#HistoryBuff #Archaeology #Discovery #India
زیر آب مسجد کی دریافت____ریاست بہار (بھارت)
Mosque Re-emerges from Underwater (#Bihar)
تقریباً120 سالہ قدیم
جیسے مصر کی بندرگاہ ہراکلین سے زیر آب شہر اور چین میں زیر آب مجسمہ بدھااور شہر دریافت ھوا ھے بالکل اسی طرح چند دن قبل ریاست بہار
کے ضلع نوادہ کے چرائیلا (Chiraila) گاؤں میں زیر آب مسجد پھولواریہ ڈیم کے جنوبی سرے میں پانی کے خشک ھونےکے بعد ابھری ھے۔
اس زیر آب مسجد کاپس منظریہ ھے کہ یہ 1979 میں پھلواریہ ڈیم کی تعمیرپر کام شروع ھونے سے پہلے موجود تھی جہاں بڑی آبادی تھی جنہیں ڈیم کی تعمیرکیلیے بےدخل کیاگیاتھا۔
پہلے جب پانی کی سطح کم ھوتی تو مسجد کے گنبد کا صرف ایک حصہ نظر آتا تھا جسے لوگ نہیں سمجھ پاتے تھے کہ یہ کیا ھے؟
پرانے زمانے کے لوگ اس مسجد کا نام"نوری مسجد" سے یاد کرتے ہیں جو کہ 1985 میں پھلواریہ ڈیم کی تعمیر کےبعد زیر آب آگئی تھی۔
مسجدکی زمین سے بالائی گنبدتک اونچائی تقریباً 30
فٹ ھے۔ مسجد کے گنبد کے فن تعمیر کو دیکھ کر ایسا نتیجہ اخذ کیا جاتا ھے جو کہ آخری مغلوں کے زمانے میں بنائے گئے۔
کئی خاندان مسجد دیکھنے کیلیے تجسس سےاسکی طرف بھاگے۔
وہ مسجد کےاندر داخل ھوئےاور دیکھ کر حیران رہ گئے کہ عمارت مکمل طور پر برقرار تھی۔ یہ مسجد کاسب سے دلکش حصہ تھا کہ کئی
دہائیوں تک زیر آب رہنے کے بعد بھی اس کے ڈھانچے کو کوئی معمولی نقصان نہیں پہنچا۔
لیکن ظاہر ھے اب ستم ظریفی تو یہ ھو گی کہ انڈیا جیسے ملک میں "تاج محل" سے مشابہ اس مسجد کا مستقبل غیر یقینی ھے۔
#Magnificent #Hindu #Temple #Bahawalpur
کالا دھری مندر (بہاولپور، پاکستانی پنجاب)
Kaala Dhari Temple (Punjab, Pakistan)___300 yrs old
ایک زمانے میں فن تعمیر کا کمال مگر آج کا شکستہ حال بہاولپور کا 300 سالہ قدیم نوادرات جڑا "کالا دھری مندر
جسے"شری نانی دیوجی مہاراج" بھی کہاجاتاھے،
اندرون بہاولپور کی پھٹے والی گلی میں واقع ھے۔
مندر پر نظر پڑتے ہی نگاہیں ماضی کے جھروکوں سے اس عہد رفتہ میں کود جاتی ہیں جب یہ مندر تعمیر کیا گیا ھو گا تو کیسا شاندار ھو گا۔
کیونکہ مندر خوبصورت نوادرات جڑی دیواروں، شاندار لکڑی کے کام، کھدے ھوئے نقوش، ٹائل آرٹ سےآراستہ ھے۔
یہ مندر
بہاولپور کے تاریخ قد اور اہمیت کو چار چاند لگاتا ھے۔ آج مقامی ہندو بتاتے ہیں کہ وہ مندر کی خراب حالت کیوجہ سےیہاں پوجا (Ritual Ceremonies) نہیں کر پاتے۔
یہ مندر مراٹھا ہندو سلطنت نےبنایا تھا اور اسےمراٹھا برادری کےلوگ چلاتےتھے اور اسکی مالی امداد کرتےتھے۔
