#heritage #heritagetreasures #Hyderabad #archives
مکھی ہاءوس (حیدر آباد، پاکستان)
Mukkhi House (Hyderabad, Sindh)
کیا محض تقسیم کی ایک لکیر یادوں، عمارتوں، ورثوں کو مٹا سکتی ھے؟
ہرگز نہیں!
ھوسکتاھے پاک وھندمیں جگہ جگہ بکھری تاریخ میں نقش یہ حویلیاں۔ محلات، یادیں اس لکیرکو مٹادیں۔
اسی کی ایک منفرد اور پہلی ہی نظر میں دنگ کر دینے والی مثال حیدرآباد میں واقع "مکھی ہاءوس" ھے۔ مکھی ہاؤس 1920 میں ایک سندھی ہندو خاندان مکھی جیٹھا نند ولد پریتم داس نے بنوایا تھا۔ اس کی موت کے بعد اس کا بھائی گوبندرام اس عمارت کا جانشین تھا۔ عمارت پکا قلعہ کے مین گیٹ
کے قریب اور ہوم سٹیڈ ہال کے سامنے واقع ھے۔
یہ ایک دو منزلہ مکان ھے جس میں 12 کمرے اور دو بڑے ہال ہیں۔ چھت پر ایک خوبصورت گنبد بنایا گیا ھے جسے دور سے دیکھا جا سکتا ھے۔ انہوں نے اس محل میں جو پتھر استعمال کیے وہ بھی بھارت کے شہر جودھ پور سے درآمد کیے گئے تھے۔ یہاں تک کہ دروازے
اور کھڑکیاں شیشم (انڈین روز ووڈ) اور ساگوان کی شاندار لکڑی سے بنی ہیں۔ محل میں 12 کمرے، دو صحن، دو بڑے ہال اور ایک گنبد شامل ھے۔
محل اپنی طرزتعمیر، نقش نگاراور منفرد تاریخ سے آج بھی نہ صرف سیاحوں کو اپنی طرف کھینچتاھے بلکہ ھوسکتا ھےکہ فاصلے مٹادے۔ #Pakistan #architecture #History
• • •
Missing some Tweet in this thread? You can try to
force a refresh
#Jewish #Philosophy #Egyptology
فلوجودیئس (اسکندریہ، مصر)
Philo Judaeus (Alexandria, Egypt)
سب سے پہلافلسفی اور وہ بھی یہودی
10th BCE - 50 BCE
یونانی دسترس والےیہودی فلسفی ہیلینسٹک یہودیت (Helenistic ✡️ Judaism) کاسب سےاہم نمائندہ
فلسفہ صرف ارسطو سےہی منسلک نہیں۔فلسفےکاذکرآئے اور
فلو کا ذکر نہ ھو یہ ممکن نہیں!
