#archaeohistories #India #mughal #History
شاہجہان آباد اور اس کے دروازے (Shahjahanabad/Dilli Gates)
بھارت کے شہر دہلی اور اسکے گردونواح (Outskirts) علاقوں کاذکر ھندوؤں کی مقدس کتاب "مہابھارت" میں مختلف ناموں سے ملتا ھے۔
یہ شہر 1400سال قبل مسیح میں پانڈوؤں اور کوروں نےآباد کیاتھا۔
کم لوگوں کے علم میں ھو گاکہ شاہجہان آباد پرانی دلی (بھارت) کا پرانا نام ھے جسے مغل بادشاہ شاہجہان نے 1639 تا 48 کے درمیان دریائے جمنا کے جنوب مشرقی کنارے دریافت کیا تھا۔
1648 میں جب بادشاہ شاہجہان نے اپنا دارالحکومت آگرہ سے دہلی کو بنایا تو اس کا نام "دلی" سے تبدیل کر دیا گیا۔
گویا ایک وقت میں دہلی کو شاہجہان آباد بھی کہا جاتا تھا۔
شاہی عدالتوں، پرکشش مساجد، امراء کے محلات، یادگاریں، مینشنز سے بھرے دہلی کو اردگرد سے 12فٹ چوڑی، 26 فٹ اونچی اور 6.1 مربع کلومیٹر لمبی دیوار گھیرے ھوئے ھے۔
اسکےعلاؤہ دہلی کی وجہ شہرت اسکے14 دروازےہیں جنہیں 7ویں صدی میں تعمیر
کیا گیا تھا اور ان میں سے آج صرف پانچ اپنا وجود اور تاریخ برقرار رکھے ھوئے ہیں، جن کے نام یہ ہیں؛
اجمیری گیٹ
دہلی گیٹ
کشمیری گیٹ
لاھوری گیٹ
ترکمان گیٹ
مغل عہد میں یہ دروازہ پرانی دلی میں داخلے اور نکلنے کیلئے استعمال ھوتے تھے۔
یہ پانچوں دروازے مختلف شہروں اور علاقوں سے دلی
میں داخلے کے سبب انہی سے منسوب ہیں جیسے "لاھوری دروازہ" دہلی سے لاھور تک جاتا ھے اس لیے اسے لاھوری دروازے کا نام دیا گیا ھے۔
#part 3 #ancient #Greece
جسم فروشی کا کاروبار (Business of Prostitution)
600 سال قبلِ مسیح
"جسم فروشی" کا آغاز کب اورکہاں سےھوا اور یہ ایک منظم کاروبار کیسےبنا؟
یہ آج کل یاغریب ممالک کا ایجاد کردہ ڈھکا چھپا بزنس نہیں بلکہ زمانہ قدیم کےقوانین وضوابط کیساتھ ایک مکمل کاروبارتھا اور
یونان اسکا Pioneer ھے۔
یونانی شاعر،قانون دان اورسٹیٹس مین سولن (Solon, 630 BC- 569 BC)ہی وہ پہلاشخص تھاجس نےجسم فروشی کاپہلا"چٹکلہ" (طرب آب)قائم کیا۔ یونان میں ان عورتوں کو "پورنائی" کہاجاتاتھا۔
تمام موءرخین اس پرمتفق ہیں کہ سولن نےاسےایک منافع بخش کاروباراور روزگارکاوسیلہ بنایا۔
شروع میں یونان کے مختلف شہروں میں جسم فروشی کے اڈے کھولے گئےاور مذہبی عورتوں کو عصمت دری کیلئے رکھا گیا۔
اڈوں کا مالک قبیلہ یا قبیلے کاحاکم ہی ھوتا تھا۔ لوگوں کی بڑی تعداد نےاس طرف رجوع کیا جو زیادہ تر غریب تھی۔ان عورتوں کی عموماً40سال کی عمر تک وفات و جاتی تو انکی اولادیں یہ جگہ
#Indology #Church #India
