#Archives #lovestory #India
وکٹوریہ اورعبدل (Victoria and Abdul)
From Friendship to Love Affair (1887)
دوستی سےعشقیہ اسکینڈل تک (1887)
"عشق پرکوئی زورنہیں"
ملکہ وکٹوریہ (برطانیہ)اوراسکےقریبی ھندوستانی ملازم عبدالکریم کےمابین14سال پر محیط دوستی کاقصہ
یہ ملازم ملکہ برطانیہ تک پہنچا
کیسے؟
یہ غیر شادی شدہ نوجوان "ہندوستان کی طرف سےتحفہ" کےطور پر برطانیہ پہنچا۔
کریم جھانسی کےقریب للت پور میں 1863 میں مسلمان گھرانے کے حاجی وزیرالدین کے گھر پیداھوا جو ایک ہسپتال کےاسسٹنٹ تھے۔ فارسی اور اردو زبان کے ماہر کریم کو آگرہ کی جیل میں کلرک کاعہدہ مل گیا۔
ویسٹ منسٹر ایبی
میں ملکہ وکٹوریہ کی گولڈن جوبلی کی تقریبات کے سلسلے میں ایک شاندار ضیافت میں ملکہ نے درجنوں غیر ملکی حکمرانوں کی میزبانی کی۔
اس 50 سالہ جشن کی تقریبات میں ہندوستانی گھڑسوار دستے بھی شامل تھے۔ جوبلی کے تمام یادگار واقعات میں کریم-ملکہ کی ملاقات سب سے اہم بنی۔
کریم جلد ہی ملکہ کا
سب سے قابل اعتماد رکن بن گیا۔ کریم سے بات کرنے کیلئے ملکہ نے اردو سیکھی جس کی ملکہ نےیوں وضاحت دی کہ؛
"میں اپنےنوکروں سے بات کرنےکیلیے ہندوستان کے چند الفاظ سیکھ رہی ھوں"
کریم کا ذکر ہمیں ملکہ وکٹوریہ کی ڈائریز میں بھی ملتاھے۔ ملکہ کے کریم سے یہ تعلقات دربارپر بہت اثر انداز ھوئے۔
ملکہ وکٹوریہ کے شوہر کے انتقال کے بعد پہلے ملکہ کا جھکاؤ Scottish ملازم براءون کی طرف ھوا لیکن 1883 میں براءون کے انتقال کے بعد جلد ہی یہ جگہ کریم نےے لی اور بہت گہرائی تک لی۔
ملکہ کریم کے ہاتھ کا بنا پلاءو اور گوشت کا سالن بہت پسند کرتی تھی بلکہ اس ڈش کوباقاعدہ مینیومیں شامل بھی
کیا گیا۔
ملکہ نے کریم کو بہت سی مراعات بھی دیں، آگرہ میں زمین کی گرانٹ دی، کریم کے پورٹریٹس بنوائے، اپنے دربار کی تنقید و غصہ بھی برداشت کیا۔
1901 میں ملکہ کی وفات کے بعد ملکہ کے جانشینوں نےکریم سے ملکہ کے تمام Love Letters ضبط کر لیے، کریم کو واپس ھندوستان خاموشی سے بھجوا دیا
گیا۔
مگر اس وقت تک قصہ پھیل چکا تھا جو کسی طور بھی دب نہ سکا۔ ملکہ کی خود نوشت ڈائیریز نے بھی راز فاش کیے۔
تاریخ کےاس حقیقی رومانوی قصے پر بھارت میں فلم بھی بنائی جاچکی ھے جس میں مسلم اداکار علی افضل نے کریم کا کردار ادا کیا ھے۔ @threadreaderapp unroll. #Tales #Bollywood #History
• • •
Missing some Tweet in this thread? You can try to
force a refresh
#Egyptology #Pyramid #Archaeology
شی اوپس/خوفو کا اہرام (غزہ)
