مرشد پلیز آج مجھے وقت دیجئے
مرشد میں آج آپ کو دکھڑے سناؤں گا
مرشد ہمارے ساتھ بڑا ظلم ہو گیا
مرشد ہمارے دیس میں جنگ چھِڑ گئی
مرشد ہمارے ذہن گرفتار ہو گئے
مرشد ہماری سوچ بھی بازاری ہو گئی
مرشد ہماری فوج کیا لڑتی حریف سے
مرشد اسے تو ہم سے ہی فرصت نہیں ملی
مرشد بہت سے مار کے ہم خود بھی مر گئے
مرشد ہمیں زرہ نہیں تلوار دی گئی
مرشد ہماری ذات پہ بہتان چڑھ گئے
مرشد ہماری ذات پلندوں میں دب گئی
مرشد ہمارے واسطے بس ایک شخص تھا
مرشد وہ ایک شخص بھی تقدیر لے اُڑی
مرشد خدا کی ذات پہ اندھا یقین تھا
افسوس اب یقین بھی اندھا نہیں رہا
مرشد محبتوں کے نتائج کہاں گئے؟
مرشد میری تو زندگی برباد ہو گئی!
مرشد ہمارے گاؤں کے بچوں نے بھی کہا
مرشد کُوں آکھیں آکے ساڈا حال دیکھ ونج
مرشد ہمارا کوئی نہیں ایک آپ ہیں
یہ میں بھی جانتا ہوں کہ اچھا نہیں ہوا
مرشد میں جل رہا ہوں ہوائیں نہ دیجئے
مرشد ازالہ کیجئے دعائیں نہ دیجئے!
مرشد خاموش رہ کے پریشاں نہ کیجئے
مرشد میں رونا روتے ہوئے اندھا ہو گیا
اور آپ ہیں کہ آپ کو احساس تک نہیں؟
صبر کیجئے صبر کا پھل میٹھا ہوتا ہے
مرشد میں بھونکدا ہاں جے کائی شے وی نئیں بچی
مرشد وہاں یزیدیت آگے نکل گئی
اور پارسانماز کے پیچھے پڑے رہے
مرشد کسی کے ہاتھ میں سب کچھ تو ہے مگر
مرشد کسی کے ہاتھ میں کچھ بھی نہیں رہا
مرشد میں لڑ نہیں سکا، پر چیختا رہا
خاموش رہ کے ظلم کا حامی نہیں بنا
مرشد جو میرے یار ، بھلا چھوڑیں رہنے دیں
اچھے تھے جیسے بھی تھے، خدا مغفرت کرے
مرشد ہماری رونقیں دوری نگل گئی
مرشد ہماری دوسرے شبہات کھاگئے
مرشد، ایہہ فوٹو پچھلے مہینے چھکایا ہم
ہن میکوں ڈیکھ، لگدا اے جیویں فوٹو میڈا ہے؟
یہ کس نے کھیل کھیل میں سب کچھ الٹ دیا
مرشد یہ کیا کہ مر کے ہمیں زندگی ملے
مرشد ہمارے ورثے میں کچھ بھی نہیں سو ہم
بے موسمی وفات کا دکھ چھوڑ جائیں گے!
مرشد کسی کی ذات سے کوئی گلہ نہیں
اپنا نصیب اپنی خرابی سے مر گیا
مرشد، وہ جس کے ہاتھ میں ہر ایک چیز ہے
شاید ہمارے ساتھ وہی ہاتھ کر گیا!
مرشد دعائیں چھوڑ تیرا پول کھل گیا
تو بھی میری طرح ہے، تیرے بس میں کچھ نہیں
انسان میرا درد سمجھ سکتے ہی نہیں
میں اپنے سارے زخم خدا کو دکھاؤں گا
اے ربِ کائنات، ادھر دیکھ میں فقیر
جو تیری سرپرستی میں برباد ہو گیا
پروردگار بول، کہاں جائیں تیرے لوگ
تجھ تک پہنچنے کو بھی وسیلہ ضروری ہے
پروردگار آوے کا آوا بگڑ گیا
یہ کس کو تیرے دین کے ٹھیکے دئیے گئے
پروردگار ظلم پہ پرچم نگوں کیا
ہر سانحے پہ صرف ترانے لکھے گئے
ہر شخص اپنے باپ کے فرقے میں بند ہے
پروردگار تیرے صحیفے نہیں کھلے
کچھ اور بھیج، تیرے گزشتہ صحیفوں سے
مقصد ہی حل ہوئے ہیں مسائل نہیں ہوئے!
جو ہو گیا سو ہو گیا اب مختیاری چھین
پروردگار اپنے خلیفے کو رسی ڈال
جو تیرے پاس وقت سے پہلے پہنچ گئے
پروردگار ان کے مسائل کا حل نکال
پروردگار صرف بنا دینا کافی نئیں
تخلیق کرکے بھیج تو پھر دیکھ بھال کر
ہم لوگ تیری “کُن” کا بھرم رکھنے آئے ہیں
پروردگار یار، ہمارا خیال کر!
(افکار علوی)