کانپور میموریل چرچ (کانپور, اتر پردیش) 1875
Kanpur Memorial Church (Canpur، Utter Pardesh)__1875
لومبارڈی گوتھک (Lombardi Gothic) اسٹائل میں ایسٹ بنگال ریلوے کے آرکیٹیکٹ والٹر لانگ بوزی گرانویل(Walter Long Bozzi Granville, 1819-1874) کا تعمیر کردہ شاہکار
یادگاری چرچ ایک متاثر کن تعمیراتی عمارت ھے جسے "All Civil Cathedral" بھی کہا جاتا ھے۔
یہ چرچ 1875میں برطانوی فوجیوں کی جرات اوربہادری کی یاد میں تعمیر کیاگیاتھا جنہوں نے1857 کےکانپور، اترپردیش میں ہنگامہ خیزسپاہی بغاوت میں اپنی جانیں قربان کی تھیں۔
میموریل چرچ مصلوب شکل(Crucifix)
میں سرخ ریت کے پتھر سے بنا ھے جس کے درمیان میں اسپائر کیساتھ کیمپینائل (گھنٹی ٹاور) ھے۔چرچ کے مرکز میں ایک فرشتہ کا ایک خوبصورت مجسمہ کھڑاھے جسے نامور بیرن کارلو ماروچیٹی نے ڈیزائن کیاھے۔
چرچ کے اندر یادگاری میزیں، نوشتہ جات اور یادگاریں ہیں جو ان فوجیوں کوخراج عقیدت پیش کرتی ہیں
#Archaeology #architecture #Portugal
Initiate Spiral Well (Sintra)
1904 AD - 1910 AD
آرکیٹیکٹ Manini کا شاہکار فری میسنری (Freemasonry) کنواں
"زیرزمین تعمیر" کی گوتھک، مصری، موریشس اورنشاۃ ثانیہ کےفن تعمیرپر مبنی #یونیسکو عالمی ثقافتی ورثےکی ایک پراسرارمثال سنترا (پرتگال) کےباغات
میں واقع "Initiate Well" ھے جوزمین کے گہرائی تک، الٹے ٹاوروں کی طرح سرپل ھے۔
اس کنوئیں کو آرکیٹیکٹ اورسیٹ ڈیزائنر Luigi Manini تھے 1904 اور 1910 کے درمیان کافر اورعیسائی علامت کے طوراسے تعمیر کیا۔
یہ کنواں کبھی بھی پانی کےذخیرے کےطور پراستعمال نہیں ھوتاتھا بلکہ اسکےبجائے یہ نائٹس
آف ٹیمپلر (Knights of Templar) کی روایت کے ایک پراسرار ابتدائی رسم کا حصہ تھے۔ سنترا کے یہ باغات "Quinta da Regaleira Mountain" پر واقع ہیں۔
سنٹرا کا پراسرار 'الٹا ٹاور' کے بہت سے مالکان رہے ہیں، لیکن یہ António Augusto Carvalho Monteiro تھا، جو 20ویں صدی کے اختتام پر پرتگال کے
#women #Muslims #Rulers
رضیہ سلطانہ (1205-1240)
First and Last Female Ruler of #Delhi Sultanate
رضیہ سلطانہ قیسی رام پوری کے ناول کا عنوان یامرکزی کردار ہی نہیں بلکہ تاریخ میں رقم حقیقی ترک خاندان غلاماں (Slave Dynasty) کے سلطان شمس الدین التمش کی بیٹی اور ھندوستان کی پہلی مسلمان
غیر شادی شدہ خاتون حکمران بھی ھے۔
رضیہ کو 1236 سے 1239 تک حکمرانی کا شرف حاصل رہا جو اسکے سات بھائیوں میں سے کسی ایک کو بھی نہ مل سکا۔
