#architecture #archaeohistories #Iran
Rock-Cut Art
طاق بوستاں (کرمانشاہ، ایران)
Taq-e Bostan (Kirmanshah, Iran)
A Glory of Sassanid Kings
Circa: 4th C
Period: Sassanid Era (3 c - 7 c)
قدیم بابل ونینوا کی تہذیبوں کااور زرتشتی مذہب کاوارث خطہ ایران میں چٹانی طرزتعمیر کاایک اورحیران
کر دینے والا شاہکار
طاق بوستاں مغربی ایران کے شہر کرمانشاہ کے بالکل شمال مشرق میں واقع ھے جو ساسانی نسل (تیسری سے ساتویں صدی عیسوی) کی چٹانوں کی نقش و نگار (Bas-relief) کیلیے جانا جاتا ھے۔
طاق بوستاں دراصل ساسانی عہد کے بادشاہ اردشیر دوم (Ardeshire ۱۱، 379-383) کے دورحکومت کی ایک
یادگار ھے اور چٹانی طرزتعمیر کا دنگ کر دینے والا شاہکار ھے۔
طاق بوستان آثارِقدیمہ کی جگہ زگروس پہاڑوں (Zargos Mountains)، جو جنوب مغربی ایران کے ترکی اور عراق تک پھیلی ھوئی ہیں، کے مرکز میں واقع ھے۔ یہ تین اہم حصوں پر مشتمل ھے: اردشیر II، بڑا طاق، اور چھوٹا طاق۔
اردشیر دوم اور
بعد کے بادشاہ شاپور III (383-388) کی سرمایہ کاری کی نمائشیں شامل ہیں۔ آئیوان (Iwan) کی شکل میں کھدی ھوئی شاندارغار طاقت اورجلال کی علامت ھے۔ یہ بتانا ضروری ھے کہ طاق بوستاں ساسانی عہد کی موسیقی، پینٹنگ اور نوشتہ جات کامجموعہ ھے۔
طاق بوستاں کو1931 میں ایران کی "National Monuments"
میں رجسٹرڈ کیا گیا۔
کتابوں میں لکھا مٹ سکتا ھے، ذہن پر نقش بھی دھندلا سکتا ھے مگر پتھروں پر کھدی ھوئی تحریریں اور خاکے نہ تو جھوٹ بول سکتے ہیں اور نہ ہی مٹائے جا سکتے ہیں۔
#Indology #architecture #Rajhastan
مہرگڑھ قلعہ (جودھ پور، بھارت)
1460ء__ھندوستان کے شاندار ماضی کا عکاس
ریاست راجھستان کے دوسرے بڑا شہر جودھ پورمیں واقع 1200 ایکٹر پر پھیلا منفرد قلعہ مہرگڑھ جسے "جودھ پورقلعہ" بھی کہا جاتاھے، کی قلعے کی تاریخ راجہ راءوجودھ سےجاری ھے جس نےاسے 1460
میں تعمیر کروایا اور اسی نسبت سے اسکا نام بھی منتخب کیا۔
وہ پہاڑی جس پر طاقتور قلعہ کھڑا ھے درحقیقت ایک سنیاسی کاگھر تھاجسے چیریا ناتھ جی کے نام سےجاناجاتاھے۔ اپناگھر کھونےپر اس نےزمین پر لعنت بھیجی۔
جودھ پورشہرکی بنیادبھی 1459میں راجہ جودھ نےہی رکھی جوایک راجپوت تھااور راجپوتانہ
کےتاریخی علاقے کےجنگجو حکمرانوں میں سے ایک تھا اور جودھپور کی شاہی ریاست کے دارالحکومت کےطور پر کام کرتاتھا۔
جودھ پور کے کچھ حصے 18ویں صدی کی دیوار سےگھرےھوئے ہیں۔ مہران گڑھ قلعہ، جس میں مہاراجہ کامحل اور ایک تاریخی میوزیم بھی ھے، ایک الگ تھلگ چٹان پربنایا گیا ھےجو شہر پرحاوی ھے۔
