطانیہ کےتاج کی چوٹی تک کیسےپہنچا؟
ریاست حیدرآباد(بھارت)کی گولکنڈہ مائن (Golkonda Mine)سےدریافت ھونےوالا کوہ نورہیرا
جس کی آج قیمت 12B$ ھے، جنوبی ایشیاء ( South Asia) کی 1400 سالہ طویل تاریخ کاعکاس ھے، غم ماز ھے۔
کوہ نور برطانوی سامراجی (Colonialism), غیر ملکی قبضے، جنگوں، قتل و غارت، ہماری حماقتوں اور بزدلی کی یاد دلاتا ھےاور ان گنت سوالات کوجنم دیتاھے۔
6 مئی2023 کوجس تاج نےرسم تاجپوشی کےسلسلے
میں برطانیہ کی ہزاروں سالہ شہنشاہیت کے امین ملکہ Camilla Parker اور بادشاہ چارلس کے سر پر سجایا جانا ھے اس میں جڑا "کوہ نور ہیرا" ہمیں ایک تلخ اور تکلیف دہ ماضی کی یاد دلاتاھے۔
فارسی زبان کے لفظ "کوہ نور" جس کےمعانی ہیں "روشنی کا مینار" (Mountain of Light), دنیا کاسب سےبڑاہیراھے۔
#British #architecture #Heritage #Peshawar
کنگھم گھنٹہ گھر (پشاور، پاکستان)
Cunningham Clock Tower__1900ء
مشکل ھےکہ پاکستان کےکسی ایک شہر کو بحوالہ تاریخ "دل" کہاجائے!
یہ گھنٹہ گھر کہاں کہاں نہیں!
کبھی لندن میں توکبھی لائلپورمیں، کبھی سیالکوٹ میں اور کبھی "پھولوں کےشہر" پشاورمیں!
ملکہ برطانیہ وکٹوریہ کی ڈائمنڈ جوبلی کے اعزاز میں شہر بےمثال پشاور (صرافہ بازار، محلہ باقر شاہ) میں تعمیر کیا گیا یہ "کلاک ٹاور" جسے اس وقت کے پشاور کے گورنر اور سیاسی ایجنٹ "Sir George Cunningham" کے نام سے منسوب کیا گیا تھا۔
انفرادیت اور خوبصورت میں یکتا اورپشاور شہرکی پہچان یہ
گھنٹہ گھر پشاور شہر کے ضلعی انجینیئر James Strachan نے تیار کیا۔
موءرخین کے مطابق کلاک ٹاور کی تعمیر بالموکنڈ خاندان (Balmukand Family) کی طرف سے فنڈ کی گئی تھی۔ یہ خاندان تقسیم کے بعد پشاور سے امرتسر، ہندوستان ہجرت کر گیا اور اس وقت ہندوستان میں 'کلاک ٹاور' برانڈ کے تحت فوڈ
#اردو #صحافت #journo #History
"اخبار جام جہاں نما"
اجراء: کلکتہ (1822ء)
دنیابھرمیں اردوصحافت کا دوسو سالہ جشن منایاجا رہاھےاور قابلِ حیرت حقیقت یہ ھےکہ غیرمنقسم ھندوستان میں اردوصحافت کا آغازہندؤوں نےکیاتھا،مسلمان توبعدمیں شامل ھوئے۔
27مارچ 1822میں اردو کےپہلےاخبار "جام جہاں نما"
کا اجراء پنڈت ہری ہردت نے کلکتہ (ھندوستان) سے کیا۔ اسکے ایڈیٹر منشی سدا سکھ لال تھے۔ یہ ایک ہفت روزہ اخبار تھا جس کا رسم الخط "نستعلیق" یعنی "Proto-Indo-Iranian" تھا۔
جام جہاں نما یورپ میں بھی اس طرح مقبول عام تھاجیسے ھندوستان میں۔ اسلیے اس اخبار کواردو کے اولین اور باقاعدہ اخبار
کی سند دی جا سکتی ھے۔
ٹیپو سلطان کی شہادت کے بعد انگریزوں نے ھندوستانی حالات اور مستقبل بھانپتے ھوئے تمام پریس اور فوجی اخبارات کی فائلوں کو ضبط کر لیا تھا بلکہ آگ لگا دی تھی۔
اس لیے جام جہاں نما پر بھی کنٹرول اور سنسرشپ کی ہدایت تھی لہذا اسی اخبارکی وجہ سے1823 میں برصغیرمیں پہلا
#ancient #architecture #mounting #Turkiye
سمیلاخانقاہ (صوبہ ترابزون، ترکیہ)
Sumela Monestary(Trabzon, Turkiya)__4th C.