جب اس نے10 نومبر 1236 کوجلال الدین رضیہ کے سرکاری نام کیساتھ تخت سنبھالا تو اس نےاپنےروایتی مسلم خواتین کےلباس بشمول پردہ کوترک کرنےکاشعوری فیصلہ
کیاجس نےقدامت پسندمسلمانوں کےغصے کو ھوا دی۔
لیکن یہ مختصر سا عرصہ بھی رضیہ کیلئے وبال جان بن گیا تھا کیونکہ "سازشیں" جو مسلم بادشاہوں کی تاریخ کا ایک بدنما داغ رہی ہیں، رضیہ بھی اسی داغ کاشکار ھوئی جب اسےافریقہ حبشی غلام یاقوت (اصل نام جمال الدین) کیساتھ جوڑاگیاجوکہ اس کی زوال کی
#geology #ancient #rocks #Finland
کما کیوی چٹان (ساؤتھ کیریلیا، فن لینڈ) 11,000 سال قبل
Kummakivi Rock (South Karelia)
11,000 yrs ago
بےشک "Rock-Cut Art" انسانی ہاتھ کا اوج کمال ھے مگر قدرت کو چیلنج کرنا ناممکن ھے۔
ساءوتھ کیریلیا (فن لینڈ) کےقدرتی جنگلات میں واقع "کما کیوی چٹان"
جسےمقامی زبان میں "Strange Stone" کہا جاتا ھے، اپنے منفرد انداز اور توازن سےمشہور ھے کیونکہ یہ دو پتھروں پر مشتمل ھے۔ یہ چٹان 500 ٹن سے زائد وزنی اور 7 (22.97 feet) میٹر سے زائد چوڑی اور 5 میٹر اونچی ھے۔
گیارہ ہزار سال سے یہ چٹان اپنے اسی توازن سے قائم ھے جو قدرتی مہارت کا بہترین
نمونہ ھے۔ ایک پتھر دوسرے کے اوپری حصے پر غیر یقینی طور پر بیٹھا ھے۔ اگرچہ اوپری چٹان سے ایسا لگتا ھے جیسے یہ کسی بھی وقت گر سکتی ھے مگر ایسا ممکن نہیں۔
دونوں چٹانوں کو جوڑنے والا پوائنٹ بہت چھوٹا ھے جو ایک دفعہ تو اپنے دیکھنے والوں کو پریشان ضرور کرتا ھے۔
چٹان کا اس قدر نازک
#Indology #architecture #UtterPardesh
بٹلر پیلس (لکھنؤ، بھارت)
Butler Palace (Lukhnow, India)__1915
Groundbreaking: 1st Feb. 1915
ہریالی کے بیچوں بیچ کھڑا، ماہر تعمیرات سردار ہیراسنگھ کا تعمیراتی جنون جو کبھی تہلکہ مچانے والا ایک محل تھا آج وقت کے خاموش ہاتھوں خستہ حالی کاشاہکار!
1915 میں اودھ کے ڈپٹی کمشنر سپنسر ہارکورٹ بٹلر (DC Spencer Harcourt Butler) کے لیے محمود آباد کےمہاراج محمد علی محمد نے تعمیر کروایا. یہ محل برطانوی رہائش گاہ اور پھر کنگ محمودآباد کے وارث کی ذاتی ملکیت کےطور پر کام کرتاتھا.
نوابوں کا شہر، تحریک آزادی 1857 کے آغاز کا شہر اور اردو
کے مسکن کے حوالوں سے پہچانے جانے والے شہر لکھنؤ میں بعض یادگاریں ایسی بھی ہیں جنہیں زیادہ پذیرائی نہیں ملی حالانکہ وہ تاریخی ورثہ کہلانے کی مستحق ہیں۔ بٹلر پیلس لکھنؤ میں ایک ایسی ہی یادگار ھے۔
کبھی بٹلر پیلس منشیات کے عادی افراد کے گھر کے طور پر استعمال ھوا،
کبھی 1965 کی جنگ میں