ایک طویل عرصےتک یہ ریاست
#ancient #StepWell #architecture #UttarPardesh
کرکوٹک ناگیشور ناگ مندر (وارنسی، اترپردیش)
سانپوں کا کنواں__دوسری صدی قبلِ مسیح
ناگ کنڈ یا ناگیشور جس کا لفظی مطلب ھے "سانپوں کا کنواں" بھارت کے شہر وارانسی کے علاقے جیت پورہ میں واقع ھے۔
یہ کنواں جسے مقامی زبان میں "کنڈ" کہتے ہیں،
ایک چھوٹے سےمندر کےعقب میں ھے اور ہندوؤں کیلیےمذہبی اہمیت رکھتاھے۔ 45 میٹر گہرے اس ناگیشور کنڈمیں سانپوں کی دنیاکادروازہ ھے۔
یہ کنواں پتنجلی Patanjali
(Hindu Author and Mystic, 2nd BC) نے بنوایاتھا اور یہی وہ جگہ ھےجہاں اس نے زمانہ قدیم میں پانینی(Sanskrit Grammarians, 4th BC)
کی تفسیر لکھی تھی۔
ایک بادشاہ نے 1845 میں کنویں کی تزئین و آرائش کی اور اسے وہ شکل دے دی جو آج تک قائم ھے۔
کرکوٹک ناگیشور کا کنڈ سال میں صرف ایک بار ناگ پنچمی (Naag Panchami) کے موقع پر کھولا جاتا ھے جب اس علاقے میں ایک عظیم الشان میلہ (5 اگست کو) لگایا جاتا ھے۔
#Indology #ancient #StepWell #Architecture
اگریسن کی باؤلی (دہلی، بھارت)
Agrasen ki Baoli (India)
دہلی کے قلب میں واقع مہابھارت (Ancient Sanskrit Epic Script) کے دور میں تعمیر کی گئی یہ زیرزمین آرائشی سیڑھی جو کبھی پانی کا ذخیرہ تھا آج شاندار فن تعمیر اور قدیم انجینئرنگ کی مہارت
کا ایک دنگ کر دینے والا نمونہ ھے۔
اس بارے میں کوئی واضح تاریخی ریکارڈ موجود نہیں ھے کہ شاندار اگراسین کی باؤلی کب اور کس نے تعمیر کی تاہم بہت سے مورخین کاخیال ھے کہ اسکی تعمیر مہابھارت (महाभारतम्) کےدور میں کسی اور نےنہیں بلکہ اگروہ (Agroha) کے سوریا ونشی خاندان کے بادشاہ مہاراجہ
اگرسین (Maharaja Agresan) نے کی تھی۔
14ویں صدی میں اسے اگروال برادری کے لوگوں نے دوبارہ تعمیر کیا جو مہاراجہ اگرسین کی اولادکے طور پرہی جانےجاتے تھے۔
بائولی کی تعمیراتی خصوصیات یہ بھی بتاتی ہیں کہ اسے تغلق خاندان (1321-1414) یا لودھی خاندان (1451 سے 1526) کے دہلی پر دور حکومت میں
#ancient #Archaeology #Ethiopia
ایتھوپیا کی تاریخ
لاکھوں سالہ قدیم شہر حبشہ (Abyssinia) اور مقام ہدر (Hadar)
حبشہ نام سنتے ہی سب سےپہلے ذہن میں وہ سیاہ غلام عاشق اور مؤذنِ رَسُوْلُﷺ بلال حبشیؓ ذہن میں آتے ہیں جنہوں نے سب سے پہلےجنت کا دروازہ کھولنا ھے۔
لیکن ایتھوپیا ماہرین آثارِ
قدیمہ اور ماہرین ارضیات کا پسندیدہ خطہ بھی ھے۔