اولین یہودی فلسفی فلو نے اسکندریہ میں قدیم یونانی فلسفے سے متاثر ھو کر یہودی فلسفے کی بنیاد رکھی۔ فلسفے کا لفظ بنیادی طور پر فلو سے ہی اخذ شدہ ھے۔
فلو کی تحریریں ڈائاسپورا میں یہودیت کی ترقی کاواضح ترین منظر پیش کرتی ہیں۔ ظاہر شدہ عقیدے اور فلسفیانہ
وجہ کی ترکیب کی کوشش کرنے والے پہلے شخص کے طور پر، وہ فلسفہ کی تاریخ میں ایک منفرد مقام رکھتا ہے۔ اسےعیسائی بھی ایک گرو کےطور پرمانتےہیں۔
فلو کا خاندان اپنے نسب کی شرافت میں سب سےآگے نکل گیا۔ اسکندریہ جانےسے پہلےاس کے والد نےبظاہر فلسطین میں نمایاں کردار ادا کیا تھا۔
فلو کی تعلیم
#Archives #lovestory #India
وکٹوریہ اورعبدل (Victoria and Abdul)
From Friendship to Love Affair (1887)
دوستی سےعشقیہ اسکینڈل تک (1887)
"عشق پرکوئی زورنہیں"
ملکہ وکٹوریہ (برطانیہ)اوراسکےقریبی ھندوستانی ملازم عبدالکریم کےمابین14سال پر محیط دوستی کاقصہ
یہ ملازم ملکہ برطانیہ تک پہنچا
کیسے؟
یہ غیر شادی شدہ نوجوان "ہندوستان کی طرف سےتحفہ" کےطور پر برطانیہ پہنچا۔
کریم جھانسی کےقریب للت پور میں 1863 میں مسلمان گھرانے کے حاجی وزیرالدین کے گھر پیداھوا جو ایک ہسپتال کےاسسٹنٹ تھے۔ فارسی اور اردو زبان کے ماہر کریم کو آگرہ کی جیل میں کلرک کاعہدہ مل گیا۔
ویسٹ منسٹر ایبی
میں ملکہ وکٹوریہ کی گولڈن جوبلی کی تقریبات کے سلسلے میں ایک شاندار ضیافت میں ملکہ نے درجنوں غیر ملکی حکمرانوں کی میزبانی کی۔
اس 50 سالہ جشن کی تقریبات میں ہندوستانی گھڑسوار دستے بھی شامل تھے۔ جوبلی کے تمام یادگار واقعات میں کریم-ملکہ کی ملاقات سب سے اہم بنی۔
کریم جلد ہی ملکہ کا
#Egyptology #Pyramid #Archaeology
شی اوپس/خوفو کا اہرام (غزہ)
Cheops/Khufu Pyramid (Giza)
Circa: 2650 BC
پراسراریت اور حیرت کےگڑھ مصر میں واقع سب سے پہلا اہرام شی اوپس یعنی خوفو کا مقبرہ (Mound) تھا جوصدیوں سےاس آب وگیاہ ویرانےمیں لایخل چیستاں کی طرح ایستادہ، فرعونوں کی عظمت رفتہ
کی انمٹ اورحیرت انگیز دلیل بنا فخر سے کھڑا ھے۔
اس اہرام کو20 سال کےعرصےمیں 100,000مزدوروں نے تعمیرکیا اور یہی وہ اہرام ھے جسے دنیا کے سات عجائبات میں نمبرون شمار کیا جاتا ھے۔
فرعون شی اوپس کا زمانہ حضرت عیسیٰ سے تین ہزار سال بعد کاھے۔ عہدشی اوپس میں مصر کی ابادی 2کروڑ تھی۔ #Egypt
اہرام شی اوپس کی جسامت ہی کسی ماہر مصریات (Egyptologist)، موءرخ بلکہ سیاح کیلئے بھی حیرت و استعجاب کا باعث ھے۔
اہرام شی اوپس کی بلندی485 فٹ ھے۔
بنیاد 13 ایکڑ رقبے پرمحیط ھےجو لندن اور شکاگو کےتقریباً 8مربع بلاکس کے مساوی ھے۔
اس اہرام میں پتھروں کی50 لاکھ سلیں (Blocks) استعمال کیے
#Temple #Architecture #India
پتھر کا بگھی والا مندر (ہمپی، کرناٹک)
Stone Chariot Temple (Hampi, Karnataka)___1500 AD
