#Egyptology #ancientEgypt #Temple
کرنک مندر کمپلیکس
Karnak Temple Complex
3400 BC - 3100 BC
دریائے نیل کے مشرقی کنارے، Thebes شہر میں پر واقع کرنک مندر جو قدیم مصر کا روحانی مرکز بھی سمجھا جاتا تھا، جو 1979 میں #یونیسکو عالمی ورثے کیلئےنامزد کیا گیا۔
فرعونوں کےزمانے میں ایک مقامی
سردار "ان یوتف" نے فرعون بن کر گیارھویں خاندان کی بنیاد ڈالی۔
یہ عہد مصر کے تابناک مذہبی اور نعاشی عہد میں سے ایک کہلاتاھے۔ اسی عہد کے بادشاہوں نے فیوم (Phyum) کے علاقے میں آبپاشی کیلئے بڑےبڑے بندبنوائے جس کی شاہکار مثال "Lybrinth" اور یہ مندر ھے۔
انہی فرمانرواؤں نےتاریخ مصر کےسب
سے بڑے مندر کی تعمیر شروع کی۔ اس مندر کا مصری نام "اپت اسوت" تھا۔ آمن دیوتا کا یہ عظیم الشان مندر آج کل "کرنک مندر" کہلاتا ھے۔
مندر کے کھنڈرات کافی رقبے پر محیط ہیں اور اب بھی متاثر کن ہیں، حالانکہ مکانات، محلات اور باغات میں سے کچھ بھی باقی نہیں بچا ھے جو قدیم زمانے میں مندر کے
احاطے کے گرد گھیرا ھوا ھو گا۔
اس کا مرکزی بڑا دروازہ (Pylon), مینار (Oblesik
یہ بھی سچ ھے کہ کمپلیکس کئی ادوار میں تبدیل بھی کیا جا چکا ھے۔ اگر اس مندر کو صرف کی پہچان کیا جائے تو بے جا نہ ھو گا۔
ایسی ہی ورطہ حیرت میں ڈالنے والی تعمیرات
کی وجہ سے ماہرینِ آثارِ قدیمہ بھی یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ "مصر نام ہی حیران کر دینے والے سلسلوں کا ھے".
#ancient #civilization #Archaeology #India
دھولاویرا گاءوں (بھارتی گجرات)(Dholavira Town)
3500 قبل مسیح تا 1800 قبل مسیح
تہذیب وادی سندھ (Indus Valley Civilization, ICV)کی 1400سائیٹس میں سے 925 بھارت میں، 475 پاکستان میں اور چند ایک افغانستان میں پائی گئی ہیں۔
ریاست گجرات (بھارت)
میں واقع ڈھولاویرا قصبہ جس کا مقامی گجراتی نام Kotada Timba ھے، قدیم "وادی سندھ کی تہذیب" کی لاتعدادباقیات رکھنے کی وجہ سے ھندوستان کے لیے نہایت اہمیت کاحامل آثارقدیمہ کا مقام ھے۔
یہ ہڑپہ تہذیب کے قدیم شہر کےکھنڈرات کی نمائندگی کرتا ھےجو 3000 قبل مسیح سے 1800قبل مسیح تک 1,200 سال
کے عرصے میں آباد تھا۔ یہ سائٹ بھارتی ریاست گجرات کےضلع کچ کے گاؤں دھولاویرا (جہاں سے اس کا نام پڑا) کے قریب واقع ھے۔ دھولاویرا کا 250 ایکڑ رقبہ رن کچھ کے خدیر جزیرے پر پھیلا ھوا ھے۔
دھولاویرا سائیٹ سے 400 سےزائد علامتی نشان اور Inscriptions جو بائیں سےدائیں تحریرہیں،پائے گئے ہیں۔
#part 3 #ancient #Greece
جسم فروشی کا کاروبار (Business of Prostitution)
600 سال قبلِ مسیح
"جسم فروشی" کا آغاز کب اورکہاں سےھوا اور یہ ایک منظم کاروبار کیسےبنا؟
یہ آج کل یاغریب ممالک کا ایجاد کردہ ڈھکا چھپا بزنس نہیں بلکہ زمانہ قدیم کےقوانین وضوابط کیساتھ ایک مکمل کاروبارتھا اور
یونان اسکا Pioneer ھے۔
یونانی شاعر،قانون دان اورسٹیٹس مین سولن (Solon, 630 BC- 569 BC)ہی وہ پہلاشخص تھاجس نےجسم فروشی کاپہلا"چٹکلہ" (طرب آب)قائم کیا۔ یونان میں ان عورتوں کو "پورنائی" کہاجاتاتھا۔
تمام موءرخین اس پرمتفق ہیں کہ سولن نےاسےایک منافع بخش کاروباراور روزگارکاوسیلہ بنایا۔
شروع میں یونان کے مختلف شہروں میں جسم فروشی کے اڈے کھولے گئےاور مذہبی عورتوں کو عصمت دری کیلئے رکھا گیا۔
اڈوں کا مالک قبیلہ یا قبیلے کاحاکم ہی ھوتا تھا۔ لوگوں کی بڑی تعداد نےاس طرف رجوع کیا جو زیادہ تر غریب تھی۔ان عورتوں کی عموماً40سال کی عمر تک وفات و جاتی تو انکی اولادیں یہ جگہ
#Indology #Church #India
کانپور میموریل چرچ (کانپور, اتر پردیش) 1875
Kanpur Memorial Church (Canpur، Utter Pardesh)__1875
لومبارڈی گوتھک (Lombardi Gothic) اسٹائل میں ایسٹ بنگال ریلوے کے آرکیٹیکٹ والٹر لانگ بوزی گرانویل(Walter Long Bozzi Granville, 1819-1874) کا تعمیر کردہ شاہکار
