مصر کے علاؤہ لاشیں حنوط (Mummification) کرنےوالے ممالک
اس بات سےشاید ہی کسی کو انکارممکن ھوکہ لاشیں حنوط کرنےکاطریقہ، بزنس اور رواج قدیم مصری نہیں!
400 قبل مسیح سےبھی پہلے یہ مصر ہی تھا جس نےنہ صرف انسانوں بلکہ جانوروں کی بھی لاشیں حنوط کرنے کاطریقہ متعارف #AncientHistory #Egypt
کروایا۔
ظاہر ھےحنوط کاری ایک کامیاب طریقہ ھونے کے باعث اس کی شہرت دوسرےقریبی ممالک اور تہذیبوں میں بھی پھیل گئی اور یوں فن حنوط اپنایاجانے لگا جس کی فہرست کافی لمبی ھے۔
حنوط کرنے کا باقاعدہ آغاز قدیم ایتھوپیا (Ancient Ethiopia), گواناکو (Guanaco) اور افریقہ میں رائج ھوناشروع ھوا۔
اس کے علاؤہ جزیرہ پیسیفک (Pacific) میں بھی رائج رھا۔
قدرتی طور پر حنوط شدہ ممیز شمالی امریکہ، جنوبی امریکہ اور وسطی امریکہ میں بھی ملی ہیں۔
چند افریقی قبیلوں کیساتھ سوڈان، کانگو، مڈغاسکر، آئیوری کوسٹ اور آسٹریلیا میں بھی یہ طریقہ اپنایا جاتا تھا۔
ٹورس سٹریٹ جزیرے (Torres Strait
Island) میں بھی ایسی ممیز ملی ہیں جو سیدھی نمائشی طور کھڑی ھوئی ہیں۔
مارکوئس (Marcois) میں دریافت شدہ ممیز دھوپ کی تمازت سے خشک ھوئی ملی ہیں۔
جنوبی امریکہ میں آروکاس، پیروویان (Peruvian), کوچوا (Quechua) نامی قبیلوں میں بھی حنوط کا رواج تھا۔
سیبسیا (Cibcia) کےلوگ بھی اپنے سرداروں
کی لاشوں میں چیڑ کا گوند بھر کر غاروں میں رکھ دیتے تھے۔
غرض مصر کے علاؤہ بھی بہت سے خطوں میں یہ رواج عام ھو چکا تھا۔
ٹائی ٹینک (Titanic)
سانحہ 1912ء__پہلے اور بعد میں
تباہی کی وجہ ایک مہلک موڑ یا صرف 20 لائف بوٹس (Life-Boats)؟
یا پھراسکے علاؤہ بھی تیز رفتاری، اخراجات میں کٹوتی، موسمی حالات، آئس برگ وارننگ اور دوربین کی کمی نے سب سے بدترین سمندری سانحات میں حصہ ڈالا؟
ایک اندازے #British #History
کے مطابق 31 مارچ 1911 کو بیلفاسٹ، آئرلینڈ کی گود میں 100,000 لوگ رائل میل شپ (RMS) Titanic کی لانچنگ دیکھنے کے لیے جمع ھوئے۔
ایک "نا ڈوبنے والا" جہاز ٹائی ٹینک اپنے دور کا سب سے بڑا اور سب سے پرتعیش کروز لائنر تھا، جس کی پیمائش 882 فٹ سے زیادہ لمبی تھی۔
ٹائی ٹینک کاکل وزن 53,000
کے لگ بھگ تھا اور چار شہروں کے بلاکس کی لمبائی 175 فٹ اونچی اور اس کا وزن 46,000 ٹن سے زیادہ تھا۔
قابل فخر اور قابل دید جدید ترین ٹیکنالوجی پر مشتمل جہاز جس میں ایک جدید ترین برقی کنٹرول پینل، چار لفٹس اور ایک جدید وائرلیس مواصلاتی نظام شامل تھا۔