#architecture #technology #Dubai #UAE
پام جمیرہ جزیرہ (دبئی، متحدہ عرب امارات)
Palm Jumeirah #Island (UAE)__2010
"ھےدیکھنے کی چیز اسے باربار دیکھ"
جدت اورٹیکنالوجی کی حدوں کو توڑتا اور خوبصورتی میں آسمان کی بلندیوں کوچھوتا کھجور کے پتےکی مانند مصنوعی جزیرہ
دبئی (متحدہ عرب امارات)
کے Persian گلف میں واقع "Jumeirah Hotel Chain" کا تیار کردہ ایک مصنوعی (Human Made) جزیرہ ھے جو دبئی حکومت کی ماتحت ڈویلپر نخیل (Developers Nakheel) کے ذریعے تعمیر کیاگیاھے۔
پام جمیرہ ان تین جزیروں میں سےایک ھے جسےپام آئی لینڈز (Palm Islanders) کہا جاتا ھے۔ یہ جزیرہ دبئی کے ساحل
کو کل 520 کلومیٹر تک بڑھا دیتا ھے۔
پام جمیرہ تین پام جزائر پام جمیرہ، پام جیبل علی اور پام دیرا میں سب سےچھوٹا ھے مگر یہی اصل ھے۔ یہ امارات دبئی کےجمیرہ ساحلی علاقے پرواقع ھے۔
کھجور کے پتےکی شکل میں یہ جزیرہ ایک تنے، 17جھنڈوں والےایک تاج، اور ارد گرد کےایک کریسنٹ جزیرےپر مشتمل ھے
#Architecture #archives
براڈوے ٹاور (قصبہ براڈوے، انگلینڈ)
Broadway Tower Town Broadway, (#England)__18th C
اٹھارویں صدی کے اوآخر کی ایک سمارٹ مگر جاذب نظر حماقت
انگریز بھی مغلوں سے کم احمق نہ تھے.
قصبہ براڈوے کےسبزہ زار میں تنہا کھڑا براڈوے ٹاور جواکثر "Fish Tower" بھی کہلاتاھے،
ٹاور کو لیڈی کوونٹری (Lady Coventry/ 1733-1760) میں فش ہل پر ماہر تعمیرات "Lancelot Capability Brown" نےبنایا۔
ٹاور62 فٹ اونچاھے اور 16 کاؤنٹیوں میں شاندار نظارے پیش کرتا ھے۔
لیکن ٹاورکیوں بنایا؟
لیڈی کوونٹری لیڈی جوچھٹے ارل جارج ولیمز (Earl George Williams)کی بیوی تھی، نےیہ ٹاور
اس لیے بنایا کہ وہ جاننا چاہتی تھی کہ آیا وہ Croom Courts میں اپنے گھر سے 102 میل لمبے فٹ پاتھ "Cotswold Way" کو دیکھ سکتی ھے۔
اس مقصد کیلئے فش ہل کی ٹاپ پر ایک بیکن (Beacon) روشن کیا گیا۔ اس وجہ سے مرکزی ٹاور کیساتھ ایک "Beacon Tower" کے متبادل نام سے دوسرا ٹاور بھی بنایا گیا۔
#Egyptology #ancientEgypt #Temple
کرنک مندر کمپلیکس
Karnak Temple Complex
3400 BC - 3100 BC
دریائے نیل کے مشرقی کنارے، Thebes شہر میں پر واقع کرنک مندر جو قدیم مصر کا روحانی مرکز بھی سمجھا جاتا تھا، جو 1979 میں #یونیسکو عالمی ورثے کیلئےنامزد کیا گیا۔
فرعونوں کےزمانے میں ایک مقامی
سردار "ان یوتف" نے فرعون بن کر گیارھویں خاندان کی بنیاد ڈالی۔