یادگاری چرچ ایک متاثر کن تعمیراتی عمارت ھے جسے "All Civil Cathedral" بھی کہا جاتا ھے۔
یہ چرچ 1875میں برطانوی فوجیوں کی جرات اوربہادری کی یاد میں تعمیر کیاگیاتھا جنہوں نے1857 کےکانپور، اترپردیش میں ہنگامہ خیزسپاہی بغاوت میں اپنی جانیں قربان کی تھیں۔
میموریل چرچ مصلوب شکل(Crucifix)
میں سرخ ریت کے پتھر سے بنا ھے جس کے درمیان میں اسپائر کیساتھ کیمپینائل (گھنٹی ٹاور) ھے۔چرچ کے مرکز میں ایک فرشتہ کا ایک خوبصورت مجسمہ کھڑاھے جسے نامور بیرن کارلو ماروچیٹی نے ڈیزائن کیاھے۔
چرچ کے اندر یادگاری میزیں، نوشتہ جات اور یادگاریں ہیں جو ان فوجیوں کوخراج عقیدت پیش کرتی ہیں
#archaeohistories #India #mughal #History
شاہجہان آباد اور اس کے دروازے (Shahjahanabad/Dilli Gates)
بھارت کے شہر دہلی اور اسکے گردونواح (Outskirts) علاقوں کاذکر ھندوؤں کی مقدس کتاب "مہابھارت" میں مختلف ناموں سے ملتا ھے۔
یہ شہر 1400سال قبل مسیح میں پانڈوؤں اور کوروں نےآباد کیاتھا۔
کم لوگوں کے علم میں ھو گاکہ شاہجہان آباد پرانی دلی (بھارت) کا پرانا نام ھے جسے مغل بادشاہ شاہجہان نے 1639 تا 48 کے درمیان دریائے جمنا کے جنوب مشرقی کنارے دریافت کیا تھا۔
1648 میں جب بادشاہ شاہجہان نے اپنا دارالحکومت آگرہ سے دہلی کو بنایا تو اس کا نام "دلی" سے تبدیل کر دیا گیا۔
گویا ایک وقت میں دہلی کو شاہجہان آباد بھی کہا جاتا تھا۔
شاہی عدالتوں، پرکشش مساجد، امراء کے محلات، یادگاریں، مینشنز سے بھرے دہلی کو اردگرد سے 12فٹ چوڑی، 26 فٹ اونچی اور 6.1 مربع کلومیٹر لمبی دیوار گھیرے ھوئے ھے۔
اسکےعلاؤہ دہلی کی وجہ شہرت اسکے14 دروازےہیں جنہیں 7ویں صدی میں تعمیر
#Archaeology #architecture #Portugal
Initiate Spiral Well (Sintra)
1904 AD - 1910 AD
آرکیٹیکٹ Manini کا شاہکار فری میسنری (Freemasonry) کنواں
"زیرزمین تعمیر" کی گوتھک، مصری، موریشس اورنشاۃ ثانیہ کےفن تعمیرپر مبنی #یونیسکو عالمی ثقافتی ورثےکی ایک پراسرارمثال سنترا (پرتگال) کےباغات
میں واقع "Initiate Well" ھے جوزمین کے گہرائی تک، الٹے ٹاوروں کی طرح سرپل ھے۔
اس کنوئیں کو آرکیٹیکٹ اورسیٹ ڈیزائنر Luigi Manini تھے 1904 اور 1910 کے درمیان کافر اورعیسائی علامت کے طوراسے تعمیر کیا۔
یہ کنواں کبھی بھی پانی کےذخیرے کےطور پراستعمال نہیں ھوتاتھا بلکہ اسکےبجائے یہ نائٹس
آف ٹیمپلر (Knights of Templar) کی روایت کے ایک پراسرار ابتدائی رسم کا حصہ تھے۔ سنترا کے یہ باغات "Quinta da Regaleira Mountain" پر واقع ہیں۔
سنٹرا کا پراسرار 'الٹا ٹاور' کے بہت سے مالکان رہے ہیں، لیکن یہ António Augusto Carvalho Monteiro تھا، جو 20ویں صدی کے اختتام پر پرتگال کے
#women #Muslims #Rulers
رضیہ سلطانہ (1205-1240)
First and Last Female Ruler of #Delhi Sultanate
رضیہ سلطانہ قیسی رام پوری کے ناول کا عنوان یامرکزی کردار ہی نہیں بلکہ تاریخ میں رقم حقیقی ترک خاندان غلاماں (Slave Dynasty) کے سلطان شمس الدین التمش کی بیٹی اور ھندوستان کی پہلی مسلمان
غیر شادی شدہ خاتون حکمران بھی ھے۔
رضیہ کو 1236 سے 1239 تک حکمرانی کا شرف حاصل رہا جو اسکے سات بھائیوں میں سے کسی ایک کو بھی نہ مل سکا۔
جب اس نے10 نومبر 1236 کوجلال الدین رضیہ کے سرکاری نام کیساتھ تخت سنبھالا تو اس نےاپنےروایتی مسلم خواتین کےلباس بشمول پردہ کوترک کرنےکاشعوری فیصلہ
کیاجس نےقدامت پسندمسلمانوں کےغصے کو ھوا دی۔
لیکن یہ مختصر سا عرصہ بھی رضیہ کیلئے وبال جان بن گیا تھا کیونکہ "سازشیں" جو مسلم بادشاہوں کی تاریخ کا ایک بدنما داغ رہی ہیں، رضیہ بھی اسی داغ کاشکار ھوئی جب اسےافریقہ حبشی غلام یاقوت (اصل نام جمال الدین) کیساتھ جوڑاگیاجوکہ اس کی زوال کی