Cheops/Khufu Pyramid (Giza)
Circa: 2650 BC
پراسراریت اور حیرت کےگڑھ مصر میں واقع سب سے پہلا اہرام شی اوپس یعنی خوفو کا مقبرہ (Mound) تھا جوصدیوں سےاس آب وگیاہ ویرانےمیں لایخل چیستاں کی طرح ایستادہ، فرعونوں کی عظمت رفتہ
کی انمٹ اورحیرت انگیز دلیل بنا فخر سے کھڑا ھے۔
اس اہرام کو20 سال کےعرصےمیں 100,000مزدوروں نے تعمیرکیا اور یہی وہ اہرام ھے جسے دنیا کے سات عجائبات میں نمبرون شمار کیا جاتا ھے۔
فرعون شی اوپس کا زمانہ حضرت عیسیٰ سے تین ہزار سال بعد کاھے۔ عہدشی اوپس میں مصر کی ابادی 2کروڑ تھی۔ #Egypt
اہرام شی اوپس کی جسامت ہی کسی ماہر مصریات (Egyptologist)، موءرخ بلکہ سیاح کیلئے بھی حیرت و استعجاب کا باعث ھے۔
اہرام شی اوپس کی بلندی485 فٹ ھے۔
بنیاد 13 ایکڑ رقبے پرمحیط ھےجو لندن اور شکاگو کےتقریباً 8مربع بلاکس کے مساوی ھے۔
اس اہرام میں پتھروں کی50 لاکھ سلیں (Blocks) استعمال کیے
#Temple #Architecture #India
پتھر کا بگھی والا مندر (ہمپی، کرناٹک)
Stone Chariot Temple (Hampi, Karnataka)___1500 AD
کرناٹک میں واقع ایک چھوٹامگر خوبصورت پتھر سےبنا اور #یونیسکو عالمی ثقافتی ورثے کا حصہ رتھ مندر (Chariot Temple) دراصل رتھ نہیں مزار (Shrine) ھے۔
یہ مزار وسیع وعریض
وٹلا مندر (Vittala Temple) کے محور میں ھے۔
یہ رتھ 16ویں صدی کے دوران وجیانگرا سلطنت کے بادشاہ کرشنا دیورایا (king krishnadevaraya) نے بنایا تھا.مندر میں بھگوان وشنو اور گرودا (Garuda, Lord of Eagles) کا مجسمہ موجود ھے۔
ہمپی کے رتھ سے ایک دلچسپ لوک داستان منسوب ھے کیونکہ دیہاتیوں
کا ماننا ھے کہ جب رتھ اپنی جگہ سے ہٹے گا تو دنیا رک جائے گی یعنی اس کی مقدس موجودگی ھے۔
ھندوستان میں اس کے علاوہ بھی دو مزید بگھی والے مندر پائے جاتے ہیں جیسے اوڈیسا میں کونارک مندر (Kornak Sun Temple)، اور دوسرا تامل ناڈو میں مہابلی پورم مندر (Mahabalipuram)۔
آج کل یہ مندر عبادت
#Indology #Archaeology #architecture
Rock-Cut
قلعہ گوالیار (مدھیہ پردیش، بھارت)
Gwalior Fort (MadhiyaPardesh)__3 AD
پہاڑی کی چوٹی پر واقع ایک ناقابلِ تسخیرقلعہ جوتیسری صدی میں مقامی بادشاہ سورج سین (Suraj Sen) کاتعمیرکردہ ھے، چٹانی طرزتعمیر کاشاندارماڈل ھے۔
قلعہ گوالیار اوراس میں
واقع اندرونی تالاب, جسے "سورج کنڈ" کہا جاتا ھے، مقدس و بابرکت خیال کیا جاتا ھے۔
سورج سین کے 83 جانشینوں نے قلعے کو کنٹرول کیا۔ لیکن 84 ویں بادشاہ تیج کرن نے یہ قلعہ کھو دیا.