اس کے باوجود 14 اپریل 1912 کی رات
#request
رسول حمزہ طوف (داغستان، روس)
Rasul Gamzatovich Gamzatov (1923-2003)
وہ نام جو سابقہ سوویت یونین اور موجودہ روس کی ایک چھوٹی سی جمہوری ریاست داغستان کی پہچان بنا۔
ممکن نہیں کہ ادب سےدلچسپی رکھنے والے روسی نژادمسلمان ادیب رسول حمزہ کےنام سےناواقف ھوں۔ #Russian #Literature
ایک معمولی روایتی چرواہے کے گھر آنکھ کھولنے والے طوف نے 11 سال کی عمر میں شاعری کا آغاز کیا۔
عالمگیر شہرت یافتہ شاعر اور نثر نگار رسول حمزہ ایک بہترین صحافی، ترجمہ نگار، عمدہ سیاستدان، تھیٹر نگار، ریڈیو رائٹر، مدھم اور سریلے مغنی شاعر بھی تھے۔
داغستان میں جنگ چھڑی تو آپ کو تعلیمی
سلسلہ منقطع کرنا پڑا جو 1945 میں دوبارہ شروع ھوا لیکن شاعر کا پہلا اور آخری حوالہ شاعری ہی ھوا کرتا ھے۔ ایک ادیب کیلئے اسکے الفاظ ہی اسکی شناخت ھوا کرتے ہیں۔
آپ کے لکھے ھوئے گیت ”زہوراولی“ کو سوویت نغمے کے طور پر گردانا گیا۔ طوف کی شاعری، گیت اورنغمات انکی اپنی مادری زبان "آواری"
جل محل (جےپور راجھستان، بھارت)
(Jal Mahal/Water Palace, India)
"سنا ھے لوگ اسے آنکھ بھر کے دیکھتے ہیں"
1799ء____ راجپوت طرزتعمیر کا شاہکار
تقدیر ہر شخص کو دنیا کی تخلیقات کی تلاش کا موقع نہیں دیتی اسلیے حس تخلیق بیدار رھنی چاہییے۔
ایک لمحے کیلئے #History #Archeology #architecture
"گولڈن ٹیمپل" (1604, امرتسر) سے قریبی مشابہت رکھتا پانی پر اکیلا، خاموش، پرسکون کھڑا جل محل یعنی "واٹر پیلس" کیسےممکن ھے نظر کو خیرہ نہ کرے!
1799 میں تعمیر شدہ یہ 5 منزلہ جل محل حیران اس وقت کرتاھے جب پتا چلتا ھے کہ اسکی پہلی چارمنزلیں پانی کےنیچے واقع ہیں۔
یہ تاریخی محل مہاراجہ
سوائی پرتاپ سنگھ نے بنوایا تھا۔ مان ساگر جھیل پر سوائی مان سنگھ نے دو پہاڑیوں کے درمیان ڈیم بنوایا تھا۔ یہ راجپوت فن تعمیر کا بہترین نمونہ ھے۔
جل محل اپنی خوبصورتی اور فن تعمیر کی وجہ سے بہت سے سیاحوں کو اپنی طرف متوجہ کرتا ہے۔ جل محل ایک رومانوی جگہ ھے کیونکہ یہ سرخ ریت کے پتھر
مہاراجہ وکرم آدتیہ (اوجین، ھندوستان)
(102 BC- 15 AD)
پنجابی کیلنڈر کا بانی
سمدر گپت کا بیٹا وکرم آدتیہ جو عہد قبل مسیح میں اوجین (Ujjain) کا مہاراجہ تھا، اپنے علم، شجاعت اور دوراندیشی کی وجہ سے مشہور ھوا۔
بادشاہ وکرم آدتیہ کی اولاد کے لوگ کاہلوں کہلاتے ہیں۔ اسی #ancient #India