کرناٹک میں واقع ایک چھوٹامگر خوبصورت پتھر سےبنا اور #یونیسکو عالمی ثقافتی ورثے کا حصہ رتھ مندر (Chariot Temple) دراصل رتھ نہیں مزار (Shrine) ھے۔
یہ مزار وسیع وعریض
وٹلا مندر (Vittala Temple) کے محور میں ھے۔
یہ رتھ 16ویں صدی کے دوران وجیانگرا سلطنت کے بادشاہ کرشنا دیورایا (king krishnadevaraya) نے بنایا تھا.مندر میں بھگوان وشنو اور گرودا (Garuda, Lord of Eagles) کا مجسمہ موجود ھے۔
ہمپی کے رتھ سے ایک دلچسپ لوک داستان منسوب ھے کیونکہ دیہاتیوں
کا ماننا ھے کہ جب رتھ اپنی جگہ سے ہٹے گا تو دنیا رک جائے گی یعنی اس کی مقدس موجودگی ھے۔
ھندوستان میں اس کے علاوہ بھی دو مزید بگھی والے مندر پائے جاتے ہیں جیسے اوڈیسا میں کونارک مندر (Kornak Sun Temple)، اور دوسرا تامل ناڈو میں مہابلی پورم مندر (Mahabalipuram)۔
آج کل یہ مندر عبادت
#Indology #Archaeology #architecture
Rock-Cut
قلعہ گوالیار (مدھیہ پردیش، بھارت)
Gwalior Fort (MadhiyaPardesh)__3 AD
پہاڑی کی چوٹی پر واقع ایک ناقابلِ تسخیرقلعہ جوتیسری صدی میں مقامی بادشاہ سورج سین (Suraj Sen) کاتعمیرکردہ ھے، چٹانی طرزتعمیر کاشاندارماڈل ھے۔
قلعہ گوالیار اوراس میں
واقع اندرونی تالاب, جسے "سورج کنڈ" کہا جاتا ھے، مقدس و بابرکت خیال کیا جاتا ھے۔
سورج سین کے 83 جانشینوں نے قلعے کو کنٹرول کیا۔ لیکن 84 ویں بادشاہ تیج کرن نے یہ قلعہ کھو دیا.
قلعے کے اندر یادگاروں اور نوشتہ جات بھی موجود ہیں۔ ایک شہنشاہ جس کا نام میہیرکولا (Mihirakula) تھا اس وقت
کے دوران قلعے پر حکمرانی کی۔ بعد میں نویں صدی میں ، گورجارا پرتیہارس (Gorjara Pratiharas) نےقلعے پر قبضہ کیا اور ٹیلی کا مندر (Teli ka Mandir) بھی تعمیر کیا۔
1398 تک، تین صدیوں تک ایک دومسلمان خاندانوں نے بھی اس قلعے پرحکمرانی کی۔ مان سنگھ آخری اورسب سےممتازحکمران تھا۔ اس نے فورٹ
#ancient #Archaeology #Roman #Jordan
قصر بشیر ، اردن___چوتھی صدی عیسوی
Q'Sar-i-Bashir, Jordan__4th AD
اردن کےصحرامیں واقع حیران کن حدتک محفوظ چوتھی صدی کا تنہا کھڑا رومن قلعہ قصر بشیر (Q’Sar Bashir) جوکہ کبھی، کسی بھی تہذیب میں دوبارہ تعمیرنہیں ھوا۔
موبین (Mobene) کے نام سے مشہور
قصر بشیر کی دیواریں اب بھی جگہ جگہ سے 20 فٹ تک بلند ہیں، جبکہ مرکزی دروازہ آج بھی زمانوں کے تھپیڑوں کے باوجود قائم ھے۔ کونے کے بڑے بڑے مینار اب بھی زمین سے دو منزلہ اوپر اٹھتے ہیں۔
اس صحرائی قلعے کے آئیڈیا میں اردن کی زمین کی ساخت نے دفاع میں ایک بڑا کردار ادا کیا۔
قوی امکان ھے
کہ قصر بشیر اصل میں ایک معاون گھڑسوار یونٹ کا گھر تھا، جس پر رومی سرحد کے دفاع اور آس پاس کے علاقے کی نگرانی کا الزام تھا۔ فوجی اوپری منزل پر سوتے تھے جب کہ گراؤنڈ فلور پر رہنے والوں کے بارے میں خیال ھے کہ وہ اصطبل تھے۔
جیسے جیسے روم مشرق کی طرف پھیلتا گیا اسے عرب سرحد کے ساتھ