یہ عہد مصر کے تابناک مذہبی اور نعاشی عہد میں سے ایک کہلاتاھے۔ اسی عہد کے بادشاہوں نے فیوم (Phyum) کے علاقے میں آبپاشی کیلئے بڑےبڑے بندبنوائے جس کی شاہکار مثال "Lybrinth" اور یہ مندر ھے۔
انہی فرمانرواؤں نےتاریخ مصر کےسب
سے بڑے مندر کی تعمیر شروع کی۔ اس مندر کا مصری نام "اپت اسوت" تھا۔ آمن دیوتا کا یہ عظیم الشان مندر آج کل "کرنک مندر" کہلاتا ھے۔
مندر کے کھنڈرات کافی رقبے پر محیط ہیں اور اب بھی متاثر کن ہیں، حالانکہ مکانات، محلات اور باغات میں سے کچھ بھی باقی نہیں بچا ھے جو قدیم زمانے میں مندر کے
#ancient #civilization #Archaeology #India
دھولاویرا گاءوں (بھارتی گجرات)(Dholavira Town)
3500 قبل مسیح تا 1800 قبل مسیح
تہذیب وادی سندھ (Indus Valley Civilization, ICV)کی 1400سائیٹس میں سے 925 بھارت میں، 475 پاکستان میں اور چند ایک افغانستان میں پائی گئی ہیں۔
ریاست گجرات (بھارت)
میں واقع ڈھولاویرا قصبہ جس کا مقامی گجراتی نام Kotada Timba ھے، قدیم "وادی سندھ کی تہذیب" کی لاتعدادباقیات رکھنے کی وجہ سے ھندوستان کے لیے نہایت اہمیت کاحامل آثارقدیمہ کا مقام ھے۔
یہ ہڑپہ تہذیب کے قدیم شہر کےکھنڈرات کی نمائندگی کرتا ھےجو 3000 قبل مسیح سے 1800قبل مسیح تک 1,200 سال
کے عرصے میں آباد تھا۔ یہ سائٹ بھارتی ریاست گجرات کےضلع کچ کے گاؤں دھولاویرا (جہاں سے اس کا نام پڑا) کے قریب واقع ھے۔ دھولاویرا کا 250 ایکڑ رقبہ رن کچھ کے خدیر جزیرے پر پھیلا ھوا ھے۔
دھولاویرا سائیٹ سے 400 سےزائد علامتی نشان اور Inscriptions جو بائیں سےدائیں تحریرہیں،پائے گئے ہیں۔
#part 3 #ancient #Greece
جسم فروشی کا کاروبار (Business of Prostitution)
600 سال قبلِ مسیح
"جسم فروشی" کا آغاز کب اورکہاں سےھوا اور یہ ایک منظم کاروبار کیسےبنا؟
یہ آج کل یاغریب ممالک کا ایجاد کردہ ڈھکا چھپا بزنس نہیں بلکہ زمانہ قدیم کےقوانین وضوابط کیساتھ ایک مکمل کاروبارتھا اور
یونان اسکا Pioneer ھے۔
یونانی شاعر،قانون دان اورسٹیٹس مین سولن (Solon, 630 BC- 569 BC)ہی وہ پہلاشخص تھاجس نےجسم فروشی کاپہلا"چٹکلہ" (طرب آب)قائم کیا۔ یونان میں ان عورتوں کو "پورنائی" کہاجاتاتھا۔
تمام موءرخین اس پرمتفق ہیں کہ سولن نےاسےایک منافع بخش کاروباراور روزگارکاوسیلہ بنایا۔
شروع میں یونان کے مختلف شہروں میں جسم فروشی کے اڈے کھولے گئےاور مذہبی عورتوں کو عصمت دری کیلئے رکھا گیا۔
اڈوں کا مالک قبیلہ یا قبیلے کاحاکم ہی ھوتا تھا۔ لوگوں کی بڑی تعداد نےاس طرف رجوع کیا جو زیادہ تر غریب تھی۔ان عورتوں کی عموماً40سال کی عمر تک وفات و جاتی تو انکی اولادیں یہ جگہ