مہاراجہ کو تاریخ میں اس کے لقب بکرَم اجیت سے لکھا گیا ھے۔ یہ مہاراجہ دیسی کیلنڈر کا خالق کہلایا جسے اسی کے نام بکرم سے ہی منسوب کیاگیا۔
اس قدیمی کیلنڈرکا آغاز 100 سال قبل مسیح میں ھوا۔ اس کیلنڈر کا اصل نام وکرمی کیلنڈر ھےجو راجہ وکرم آدتیہ کےنام پرھے۔
اس شمسی تقویم میں سال "چیت”
کے مہینے سے شروع ھوتا ھے۔
تین سو پینسٹھ (365) دنوں کے اس کیلینڈر کے 9 مہینے تیس (30) تیس دنوں کے ھوتے ھیں، اور ایک مہینہ وساکھ اکتیس (31) دن کا ھوتا ھے، اور دو مہینے جیٹھ اور ھاڑ بتیس (32) بتیس دن کے ھوتے ھیں۔
عیسویں مہینوں کے نصف سے ان مہینوں کاآغاز ھوتا ھے۔
14 جنوری۔۔۔ یکم ماگھ
#اردو_زبان #Philology
لفظ کہا ھوا ھو یا لکھا ھوا__
علم ومعلومات کے ایک نسل سے دوسری نسل تک پہنچنے کاوسیلہ لفظ ہی ھوتے ہیں (Bloomfield Theory*)۔
لکھے ھوئے لفظ کی عمر کہے ھوئے لفظ سے کہیں زیادہ ھوتی ھےاس لئے انسان نے فن تحریر ایجاد کیا۔
ایک زمانہ تھاجب فن طباعت سے لفظ کی عمر اورصحت
میں اضافہ ھوا مگر پھر بدقسمتی سے اسی فن طباعت نے غلط الفاظ کو درست سمجھنے پر مجبور کر دیا ھے۔
طباعت نے کچھ یوں ہماری اردو کا ستیاناس کیا ھے؛
غلط درست
انشاء اللہ ان شاءاللہ
انکساری انکسار
اےخدایا خدایا
بارات برات
بخیریت سے خیریت سے
بےنیل ومرام بےنیل مرام
السلام وعلیکم السلام علیکم
آب زم زم کاپانی آب زم زم
بمع اہل وعیال مع اہل وعیال
سورج مندر (گجرات, بھارت)
(Sun Temple, 1050 CE)
ملتان (پاکستان) میں واقع سورج مندر جو ھندوستان میں سورج بنسی کےپجاریوں کا سب سےقدیم، اولین اور بڑا مرکز تھا۔ بھارتی ریاست گجرات کاسورج مندر اسی سلسلے کی ایک کڑی ھے۔
سورج مندر (بھارت) حیدراباد سے100کلو میٹر کےفاصلے پر #Temple #History
ضلع مہسنہ (Mehsana) کے مودھیرا گاؤں میں واقع شمسی دیوتا سوریا کے لیے وقف ایک ہندو مندر ھے۔ دریائے پشپاوتی کے کنارے واقع یہ مندر سائنسی اور ثقافتی لحاظ سے یہ مثال آپ ھے۔
سورج مندر چاؤلوکیہ خاندان کے حکمراں بھیم اول کے عہد میں 1026-27 عیسوی کے بعد تعمیر کیا گیا۔چاؤلوکیہ اپنے خاندان
کو اسی سوریا (سورج) کی اولاد تصور کرتے تھے۔
مندر میں سونے کے زیورات سے جڑا بت رکھا گیا تھا اسی بت پر سورج کی پہلی کرنیں پڑتی ہیں۔ اصل چھت اہرام مصر کی مانند تھی جو اب نہیں رہی۔
مندر کے احاطے میں تین بنیادی اجزاء ہیں: گدھا منڈپا (مزار ہال)، کنڈا (پانی کا ذخیرہ) اور سبھا منڈیا