تقریباً1600سالہ قدیم پہاڑکی اوڑھ میں لٹکتی ھوئی شاہی عیسائی عبادت گاہ سمیلاجوترابزون سےکبھی جدانہیں ھوسکتی۔
ترکی کےصوبہ ترابزون میں پونٹک پہاڑ (Pontic Mountains)
کے اندر میلا ماؤنٹین (Mela Mountain) پر واقع یہ عمارت ایک یونانی آرتھوڈوکس خانقاہ تھی جو دوشیزہ مریم (Jesus' Mother) کے لیے وقف تھی۔ یہ خانقاہ عیسائی دنیا کی قدیم ترین خانقاہوں میں سے ایک ھے۔
لفظ "Sumela" دراصل "Mela" سے اخذ شدہ ھے جسکا مطلب ھے "کالا". چونکہ اس کمپلیکس میں "مریم"
کی مشہورِ زمانہ سیاہ پینٹنگ آویزاں ھے، اسی نسبت سے اس پہاڑ کو بھی "Mela" کہا جاتا ھے۔
اس جگہ پر عبادت گاہ کا مقصد پرسکون اور الگ تھلگ مقام تھا۔ مؤرخین کے مطابق خانقاہ کی بنیاد دو پادریوں، برناباس اور سوفرونیئس نے ایتھنز سے شہنشاہ تھیوڈوسیئس اول (Theodosius 1, AD 375-395) کےدورمیں
#ਪੰਜਾਬ #ਵਾਰੇਗੁਰੂ_ਜੀ #Gurdwara #Pakistan
گوردوارہ دربارصاحب کرتارپور (شکر گڑھ تحصیل، نارووال پاکستان)
کرتار(ਕਰਤਾਰ) جس کے لفظی معانی "Creator/Lord" کےہیں، سکھوں کےسات اھم ترین مقامات میں سےایک سفیدمالائی حسن سےمالامال ایک جاذب نظرسیاحتی مقام جہاں سکھوں کےمذہبی پیشوا اوربانی گرونانک
(اصل نام سدھارتھ) نےاپنی زندگی کےآخری 18سال گزارےاور یہیں وفات پائی۔
*دربار کرتا پور راوی کنارے پاکستان کے صوبہ پنجاب کےضلع ناروال کا سرحدی علاقہ ھے۔
بابانانک ستمبر 1521 کو اس مقام پر تشریف لائے، پڑاؤ ڈالا اور کرتارپور کےنام سےیہ گاؤں آبادکیا۔
ابتداء دربارصاحب کی مقامی جگہ مختصر
ھونے کے سبب 1921 تا 1929 کے درمیان پٹیالہ کے مہاراجہ بھوپندر سنگھ بہادر نے اس کی مکمل اور وسیع العرض تعمیر کروائی۔
آج بھی وقفے وقفے سے حکومت پاکستان بین المذاھب احترام و یکجہتی کے سبب گوردوارے کی تزئین و آرائش کو اپنا فرض سمجھ کر کرتی ھے۔
بھارت سے تعلقات میں اونچ نیچ کے باوجود
کیلئے مخصوص ھے۔
ماہر آثار قدیمہ کے مطابق یہ مندر 1200 سال پرانا ھے لیکن موءرخین اس مندر کو 1400 قبل مسیح میں بھگوان سری کرشنا کے پڑپوتے وجرنابھ سے جوڑتے ہیں۔
وجرنابھ نے جب اس مندر کو تعمیر کیا تھا یہ یہ ایک شاندار ڈھانچہ تھا جو بحیرہ عرب کے پانیوں سےاٹھتا دکھائی دیتا تھا۔
اس مندر
کو "جگت مندر" بھی پکارا جاتا ھے، اسے جھل ظالم سنگھ نے گیارہویں صدی میں تازہ کیا۔
اس کاشاندار نقش و نگار 43 میٹر بلند اور 52گزکپڑے سےبنابڑاجھنڈا 10 کلومیٹر دورسے دیکھا جا سکتا ھے۔
مندر نرم چونے کے پتھر سے بنایا گیا ھے اور اس میں ایکمقبرہ اور ایک مستطیل ہال ھے جس کے3اطراف پورچ ہیں۔