وہ ایسے کہ ایتھوپیا کو یہ اعزاز حاصل ھے کہ 1974 میں اسکی "Great Rift Valley" میں دنیا کے قدیم ترین ڈھانچوں "Lucy" اور "Ardi" کے فوسلز پائے گئے ہیں جو 3.2 ملین پرانے ڈھانچے ہیں۔ اسی لیے ایتھوپیا کو "انسانیت کا گہوارہ" کہاجاتاھےکیونکہ
یہاں انسانوں کی جڑیں ھونے کا بہت امکان ھے۔
اس وادی کے جس مقام سے یہ انسانی فوسلز دریافت ھوئے ہیں اسے "Hadar" کہا جاتا ھے۔
ایتھوپیا متنوع ثقافتی اقوام کا مجموعہ رہا۔
ایتھوپیا افریقہ کا واحد ملک ھے جو کبھی نوآبادیاتی (Colonial) نہیں رہا ورنہ افریقہ نےاپنے کالے رنگ کے باعث نسل پرستی
#ancient #Thatta #Pakistan
ٹھٹہ (سندھ)___تاریخ سے چند اوراق
ٹھٹہ__زمانہ قدیم کےسندھ کااھم ترین اور امیر شہر، دارالحکومت اور تجارتی مرکز دریائے سندھ سے2میل کےفاصلے پر واقع
ٹھٹہ__ھندوستان سے ہنگلاج (Hinglaj) جانے والی شاہراہ ہر واقع ھے۔ بمطابق ھندو عقائد ہنگلاج کاسفرکرنےوالا گناھوں
سے پاک ھو جاتا ھے۔
ٹھٹہ__شہربہت سےشہروں جیسے دیبل، سامی نگر، برہمن آباد کی وجہ سے مشہور ھے۔
ٹھٹہ__مسلماںوں کی فتح سے قبل ھندو راجاؤں نے اسکانام سامی نگر (Sami Nuggur) رکھا تھا۔
ٹھٹہ__زرخیر زمین اور گندم،چاول اور کپاس کیوجہ سےمشہور کیونکہ ھندوستان کے اس شہر بےمثال میں 2000 سے زائد
کرگھے(Looms) کپڑا بنتے تھے۔
ٹھٹہ__شہر الہیات، لسانیات اور سیاسیات کی تعلیم کیلئے مشہور۔ یہاں ان علوم کی تعلیمات کیلئے 400 سے زائد مدارس تھے۔
ٹھٹہ__ شہر عظیم میں ننگے پیر رھنے والے کارمالیوں (Carmalites) کاگرجا گھر
ٹھٹہ__قدیم یونانیوں کابیان کردہ Pattala شہر
ٹھٹہ__مشہورقدیم موءرخ
#Punjab #British #History
وزیراعظم پنجاب ملک خضر حیات ٹوانہ
( قصبہ مظفرآباد, شاہ پور سرگودھا، پاکستان)
1900-1975
عہدبرطانیہ میں ریاست پنجاب کےآخری وزیراعظم
ملک خضرحیات شاہ پور کےنزدیک قصبہ مظفرآباد ( نزدسرگودھا) کی جاگیردار ٹوانہ فیملی میں 1900 میں پیداھوئے۔
آپ 1916 سے1923 تک ایک
آرمی مین رھے۔
آپ نے ہی پنجاب کی تقسیم کی شدید مخالفت کی اور محمد علی جناح کے سامنے کھڑے ھوئے۔
ملک خضر حیات تقسیم پنجاب کے اس لیے مخالف تھے کہ وہ نہیں چاہتے تھے کہ پنجاب مذہب کی بنیاد پر ٹوٹے کیونکہ وہ پنجاب کو ایک مکمل خطہ اور پنجابیوں کو الگ اور منفرد شناخت کا مالک سمجھتے تھے۔
خضرحیات ٹوانہ تاج برطانیہ کےبہت زبردست حامی تھے۔ ان کی اپنی الگ "Unionist Party" تھی۔
ملک صاحب کا دور اقتدارکچھ آسان نہ تھا کیونکہ جنگ عظیم اول (1914-1918) کے اثرات بھیانک تھے، دوسری جنگ عظیم کافی تباہی مچارہی تھی جس میں بہت سےپنجابی سپاہی حصہ لےرھےتھے اوربنگال کا قحط کسی آفت کی