قلعے کے اندر یادگاروں اور نوشتہ جات بھی موجود ہیں۔ ایک شہنشاہ جس کا نام میہیرکولا (Mihirakula) تھا اس وقت
کے دوران قلعے پر حکمرانی کی۔ بعد میں نویں صدی میں ، گورجارا پرتیہارس (Gorjara Pratiharas) نےقلعے پر قبضہ کیا اور ٹیلی کا مندر (Teli ka Mandir) بھی تعمیر کیا۔
1398 تک، تین صدیوں تک ایک دومسلمان خاندانوں نے بھی اس قلعے پرحکمرانی کی۔ مان سنگھ آخری اورسب سےممتازحکمران تھا۔ اس نے فورٹ
#ancient #Archaeology #Roman #Jordan
قصر بشیر ، اردن___چوتھی صدی عیسوی
Q'Sar-i-Bashir, Jordan__4th AD
اردن کےصحرامیں واقع حیران کن حدتک محفوظ چوتھی صدی کا تنہا کھڑا رومن قلعہ قصر بشیر (Q’Sar Bashir) جوکہ کبھی، کسی بھی تہذیب میں دوبارہ تعمیرنہیں ھوا۔
موبین (Mobene) کے نام سے مشہور
قصر بشیر کی دیواریں اب بھی جگہ جگہ سے 20 فٹ تک بلند ہیں، جبکہ مرکزی دروازہ آج بھی زمانوں کے تھپیڑوں کے باوجود قائم ھے۔ کونے کے بڑے بڑے مینار اب بھی زمین سے دو منزلہ اوپر اٹھتے ہیں۔
اس صحرائی قلعے کے آئیڈیا میں اردن کی زمین کی ساخت نے دفاع میں ایک بڑا کردار ادا کیا۔
قوی امکان ھے
کہ قصر بشیر اصل میں ایک معاون گھڑسوار یونٹ کا گھر تھا، جس پر رومی سرحد کے دفاع اور آس پاس کے علاقے کی نگرانی کا الزام تھا۔ فوجی اوپری منزل پر سوتے تھے جب کہ گراؤنڈ فلور پر رہنے والوں کے بارے میں خیال ھے کہ وہ اصطبل تھے۔
جیسے جیسے روم مشرق کی طرف پھیلتا گیا اسے عرب سرحد کے ساتھ
#architecture #archaeohistories #Iran
Rock-Cut Art
طاق بوستاں (کرمانشاہ، ایران)
Taq-e Bostan (Kirmanshah, Iran)
A Glory of Sassanid Kings
Circa: 4th C
Period: Sassanid Era (3 c - 7 c)
قدیم بابل ونینوا کی تہذیبوں کااور زرتشتی مذہب کاوارث خطہ ایران میں چٹانی طرزتعمیر کاایک اورحیران
کر دینے والا شاہکار
طاق بوستاں مغربی ایران کے شہر کرمانشاہ کے بالکل شمال مشرق میں واقع ھے جو ساسانی نسل (تیسری سے ساتویں صدی عیسوی) کی چٹانوں کی نقش و نگار (Bas-relief) کیلیے جانا جاتا ھے۔
طاق بوستاں دراصل ساسانی عہد کے بادشاہ اردشیر دوم (Ardeshire ۱۱، 379-383) کے دورحکومت کی ایک
یادگار ھے اور چٹانی طرزتعمیر کا دنگ کر دینے والا شاہکار ھے۔
طاق بوستان آثارِقدیمہ کی جگہ زگروس پہاڑوں (Zargos Mountains)، جو جنوب مغربی ایران کے ترکی اور عراق تک پھیلی ھوئی ہیں، کے مرکز میں واقع ھے۔ یہ تین اہم حصوں پر مشتمل ھے: اردشیر II، بڑا طاق، اور چھوٹا طاق۔
اردشیر دوم اور
#Indology #architecture #Rajhastan
مہرگڑھ قلعہ (جودھ پور، بھارت)
1460ء__ھندوستان کے شاندار ماضی کا عکاس
ریاست راجھستان کے دوسرے بڑا شہر جودھ پورمیں واقع 1200 ایکٹر پر پھیلا منفرد قلعہ مہرگڑھ جسے "جودھ پورقلعہ" بھی کہا جاتاھے، کی قلعے کی تاریخ راجہ راءوجودھ سےجاری ھے جس نےاسے 1460
میں تعمیر کروایا اور اسی نسبت سے اسکا نام بھی منتخب کیا۔
وہ پہاڑی جس پر طاقتور قلعہ کھڑا ھے درحقیقت ایک سنیاسی کاگھر تھاجسے چیریا ناتھ جی کے نام سےجاناجاتاھے۔ اپناگھر کھونےپر اس نےزمین پر لعنت بھیجی۔
جودھ پورشہرکی بنیادبھی 1459میں راجہ جودھ نےہی رکھی جوایک راجپوت تھااور راجپوتانہ
کےتاریخی علاقے کےجنگجو حکمرانوں میں سے ایک تھا اور جودھپور کی شاہی ریاست کے دارالحکومت کےطور پر کام کرتاتھا۔
جودھ پور کے کچھ حصے 18ویں صدی کی دیوار سےگھرےھوئے ہیں۔ مہران گڑھ قلعہ، جس میں مہاراجہ کامحل اور ایک تاریخی میوزیم بھی ھے، ایک الگ تھلگ چٹان پربنایا گیا ھےجو شہر پرحاوی ھے۔